ایک زریں باب کا عنوان

عروج آزاد

پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے۔اس کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔اسی لیے اس کے اہم دن ہم بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ان ہی دنوں میں یوم آزادی اہم ترین دن ہے۔

عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری زندگی آزادی میرا ایمان ہے
عشق پہ کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
اور آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

پاکستان بننے سے قبل پورے برصغیر پر تقریباً سوسال تک انگریزوں کا قبضہ رہا۔انگریزوں کے قبضے سے پہلے برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلمان مسلسل کوشش کرتے رہے اللہ تعالیٰ محنت کا پھل ضرور دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سی قربانیاں دینے کے بعد آخر کار چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔اس دن برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گے اور اپنا ایک الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔یہ ملک ہم نے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے حاصل کیا ہے۔

قوم کی تاریخ کی پہچان ہے چودہ اگست
ایک زریں باب کا عنوان ہے چودہ اگست

اس کامیابی کی خوشی میں ہم ہر سال چودہ اگست کو سارا دن خاص تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ان بزرگوں کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے تقریریں کرتے ہیں جنہوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمارے لیے یہ وطن بنایا۔ان تقریروں میں اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ ہم ان قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں اور ملک کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔یوم آزادی کی خوشی میں ہر سال عام تعطیل ہوتی ہے البتہ اسکول اور کالج صبح کو کچھ دیر کے لیے کھلتے ہیں۔سکولوں اور کالجوں کے طالب علم خاص قومی پروگرام بناتے ہیں۔وطن کی محبت کے نغمے گاتے ہیں تقریریں کرتے ہیں

توحید کا نعرہ ہے۔۔۔امید کا پرچم ہے
اپنی مری دھرتی ہے۔۔۔اپنا مرا موسم ہے
اس خاک پہ میں قربان۔۔اس کی ہی دیوانی ہوں
میں پاکستانی ہوں۔۔۔میں پاکستانی ہوں

یوم آزادی کے موقع پر سارے ملک کے شہروں اور قصبوں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔لوگ جوق در جوق گھروں سے باہر آ جاتے ہیں سرکاری اور نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔کراچی میں لوگ بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر جاتے ہیں۔قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں۔مزار کی حفاظت کے لیے ایک فوجی دستہ ہمیشہ مزار پر موجود رہتا ہے اس روز یہ محافظ دستہ بھی تبدیل کیا جاتا ہے مساجدمیں ملک و قوم اور تمام مسلم امت کی ترقی و خوشحالی کے لیے دعا کی جاتی ہے۔

وطن گھر کی طرح ہوتا ہے وطن سے محبت ایمان کا رکن ہے۔وطن کی سرحدوں کی حفاظت اس سے بے انتہا محبت کی علامت ہے۔اس سے مراد نظریاتی سرحدیں بھی ہیں اور جغرافیائی سرحدیں بھی۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ نئی نسل کو نظریہ وطن سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے قول ہے: ”مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس وطن پر نچھاورکرنے کے لیے صرف ایک زندگی ہے”۔یہاں پر کچھ باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔جن کو سمجھنے سے ہمارے سامنے چودہ اگست کی اہمیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔

ہم نے اپنا وطن بہت مشکلات اور جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے۔اس کے پیچھے لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے۔لاکھوں جوانوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے۔لاکھوں عورتوں کے سہاگ لٹے،ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوئی اور لاکھوں لوگوں نے اپنے گھر بار لوٹا دیے تب جا کر یہ وطن پاکستان ہمیں حاصل ہوا۔پاکستان کی تاریخ پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ آزادی ایک لازوال دولت ہے جس کی حیثیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور پھر دنیا میں جو ممالک آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں ان پر ذرا غور کریں تب جا کر آزادی کی اہمیت سے صحیح معنوں میں ہم واقف ہو سکیں گے۔مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر کو دیکھ لیں یا فلسطین کو دیکھ لیں اسی طرح اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو آزادی کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس سے کوئی بھی نا آشنا نہیں ہے۔

تاریخ کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی موجودہ صورتحال کافی گمھبیر اور بہت سی مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔جن میں سر فہرست ناقص حکومتی نظام،مہنگائی،رشوت بدعنوانی،ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی آ بادی کے مسائل وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب مسائل ہم خود حل کریں گے اور ان مشکلات سے ملک کو باہر نکالیں گے۔باہر سے کوئی نہیں آتا یہ سب ٹھیک کرنے کے لیے اور جو کوئی آتا ہے وہ پھر حکمرانی کرنے آتا ہے۔جیسے کہ اس خطے میں تاتاری آ ے،مغل آ ئے،انگریز آ ئے۔انہوں نے اچھی حکومت کی یا بری لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ حاکم تھے اور یہاں کے باشندے محکوم۔کیا ہم اپنی آزادی کھونا چاہیے ہیں؟کیا ہم پھر سے غلام بننا چاہتے ہیں؟یقیناً نہیں۔تو پھر ہم کسی دوسرے کا انتظار کیوں کر رہے ہیں؟

اب ہمیں اس ملک کو خود ہی سنوارنا ہے،خود ہی اس کی خرابیوں کو دور کرنا ہے۔جیسے کوئی شخص غریب ہوتا ہے تو اپنا گھر چھوڑ کر اپنے امیر رشتہ دار کے گھر نہیں رہنے لگتا،اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس گھر میں مہمان کہلاتا ہے اس گھر کا مالک نہیں بن جاتا،بالکل ایسے ہی جیسے اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک جانے والے لوگ وہاں سیکنڈ سیٹزن کہلاتے ہیں۔آ دھے حقوق کے مالک ہوتے ہیں۔اس لئے عقلمند وہی ہوتے ہیں جو اپنے گھر کو سجانے سنوارنے کی کوشش کرتے کرتے ہیں۔ اس کی تعمیر اور ترقی پر توجہ دیتے ہیں۔کسی انسان یا کسی ملک کی خوبیوں کو سراہنا بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات ہے ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنا۔

پاکستان میرا ملک ہے،ہمارا ملک ہے،ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب کوئی پاکستانی اپنے ملک کی برائی کرتا ہے یا کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں،پاکستانی مردوں یا عورتوں میں فلاں برائی ہے۔کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ یا ہم کسی اور ملک سے آ ے ہیں جو پاکستانی کہ کر مذاق اڑاتے ہیں؟

آئیں اس جشن آزادی پر ہم یہ عہد کریں کہ پاکستان ہمارا ہے،اچھا ہے یا برا،جیسا بھی ہے یہ ہمارا وطن ہے۔ہمیں اس سے محبت ہے۔ہمیں اس پر فخر ہے اور ہم صرف چودہ اگست کو تقریریں اور نعرے بازی نہیں کریں گے بلکہ ہر وقت اس کی ترقی کے حصول کے لیے کوشاں رہیں گے ان شا ء اللہ

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن کو ہمیشہ سلامت رکھے اور وطن عزیز پاکستان کو اس وقت جتنی بھی مشکلات درپیش ہیں اپنے فضل و کرم سے دور فرمائے اور وہ تمام ممالک جن کو آزادی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔انہیں اللہ تعالیٰ اس عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے۔!آمین

٭٭٭