ایک شخص ایک کارواں

مولانا عبد المنان اس جہان فانی سے دارلبقاء کی طرف کوچ کرگئے ۔انا للہ وان الیہ راجعون۔ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھناہے ،سو مولاناؒ نے بھی وہ ذائقہ 23ستمبر 2024 کوچکھ لیا۔ان کے فکری و علمی رہنما امام مودودیؒ22 ستمبر 1979 کو اس جہان فانی سے انتقال فرماگئے تھے۔اللہ تعالیٰ دونوں کے درجات بلند فرمائے ۔مولانا عبد المنان ؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ایک طرف اپنی زندگی میں وہ جماعت اسلامی کے رہنما اور اس کی فکر کے علامتی نقیب بلکہ اس کے نظریاتی کام کے پھیلائو میں دل و جان سے متحرک بھی نظر آئے ۔مولانا مودودی ؒ کے لٹریچر سے نہ صرف خود کسب فیض حاصل کیا بلکہ اسے قریہ قریہ نگر نگر لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔گلگت بلتستان کے بانی امیر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔وہیں دوسری طرف روحانی محاذ پر جناب چلاسی بابا دامت برکاتہم کے نظریات اور افکار کا پرچم اٹھائے ہوئے دکھائی دئیے ۔ اپنی کتاب’’ ڈوئیاں سے زوجیلا تک ۔۔۔میرا سفر جہاد ‘‘میںخود فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں ،کس کس کا شکر ادا کروں ،تاہم میری بہت بڑی خوش قسمتی یہ تھی کہ اللہ تعلی نے مجھے شمالی علاقوں میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے بنایا۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسلامی تحریک کا کارواں یہاں آئے گا تو میں بھی اس کا استقبال کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوں گا ۔اللہ تعلی کی دوسری بڑی مہربانی مجھ پر یہ ہوئی کہ میرا تعلق حضرت مولانا غلام النصیر (چلاسی بابا) سے پیدا ہوگیا ۔۔۔۔آگے لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی ؒ اور چلاسی بابا میرے لئے دونعمتوں کی مانند ثابت ہوئے اور ان دونوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ۔پہلے میں نے سید مودودیؒ کی کتابوں سے فیض حاصل کیا اور مجھے اس سے جینے کا مقصد معلوم ہوا ۔سید ؒنے اسلام کی جدوجہد کا سپاہی بنادیا۔زندگی میں ان کے ساتھ کئی ملا قاتیں ہوئیں ۔ان کو ایک بار دیکھنے والا ہمیشہ کے لئے ان کا اسیر ہوجاتا تھا۔میں آج بھی ان کی شفقت ،ان کے پر خلوص لہجے ،ان کے چہرے سے جھلکتی ذہانت اور علمی وجاہت کو اپنے تصور میں محسوس کرسکتا ہوں ۔۔۔اس کے بعد چلاسی بابا سے میں بہت استفادہ کیا جو کہ پہلے کسی استاد سے نہیں کرپایا تھا ۔شرک و بدعت کے خاتمے کو وہ موضوع سخن بناتے ہیں اس کے بعد دوسرے موضوعات پر گفتگو فرماتے تھے۔ ہر موضوع کی دلنشین پیرائے میں تشریح فرماتے ہیں ‘‘مولانا عبد المنان ؒ نے سو سال سے زیادہ زندگی اس ناپائیدار دنیا میں گزاری ۔ان کی پوری زندگی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں گزری۔گلگت بلتستان کی آزادی میں بیک وقت ایک سپاہی اور رہنما کا کردارادا کیا۔تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔اس طرح ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔لداخ ہو یا گلگت بلتستان ،جموں ہو یا سرینگر ،مظفر آباد ہو یا میر پور ،سب مل کے ایک ریاست کے اٹوٹ حصے ہیں ،جس ریاست کو ریاست جموں و کشمیر کا نام دیا گیا ہے ۔اقوام متحدہ کی قرادادوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس پورے خطے میں جب تک لوگوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے کا حق نہیں دیا جائیگا تب تک یہ پورا خطہ متنازع ہے ۔پاکستان ان قراردادوں پر عمل کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے لیکن بھارت کی قیادت اپنا جبری قبضہ چھوڑنے اور کشمیری عوام کو ان کا حق دینے کیلئے تیار نہیں ۔اسی وجہ سے پچھلے 77برسوں سے تحریک آزادی کشمیر سیاسی و عسکری محاز پر جاری ہے ۔اس تحریک کے عظیم رہنمائوں میں مولانا عبد المنانؒ بھی شامل تھے اور یہی وجہ ہے کہ آر پار کشمیری عوام اور کشمیری مزاحمتی قیادت انہیں یاد کررہی ہے اور یاد کرتی رہے گی ۔ایسی شخصیات کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔اللہ تعالیٰ مولاناؒ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی قربانیوں کے صدقے تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی سے ہمکنار کردے ۔آمین

٭٭٭