ایک شخص ایک کارواں

ڈاکٹر محمد مشتاق خا ن

امیر جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان

وہ ایک مبلغ بھی تھے اور قائد بھی تھے۔ اسلامی معیشت پر ایک مستند حیثیت کا درجہ رکھنے والی شخصیت تھے

عالی دماغ ہمارا بزرگ جنہیں ان کے اسلامی خدمات کے اعتراف کے طور پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا

ان کی ذات سے بہت سارے اداروں کی تخلیق جڑی ہوئی ہے

پروفیسر خورشید صاحب کی تحریک آزادی کے ساتھ کمٹمنٹ ،کشمیری قیادت کے ساتھ تعلق ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے

میں جب بھی ان کی مجلس میں بیٹھتا تو ان کے شاگرد کے طور پربیٹھتا تھا

پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام پروفیسر صاحب کا خواب تھا۔جس کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے

پروفیسر خورشید احمد ایک مہتاب کی حیثیت رکھنے والی اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی مضبوط اور توانا آواز مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کے شاگرد اور دست راست 93برس کی عمر میں آخری سانس تک اپنے نظریے پر کاربند رہنے والی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔کچھ لوگ دنیا چھوڑتے ہیں تو ان پر افسوس بھی کیاجاتاہے،مگر یہ افسوس ان کے خاندان تک محدود ہوتا ہے۔البتہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو جب دنیا سے رخصت ہوتی ہیں تو انہیں مختصر حلقہ ہی نہیںبلکہ پورا زمانہ انہیں یادکرتا ہے ۔پوری تاریخ ان کو یاد رکھتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر خورشید احمد بجا طور پر ایسی قد آور علمی اور دوراندیش شخصیت کے طور پر دنیا میں جیئے کہ آج دنیا انہیں یاد کرتی ہے۔ ایک ایسی شخصیت کہ جس کو رب العالمین نے انتہا درجے کا بلند پایا علمی انسان بنایا ہو،پروفیسر خورشید احمد ایک محقق،مفکر،ماہر معاشیات بطور خاص اسلامی معیشت پر ایک مستند حیثیت کا درجہ رکھنے والے شخص تھے اور ساتھ ساتھ وہ امانت داراور دیانتدار سیاستدان بھی تھے۔ وہ ایک مبلغ بھی تھے اور قائد بھی تھے۔ یہ ساری صلاحیتیں اللہ تعالی نے ان کے اندر ایک ساتھ رکھی تھیں۔ ایسے بہت کم لوگ آپ کو ملیں گے جن کو اللہ رب العالمین نے کمال صلاحیتیوں سے نوازا ہو اور وہ اپنی ان کمال صلاحیتوں کو پوری فیاضی کیساتھ بروئے کار لارہاہو۔ پروفیسر خورشید احمد بھی اللہ کے شکر گزار بن کررہے۔ پروفیسرخورشید احمد نے اللہ رب العالمین کی ان عطاؤں کا بھی پوری فیاضی کیساتھ انسانیت کی فلاح خاص کر پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کیلئے استعمال کیا۔

70سے زائدکتابوں کے مصنف اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تفہیم القران کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والی شخصیت اور اسلامی معیشت پر صرف کتاب ہی نہیں لکھی بلکہ دنیا بھر کی درجنوں دانشگاہوں میں جا کر لیکچرز دینے والی ہستی اور پھر چار بڑی یونیورسٹیاں ہیں جنہوں نے انہیں اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی۔ شاہ فیصل ایوارڈ جیسا ایک بین الاقوامی ایوارڈ ملا۔مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کی صفوں کا یہ دوسرا بڑا انسان ہے ۔عالی دماغ ہمارا بزرگ کہ جنہیں ان کے اسلامی خدمت کے اعتراف کے طور پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح اسلامی دنیا کے دیگر جتنے ممتاز ادارے ہیں۔ ان میں ایشین ڈیویلپمنٹ بینک ہو یا کوئی اور ادارہ ،کے علاوہ بہت بڑی بڑی یونیورسٹیز ہوں ان کے بہت سارے بورڈز کے ممبر رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اس تخلیقی کام کو اس قدر آگے بڑھایا کہ جس کا اس مختصر کالم میں تذکرہ کرنا مشکل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر خورشید صاحب جہاں تقریبا کوئی 16 برس کے قریب سینیٹ کے ممبر بھی رہے۔ پاکستان میں ان کا کردار اور خدمات ہیں۔ اسلامی سماج کے خد و خال کو نمایاں کرنے میں اقامت دین کی ضرورت،اہمیت و افادیت پاکستانی معاشرے کیلئے وضع کرنے میں ان کا جو کردار رہا ہے وہ بھی بہت مثالی ہے ۔

پروفیسر خورشید احمد اس اعتبار سے بھی بہت ممتاز مقام رکھتے ہیں کہ ان کی ذات سے بہت سارے اداروں کی تخلیق جڑی ہوئی ہے ایک طرف انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسڈیزIPS جیسا معتبر ادارہ پاکستانی قوم کو بنا کر دیا جو ہمارے سماج،سیاست اور دفاعی حکمت عملی کے محاذوں پر بھرپور طریقے سے کام کررہاہے۔یہ ادارہ حکومت پاکستان اور دیگر ہم اثر اسلامی دنیا کے ممالک میں انہیں بیسیوں برسوں سے اپنی خدمات ایک پالیسی فریم ورک کی صورت میں بنا کر پیش کر رہا ہے یہ اتنا بڑا کام ہے جوپروفیسر خورشید احمد نے بحسن خوبی انجام دیا ہے۔شاید ہی کسی اور شخصیت نے کیاہو۔اسی طرح آزاد کشمیر میں ریڈ فاؤنڈیش ہو یا غزالی ایجوکیشن کے تعلیمی ادارے جو پورے آزاد کشمیر کے علاوہ پاکستان میں اس وقت تعلیم کا مضبوط نیٹ ورک ہیں،بنیادی طورپر یہ آئیڈیا بھی پروفیسر خورشید احمد کا ہی تھا۔

راقم کو بطور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور مختلف ذمہ داریوں پر رہتے ہوئے مرکزی مجلس شوریٰ ہو یا کشمیرکمیٹی کے اجلاس ہوں، پروفیسر خورشید احمد کے قریب رہنے اور ان کے ساتھ گفت وشنید کرنے کا موقع ملا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جب ان کی مجلس میں بیٹھتا تو ان کے شاگرد کے طور پربیٹھتا تھا۔ مجھے بہت کچھ سیکھنے کوملتا، میں اس شخصیت سے بے حدمتاثر ہوتا۔
تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے اس حوالے سے مکار دشمن بھارت نے ہمیشہ مکروفریب کی حکمت عملی اپنائی اور کشمیری عوام کو گمراہ کرنے کی سازشیں کیں مگر اس حوالے سے جب بھی پروفیسر خورشید احمد کے ساتھ بیٹھتے تو وہ ہمیشہ نئی اور ایسی حکمت عملی بتاتے کہ مایوسیوں کے بادل چھٹ جاتے اور ہر طرح کی مایوسی امید میں بدل جاتی۔
کشمیری قیادت کی ہمیشہ درست سمت رہنمائی کرنے کا فریضہ بڑے ہی مدلل انداز میں انجام دیا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بڑے بڑے دماغ اور طویل سفارتی مہارتیں رکھنے والے جب پروفیسر خورشید احمد کے پاس بیٹھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ کوئی نئی چیز نیا اسلوب اور نئی حکمت عملی سیکھ کر اٹھے ہیں۔ میں بطور خاص اس مہارت کو اجاگر کرنا چاہوں گا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جہاں پروفیسر خورشید احمد نے بہت ساری کتابیں لکھیں۔ وہیں بہت سارے سیمینارز کا انعقاد کرنے میں پیش پیش رہے۔ جہاں پروفیسر صاحب نے بین الاقوامی محاذ پر تحریک آزادی کی وکالت کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی وہاں تحریک آزادی کشمیر کی ہر سطح کی قیادت کو نیا ویژن دینے، نئی حکمت عملی اور خاص کر دشمن کی جارحانہ حکمت عملی کو سمجھ کر ا س کے جواب میں جو بہترین حکمت عملی اختیار کرنے کی ترغیب دی ۔پروفیسر خورشید صاحب کی تحریک آزادی کے ساتھ کمٹمنٹ ،کشمیری قیادت کے ساتھ تعلق ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔
اسی طرح پروفیسر صاحب نے جہاد افغانستان میں بھی بڑی فکری آبیاری کی اس وقت بھی بطور سینیٹر انہوں نے روسی مظالم کے خلاف پاکستان کے اہل دانش،سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کو تیار کیا کہ مظلوموں کی حمایت کی جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی آزادی اور وہاں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں ہوں یا مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی اور وہاں اسلامی نظام کے قیام کیلئے جاری جدوجہد میں پروفیسر احمد کا کردار ایک روشن باب ہے۔پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام پر وفیسر صاحب کا خواب تھا۔جس کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے یہ سارے خواب باقی خوابوں کی طرح شرمندہ تعبیر کرے۔
میں نے بطور ایک نظریاتی اور فکری کارکن کے بھی یہ سبق سیکھا کہ جب ایک نظریئے کے غلبے کے کوئی آثار بھی دور دور تک نظر نہ آتے ہوں لیکن ایک بندہ اپنی زندگی کے پورے 93 برس وہ اس چیز سے بے نیاز ہو کر صرف کرےکہ ہم کب ایک غالب جماعت کا روپ دھارتے ہیںبلکہ ہر روز وہ اپنے دن کا اغاز ایسے کر ے کہ ٓاج ہی کے کام کے نتیجے میں غلبہ حاصل ہوگا ،وہ اپنی صلاحیت اور اپنی ہمت کے سارے قطرے نچوڑ کر رکھ دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ انتھک کوشش،محنت اور یہ وہ ٹاسک چیزنگ والاسٹائل اور یہ وہ اپنے اہداف کا تعاقب کرنے والابے مثال طریقہ دنیا میں کسی بھی تحریکی انسان نے اگر اپنانا ہے تو پروفیسر خورشیدا حمد ان کیلئے مشعل راہ ہیں۔
میرا احساس ہے کہ ایسا عالی دماغ ہماری صفوں میں روز روز پیدا نہیں ہوتا اور ان کے چلے جانے سے تحریک اسلامی مجموعی طور پر پاکستان کے اندر بھی اور دنیا بھر میں بھی بہت متاثر ہوگی اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ رب العالمین ہم نے انمول ہیرے جس کو ہم نے تہہ زمین دفنا دیا ہے یا رب العالمین ان کی کمی کو پورا کرتے ہوئے تحریک کو اسی طرح اور ان سے بڑھ کر بھی ایک متبادل اور عالی دماغ انسان فراہم کردیں۔
بطور خاص یورپ اور تہذیبوں کی کشمکش میں اپنے آپ کو شامل اور شریک کرنے والے دیگر مذاہب یا ادیان میں ان کے ساتھ جس ڈائیلاگ کا ایک اسلوب جناب پروفیسر خورشید احمد نے دیا وہ انتہائی قابل تحسین عمل ہے ۔یورپ کے اندر پیدا ہونے والے یا وہاں منتقل ہو جانے والے مسلمان اس ماحول کے مطابق اپنی دعوت پیش کرنے کا جو اسلوب اور پھر اپنی شخصیت کو سنبھال کر اپنی اس حقیقی مشن جو یعنی حق کی گواہی کا جومشن ہے حق کی شہادت دینے کا مشن ہے اس پر جس طرح انہوں نے نوجوانوں کیلئے نئے نئے ماڈیولز اور طریقے ایجاد کیے ان کیلئے تربیت کا پورا پیکج دیا اور پھر عملا بہت ساری اجتماعیتیں بنائیں اورپھر لیسٹر برطانیہ کا اسلامک سینٹر بنا کر بنیاد رکھی تو میرا یہ یقین ہے کہ صبح قیامت تک یہ اپنا نور اور اپنی خوشبو کی کرنیں اپنے چاروں اطراف پھیلاتا رہے گا اور ہم ایشیائی لوگوں کے مقابلے میں جن کے پاس مولانا مودودی علیہ الرحمہ کا اردو میں موجود لٹریچر ہے انہوں نے یورپین و امریکن کمیونٹی اور اس میں جو مسلم برادری ہے اس کے سامنے اس لٹریچر کی تفہیم اور اس کا انگلش میں تراجم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ لٹریچر تیار کرتے ہوئے بہت بڑا سرمایہ وہ چھوڑ کر گئے ہیں۔۔ میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العالمین انہیں جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیںمیری دعا ہے کہ جن اداروں کی تخلیق وہ باعث بنے، جیسے ریڈ فاؤنڈیشن یاغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ یا انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد، لیسٹر برطانیہ کا اسلامک سینٹراللہ رب العالمین ان اداروں کو بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے۔ اقامت دین کا پرچم پوری قوت کیساتھ تھامنے کی توفیق دے اور وہ جماعت جس کے ساتھ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے جس کا نام جماعت اسلامی ہے اللہ رب العالمین اس جماعتکو دنیا میں بالعموم اور پاکستان،مقبوضہ و آزاد خطوں ، بنگلہ دیش میں بالخصوص اسلام کا عادلانہ نظام اس کے قیام کی توفیق سے بھی نواز ے آمین۔ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ قیامت کے روز ہم سب کو پروفیسر صاحب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنی رحمتوں سے نوازے۔