چیف ایڈیٹر کے قلم سے
یکم ستمبر 2021ء سید علی گیلانی ؒؒ 92برس کی عمر میں اس جہان فانی سے دائمی دنیا کی طرف منتقل ہوگئے ۔ نہایت بے خوف اور پر عزم زندگی گزاری ۔ دشمن کے حربوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور نہ کبھی مایوسی ان کے قریب پھٹکی ۔ مایوسی اور ناامیدی سے کوسوں دور تھے ۔انہیں کشمیر کے آزاد ہونے کا ایسا ہی یقین تھا جیسا سورج کے مشرق سے طلوع ہونے کا یقین ہوتا ہے ۔ ان کی جرأت،شجاعت ،صداقت اور فہم و فراست کے دوست دشمن سبھی قائل تھے اور برملا اس کا اظہا بھی کرتے تھے اور کررہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر خالد قدومی ترجمان حماس “وہ ہمیشہ یکسو رہے مگر کبھی یک چشم نہ رہے۔ وہ کہتے تھے کہ سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا کھٹن و دشوار ہے۔ اس لیے ٹھہر ٹھہر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔وہ شاعر کی طرح سوچتے تھے مگر ایک قائد کی طرح عملی آدمی تھیـ”۔ وہ بہترین منتظم ،بہترین خطیب و مقرر،عالم دین اور بیس سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔علامہ اقبال ؒکی شاعری اور سید مودودیؒ ؒکی تصنیفات کا چلتا پھرتا وجود سید گیلانی کی شکل میں نظر آتا تھا۔وہ برہمن کی عیاری اور مکاری سے خوب واقف تھے. تین عشروںسے جاری مزاحمت کے مقبول ترین لیڈر شمار کئے جاتے تھے۔ اس مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ جرات اور بے باکی کے ساتھ ایک عام زخم خورد ہ اور ستم رسیدہ کشمیری کی ترجمانی کر رہے تھے ۔کشمیر ی عوام ان کے لئے جانیں نچھاور کرنے پر تیار تھے اور اکثر نوجوان انہیں کشمیری زبان میں ’’بب ‘‘ یعنی باپ کہہ کر پکارتے تھے ۔وہ ایک جرات مند ،دلیر اور آہنی عزم اور اعصاب کی حامل غیر معمولی شخصیت تھے جس بات کو حق سچ سمجھتے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہ کرتے۔وہ پاکستان کو محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک عقیدے اور نظرئیے کا نام قرار دیتے تھے ۔وہ عقیدہ اور نظریہ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروتا اور انہیں ملت واحدہ بناتا ہے ۔انہیں یقین تھا کہ مملکت خدادادپاکستان ایک نہ ایک دن ضرور اسلامی ریاست کا نمونہ بنے گا اور اہل کشمیر اس ریاست کا حصہ بن کر فخر محسوس کریں گے۔بعض لوگ انہیں یہ کہہ کر سخت گیر ہونے کا طعنہ دے رہے تھے کہ یہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے ۔انہوں نے کبھی بامعنی اور ٹھوس بنیادوں پر مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔انہوں نے ہمیشہ یہ واضح کیا کہ بھارت جموں و کشمیر کو متنازء علاقہ تسلیم کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مذاکرات کی حامی بھردے تو مذاکرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن بھارت مسئلہ کشمیر کو جب تک اپنا اندرونی مسئلہ سمجھتاہے تب تک ان مذاکرات کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس سے کچھ نکلنے والا ہے ۔تاریخ نے پھر ثابت کیا ،جن لوگوں نے نام نہاد مذاکرات میں حصہ لیا ،شیخ عبد اللہ سے لے کے پرویز مشرف کی ایماء پر حریت ’’ع ‘‘تک نتائج بھارت کے حق میں ہی نکلے۔پرویز مشرف جسے اپنے خدا ہونے کا بھی شاید یقین ہوچکا تھا ،اس کی خود ساختہ خدائی کو امام گیلانی ؒنے پوری ایمانی قوت کے ساتھ زمین بوس کردیا ۔اور اسے احساس دلایا کہ کشمیری بھیڑ بکریاں نہیں کہ کوئی شخص ہمدرداور محسن ہونے کے نام پر ان کا سودا کرلے ۔بقول سید عارف بہار “جنرل مشرف کی کشمیر پالیسی پر دکھی تھے مگر مجال ہے کہ اس ذاتی رنجش کے باوجود ریاست پاکستان او رعوام کے ساتھ ان کی کمٹ منٹ کے شیشے میں ایک بال بھی محسوس کیا جا سکے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک روز پاکستان اس مقصد کی طرف لوٹ جائے گاجو اس کے قیام اور وجود کا جواز ہے ۔سید گیلانی ؒحق پر ڈٹنے والے میر کارواں تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں اور آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔امام گیلانی ؒالحاق پاکستان کے قائل تھے لیکن ساتھ ساتھ ہر اس فیصلے کو بھی توثیق دینے کیلئے تیار تھے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں سہ فریقی مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آتا ۔بقول جناب حامد میر”گیلانی صاحب کی محبت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے تھی۔وہ پاکستان کے حکمرانوں سے ڈکٹیشن نہیںلیتے تھے۔ ڈکٹیشن لینے والے حریت پسند نہیں ہوتے بلکہ غلامی پسند ہوتے ہیں۔ کشمیری عوام پر آج ایک مشکل وقت ہے۔یہ مشکل وقت ایک دن ختم ہوجائے گااور مورخ لکھے گا کہ ایک مرد قلندر سید علی گیلانی ؒتھا جو آخری وقت تک دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرتے رہے ۔گیلانی صاحب کو زیادہ تکلیف دشمنوں کی سازشوں سے نہیں تھی بلکہ زیادہ تکلیف اپنوں کی سازشوں سے تھی۔ اُنہوں نے پاکستان کی محبت اور تحریک آزادی کے مفاد میں اپنی زبان نہیں کھولی لیکن تاریخ خاموش نہیں رہے گیـ” ان کی شہادت نے بھی سید الشہدا امام حسین ؓکے خاندان سے ان کاتعلق ثابت کیا۔ یزیدیوں نے ان کی نعش کی بھی اسی طرح بے حرمتی کی جس طرح امام حسین ؓ کی کی گئی تھی ۔سمجھا گیا کہ جدوجہد کی کہانی ختم ہوگئی لیکن ایسا نہیں ہوگا۔حسینی مشن تاقیامت جاری رہے گا۔آپ پوری دنیا کی تحریکات آزادی کے رہنما کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ تاریخ نے یہ بھی رقم کیا کہ ا س مرد قلندر ؒ کو یکم ستمبر2021میں حماس سربراہ جناب اسماعیل ہانیہ نے عظیم شہید کا خطاب دے کر شاندار خراج عقیدتپیش کیا تھا ،31اگست 2024میںوہ قلندر خود بھی شہادت سے سرفراز ہوکر ان کے پاس پہنچے ان کی شہادت سے قبل ان کے تین جوان بیٹے، پوتوں سمیت خاندان کے 71 افراد سرزمین فلسطین کی حفاظت میں قربان ہوگئے۔حسینی کاروان کے اصل راہی دراصل ایسے ہی لوگ ہیں ۔اللہ ان سب کی قربانیاں قبول فرمائیں ۔اور ان کے درجات بلند کریں۔