ایک مہاجر بزرگ کی دکھ بھری کہانی

اویس بلال

ڈاکٹر زاہد غنی ڈار کی نومبر 47 19میں شہدا ء جموں پر گفتگو دراصل ایک آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جس انداز میں جموں سے پاکستان کی طرف ہجرت کے وقت سکھوں کے چنگل میں پھنسی خاتون اور مابعد حالات کا نقشہ کھینچا ہے اس نے ان کے ہر سننے اور پڑھنے والے کے دل کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ آئیے ان ہی کی زبانی شہداء جموں اور مہاجرین کی داستان غم سنتے ہیں ۔
ہر سال 6نومبر کو ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف سمیت پوری دنیا میں مقیم باشند گان جموں و کشمیر یوم شہدائے جموں مناتے ہیں۔ہر سال نومبر کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی میرے ذہن میں بھی اپنے بزرگوں کی زبانی سنی جانے والی جموں کے مسلمانوں پر ڈھائی گئی قیامت کی لرزہ خیز داستانیں تازہ ہوجاتی ہیں جن کے تصور سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے،ایسی ہی ایک کہانی میں اپ سے شیئرکرتا ہوں جس کا تذکرہ پاکستان کے مشہور ۔۔شناس جموں سے تعلق رکھنے والے جناب ایم اے ملک نے اپنے کتابچہ شہید عبد الحق میں کیا ہے جسے مکتبہ ڈائجسٹ والوں نے شائع کیا۔۔۔جموں میں اپنے ایک دوست عبد الحق کے بارے میں لکھے گئے اس کتابچہ کے آخر میں وہ ایک ایسے ہی درد ناک واقعے کی منظر کشی کرتے ہیں۔۔لکھتے ہیں۔۔ شہر جموں سے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا جھانسہ دیکرجموں بھر سے لائی جانیوالی بسوں کو ایک کھلے میدان میں روک لیا گیا،جہاں ہندو انتہا پسندوں، سکھوں اور ڈوگروں نے انہیں گھیرلیا،ایسے میں ایک بس کی چھت پر ایک نوجوان عبد الحق نے چھلانگ لگائی۔

اس کے ہاتھ میں پستول تھا جس کے باعث کرپانوں اور برچھیوں سے لیس ہندو اور سکھ بلوائی پیچھے ہٹ گئے۔عبدالحق ان کے گھیرے سے نکلنے کیلئے آگے بڑھا، اسی اثناء میں ایک مسلمان خا تون کی چیخ سنائی دی،پاجی(بھائی) جان سانوں تسی چھڈ کے چلے ہو،آپ ہمیں اکیلے چھوڑ کر جارہے ہو ،نوجوان عبد الحق کے قدم وہیں رک گئے وہ پیچھے مڑا،تو کیا دیکھتاہے کہ ایک خاتون ہندو اور سکھ بلوائیوں کے چنگل میں پھنسی اسے پکار رہی ہے۔عبدالحق کچھ دیر سوچوں میں گم رہا، پھر اس نے پستول سیدھا کیا اور گولیاں اس خاتون کی طرف بڑھنے والے درندہ صفت وحشی انتہا پسند ہندو غنڈوں پر چلا دی ،اس عمل میں اس خاتون کو بھی گولی لگی،وہ اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ دست بدست اس لڑ ائی میں عبد الحق خودبھی جام شہادت نوش کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ایم اے ملک کی کہانی یہیں ختم ہوجاتی ہے مگر میری کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ نوجوان عبد الحق نے جس خاتون کی دہائی سن کر فرار کا راستہ ترک کر کے شہادت کا راستہ چنا،وہ اس کی بہن اور میری دادی تھی۔ایک بھائی کے دل پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی جب اس نے یر غمالیوں پر گولیاں چلانے کی رسک لے لی اور جہاں یہ خطرہ موجود تھا کہ اس کی بہن بھی جاں سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔لیکن اسے بہن کی جان کیساتھ ساتھ اس کی عزت و آبرو کا بھی خیال تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ بہن کی عزت بچانے کا اس کے علاوہ کوئی اورراستہ نہیں تھا۔یہ کہانی صرف میری ہی نہیں بلکہ جموں سے ماہ اکتوبر و نومبر 1947ء میں جبراََ ہجرت پر مجبور کر کے سیالکوٹ، گجرانوالہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں آباد ہونے والے ہر گھر کی کہانی ہے۔تحریک پاکستان کے دوران جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں بلا شبہ پاکستان کیساتھ تھیں۔باشندگان صوبہ جموں نے قیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انہیں امید تھی کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناطے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کیساتھ ہوگا۔تقسیم برصغیر کیساتھ ہی بھارتی حکومت کی آشیر واد سے ڈوگرہ شاہی کی مکمل پشت پناہی سے ہندو انتہا پسند تنظیموں اور سکھوں کے مسلح جتھوں نے جموں شہر سمیت پورے صوبہ جموں میں ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے جان و مال پر حملے کرنے شروع کردئیے اور ایسے حالات پیدا کیے کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی جانب ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔27اکتوبر1947ء میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کیساتھ بھارت نے ایک نام نہاد معاہدے کی آڑ میں اپنی فوجیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں اتار کر غاصبانہ قبضہ کر لیا ۔اس کے فوری بعد صوبہ جموں سے مسلمانوں کو جبراً پاکستان کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کیا جانے لگا اور سرکاری طور پر بسوں اور ٹرکوں کے ذریعہ انہیں جموں سے پاکستان کی طرف ہجرت کیلئے محفو ظ راستہ دینے کی ضمانت دی گئی،ماہ نومبر کے شروع ہی میں اس کا آغاز کیا گیا اور ہندو اور سکھ بلوائیوں کے جلائو گھیراؤ کا شکار مسلمان حکومت وقت کی طرف سے مہیا کردہ بسوں اور ٹرکوں میں سوار ہوکر پاکستان جانے کیلئے گھروں سے نکلتے دور کھلے میدانوں میں انہیں انتہا پسند ہندوؤں اور مسلح جتھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا جو انہیں بھوکے گدوں کی طرح نوچتے،مرد خواتین کے خون سے ہولی کھیلتے،نوجوان مسلم خواتین کو اغواء کر کے لیجاتے،جو بچ کر ان کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتیں، ان سے ڈوگرہ سپاہیوں کی گولیوں کا نشانہ بننا پڑتا۔چار ،پانچ اور چھ نومبر 1947میں یہ قتل عام اپنے عروج پر پہنچ گیا اور نومبر کے صرف پہلے ہفتے کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ سے لیکر چار لاکھ تک مسلمانان جموں کو شہید کیا گیا اور پانچ لاکھ سے زائد سیالکوٹ، گوجرانوالہ یعنی پاکستان کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس طرح 61 فیصد سے زائد اکثریت مسلم آبادی کو ہندو اکثریت کا علاقہ ظاہر کیا جانے لگا۔ ہم ان اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہیں نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن آنسوئوں کا نہیں،جواں عزم اور زندہ حوصلوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں کہ ا ن شاء اللہ تعالیٰ تحریک حق خود ارادیت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو پیدائشی حق، حق خود ارادیت نہیں مل جاتا اور اس کیلئے ہم ہر طرح کی قربانی دیں گے، اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔ ہم اپنے شہداء کو ان کی لازوال قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ا ن شاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں کہ جب غلامی کا یہ تاریک دور ختم ہوگا ،بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا اور ہمیں پیدائشی حق خود ارادیت ملے گا ان شاء اللہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پوری دنیا کے مسلمان شدید آزمائش اور مصائب سے گزر رہے ہیں ،کفر کی تمام طاقتیں خواہ وہ یہودی ہوں،ہنود ہوں یا نصاریٰ۔مسلمانوں کے خلاف متحد ہو چکی ہیں اور اپنی جدید ترین فوجی طاقت کیساتھ انہیں کچلنے میں مصروف ہیں،لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ظلم کو کبھی بھی دوام حاصل نہیںہوا۔اللہ تعالیٰ کی مشیت مسلمانوں کو امتحان سے گزار کر ان میں سے کھوٹے اور کھرے کو الگ کررہی ہے ،جو مسلمان اس امتحان میں سرخرو ہوں گے،کامیابی ان کے مقدر میں لکھی جائے گی۔ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا سے ظلم کا بھی خاتمہ ہوگا اور ا ن شاء اللہ حق کو بھی سربلندی حاصل ہوگی۔تاہم اس مبارک لمحے کے اس خوش نصیب پل کے انتظار کیلئے صبر اور عزیمت کے جس معیار کی ضرورت ہے ہمیں اس پر پورا اترنا چاہیے جب ہم مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں صف شکن نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے حوصلے بلندہوجاتے ہیں۔