برہان مظفر وانؒی زندہ ہے

1931ء سے شروع ہونے والی تحریک آزادی کشمیر کے ہر موڑ پر جرأت و بہادری اور ہمت کے روشن مینار نظر آرہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پوری دلیل کے ساتھ موجود ہے کہ اس تحریک کا نقطہ عروج جس مجاہد کی مرہون منت ہے دنیا اس مجاہد کو برہان مظفر وانیؒ کے نام سے جانتی ہے۔2010ء کے سال پر اگر نظر ڈال دی جائے تو کشمیر میں مزاحمت کا گراف کافی حد تک گرچکا تھا،دشمن یہ تاثر دینے میں کا میاب ہوا تھا کہ کشمیری عوام نے غلامی کی زندگی میں رہنا اب قبول کرلیا ہے۔ان ہی حالات میں ایک کمسن مجاہد برہان وانی منظر پر نمودار ہوتا ہے اور اپنے عسکری حربوں سے دشمن کو خاک چا ٹنے پر مجبور کرتا ہے۔یہ کریڈیٹ بھی اس سولہ سالہ عسکری کمانڈر برہان اور ان کی جہادی زندگی کو جاتاہے کہ انہوں نے مزاحمتی قیادت کی سوچ میں پھر یکسوئی پیدا کردی۔ ان کی شہادت کے بعد تحریک میں ایک کشش پیدا ہوئی،نئی نسل کو ایک نیا ولولہ ملا،ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک دبی چنگاری تھی جو پھر سے شعلہ زن ہوئی۔فولادی جسم رکھنے والے اس مجاہد نے چھ سال کی جہادی زندگی میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچایا۔برہان وانی ایک شہید،ایک تاریخ،ایک کاروان اور دشمن کے لئے موت کا پیغام تھا۔8 جولائی 2016 ء کا دن تھا جب اسلام آباد کے کوکر نا گ علاقے میں بھارتی بزدل فو ج نے علاقے کو گھیرے میں لیا اور اسی دوران اپنی قوم کا یہ سپوت ایک پر اسرار جھڑپ کے دوران اپنے دو ساتھیوں سمیت بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔چھ سال کی جہادی زندگی حزب المجاہدین کے جھنڈے تلے گزار کر اپنی تنظیم اور اپنی تحریک سے جو وعدہ کیاتھا وہ وفاکرگیا۔برہان کی شہادت نے اور ان کے اخلاص نے انہیں تاریخ کا وہ پہلا انسان بنادیا جس کے غم میں پوری کشمیری قوم نڈھال ہوگئی،شہید کے جنازے میں دس لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔کپواڑہ سے کشتواڑ تک پوری قوم اس ہیرو کے عاشق تھے اور دیوانہ وار ایک ماہ تک سڑکوں پر بھارتی فوج کے خلاف مظاہرے کرتی رہی۔ان مظاہروں کے دوران بھارتی فوج نے 126 نوجوانوں کو شہید کردیااور پندرہ ہزار سے زیادہ لوگوں کو زخمی کیا جن میں سینکڑوں پیلٹ لگنے سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے۔

آج ہم اس عظیم ہیرو برہان وانی ؒکی چھٹی برسی منارہے ہیں،جسے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے کشمیر کا عمر مختار قرار دیا۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے جب ہم برہان کی شہادت کے بعد سات سال کی عسکری جد وجہد کا جائزہ لیتے ہیں،ان برسوں کے دوران حز ب المجاہدین کے صفوں میں مجاہدین کی بڑی تعداد شامل ہوئی اور آج تک گذشتہ 6 برسوں کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مجاہدین نے جہاد کے پرچم تلے اپنی زندگیاں گزاریں اوران مجاہدین میں سے سینکڑوں نے اب تک اپنے لہو کے آخری قطرے تک بھارتی فوج کا مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ان مجاہدین میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ حزب المجاہدین کے پرچم تلے جمع ہوئی اور اپنی پرتعیش زندگی کو لات مار کر قافلہ سخت جان کا حصہ بنے،اور راہ حق میں اپنا قیمتی لہو بہا کر ایک تاریخ رقم کی۔حزب المجاہدین کے ان چمکتے ستاروں میں شہید ڈاکٹر منان وانیؒ، شہید ڈاکٹر محمد رفیعؒ، شہید ڈاکٹر سبزار حمد ؒاور ان سمیت درجنوں سکالرز قابل ذکرہیں جنہوں نے برہان وانیؒ کے مشن کو جاری رکھا اور اپنی گردنیں کٹوا کر شہداء کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔

دشمن کے سہولت کاروں جن میں سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ شامل ہیں نے بھی برہان کی شہادت پر اس بات سے خبردار کیا تھا کہ قبر میں سویا برہان زندہ برہان سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوگا۔ دیکھا جائے تو ان کی بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔نریندر مودی کے ہندوتا کے خلاف سینہ سپر ہوکر اگر کوئی اس وقت کھڑا ہے تو یہ وہی برہان ہیں جو برہان کی شہادت کے بعد برہان نظریے کے علمبردار بن چکے ہیں۔آج کا مورخ دیکھ اور لکھ رہا ہے کہ برہان کی صورت میں جو کرن قتل ہوئی تھی وہ کرن بار بار مر مر کے زندہ ہورہی ہے اور راستے کی نشاندہی کررہی ہے۔ان شا ء اللہ وقت آئیگا جب باطل کے اندھیرے چھٹ جا ئیں گے اور آزادی کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکے گا۔

٭٭٭