برہان وانی نئے موسموں اور نئے رتوں کا پیامبر

سید عارف بہار

برہان وانی کشمیر میں جدید مزاحمت اور جدید طرز مزاحمت کے بانی ہیں ۔اس نوجوان نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کے استخوان پر لرزہ طاری کرکے مزاحمت کی تاریخ کو نیا عنوان دیا ۔ 1994میںکشمیر پر طاری شب دہشت میں جنوبی کشمیر کے ترال قصبے کے نواحی علاقے میں محمد مظفر وانی کے گھر ایک بچے نے جنم لیا ۔ایک مخصوص کلچر اور مخصوص اصطلاحات کو سنتے سنتے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے والا یہ بچہ برہان مظفر وانی بن کر شب ِظلمت میں جگمگا اُٹھا۔کسے خبر تھی کہ مظفر وانی کے گھر پیدا ہونے والا یہ بچہ عنفوان شباب کو پہنچتے ہی کشمیر کی ایسی مزاحمت کا عنوان اور پہچان بنے گا جو بھارت کے سیکولر ازم ،جمہوریت اور چمک دمک کے دعووں کو پیوند خاک کر رکھ دے گی۔ 1994میںترال کے سبزہ زاروں سے شروع ہونے والی یہ کہانی 8جولائی2016کو ککرناگ میںبظاہر اختتام کو پہنچی مگر بائیس سال کا یہ نوجوان اپنے لہو سے ہر کشمیر ی کے دل میں غصے اور انتقام کا الائو روشن کر گیا ۔یہ آگ اس وقت تک سلگتی رہے گی جب تک کہ کشمیری اپنی منزل تک نہیں پہنچتے ۔برہان وانی کی جرأت بہادری اور مقبولیت کو تاریخ کے بے شمار کرداروں سے تشبیہ دی جارہی ہے ۔اسے کشمیر کا چی گویرا بھی کہا گیا اور رابن ہڈ بھی ،پوسٹر بوائے بھی لکھا گیا اور مردِامن اور مردِآہن بھی ۔اسے کوئی بھی نام دیا جائے حقیقت یہ ہے کہ برہانی وانی کشمیر کے مایوس اور پژمردہ دلوں میں آزادی کی جوت جگانے والا مسیحا ٹھہرا۔مایوسی اور مزاحمانہ جذبات کے حالات کے اسی صحرا میں چلتے چلتے برہان وانی سولہ برس کی عمر کو پہنچا تو ایک روز گھر کی آسائشوں کو چھوڑ کر ککر ناگ کے جنگلوں میں جا بسیرا کیا ۔کمانڈو وردی میں جدید ہتھیاروں اور نوخیز ساتھیوں کے جھرمٹ میں برہان وانی کے تصاویر سوشل میڈیا میں آتے ہی وائرل ہونے لگیں۔ ایک مجاہد کمانڈر کی شبیہ ہونے کے باجود برہانی وانی کشمیر میں رحم دلی اور دوستانہ رویے کی حامل ایسی لوگ داستان کا کردا ر بن گیا جس کا وجود اسی مٹی کی خوشبو سے اُٹھا تھا ۔

برہان مظفر کے حوصلوں کو توڑنے اور مقبولیت کو روکنے کے لئے بھارتی فوج نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت برہان وانی کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو شہید کر دیا ۔خالد وانی کسی تنظیم سے وابستہ تھا نہ کسی جہادی کارروائی میں شریک ۔برہان کے حوصلے توڑنے کی یہ کوشش اکارت ہوئی اور وہ مسلسل کشمیر کے اُفق پر حریت کا سورج بن کر طلوع ہوتا چلا گیا ۔وہ ہمالیہ سے بلند حوصلوں کا مالک بن چکا تھا۔سوشل میڈیا کے کامیاب استعمال نے برہان کی شخصیت اور پیغام کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ککرناگ کے جنگلوں میں وردی پوش برہان کی تصویر نوجوانوں کے جذبات میں بجلیاں بھردیتیںبرہان وانی ٹویٹر کے ذریعے نوجوانوں کو تحریک آزادی میں شمولیت کی دعوت دیتا تو نوجوان بے ساختہ اس راہ کا پتا معلوم کرنے لگتے۔وہ امرناتھ یاتریوں کو بے خوف وخطر ہو کر اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کو کہتا تھا تو ہندو یاتری اس بھارتی حکومت اور فوج سے زیادہ معتبر ضمانت جان کر پورے اعتماد سے مذہبی رسوم ادا کرتے۔آٹھ جولائی کو جب وادی ٔ گلپوش میں بے داغ سبزے کی بہار جوبن پر تھی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ برہان وانی بھارتی فوج کے ساتھ تصادم میں شہید ہوگئے ہیں۔لمحہ بھر کو کشمیری مبہوت ہو کررہ گئے اور پھر وہ دیوانہ وار گھروں سے نکل کر ککرناگ کی طرف چل پڑے۔بھارتی فوج نے رکاٹیں کھڑی کرکے لوگوں کو اس سمت جانے سے روکنے کی تدابیر اپنائیں مگر مشتعل اور غم زدہ لوگ ان رکاٹوں کو روندتے چلے گئے۔یہاں تک برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور اس دوران شہید ہونے والوں کی تعداد درجن سے اوپر جا چکی تھی۔یہ کشمیر کی تحریک کا وہ خوش نصیب شہید ہے جس کا نام اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اس وقت گونجا جب اس وقت کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان لیڈربرہان وانی کشمیرکی نئی نسل کا نمائندہ ہے ۔برہان وانی کشمیر میں داخلی مزاحمت ،جدوجہد اور بہادری کا ایک ایسا نشان ہے جس کی شہادت کشمیریوں کی تحریک اورآنے والی نسلوں کو ولولۂ تازہ دیتی رہے گی ۔ برہانی وانی کی شہادت کے بعد حالات پر بھارت کا کنٹرول کلی طور پر ختم ہوگیا اور اس مسئلے کا حل پانچ اگست 2019کے فیصلے کے ذریعے نکالنے کی سعی ٔ لاحاصل کی گئی جس کے تحت مقبوضہ ریاست کی شناخت اور الگ حیثیت چھین لی گئی مگر اس کے بعد بھارت کے لئے مسائل کا ایک نیا پنڈورہ باکس کھل گیا ۔پانچ سال ہوگئے ہیں اس پنڈورہ باکس سے مشکلات کی بلائیں نکل کر بھارت کو خوف زدہ کررہی ہیں ۔

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں

سید عارف بہار