
بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی کچی بستیاں گرانے والا بلڈوزر آخر کا ر کشمیر بھی پہنچ گیا
یوں لگتا ہے وادی کشمیر فلسطین کا مغربی کنارہ ہے
وہ شناخت جس پر اسے ناز اور فخر ہوتا تھا آج چیتھڑوں میں ڈھل رہی ہے
بلڈوزرکے مسلمانوں پر عتاب کا آغاز فلسطین سے ہوا جہاں اسرائیل نے حریت پسند فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا آغاز کیا اور اس کا مقصد لوگوں میں چھت چھن جانے کا خوف پیدا کرنا تھا بعد میں بلڈوزر کا یہ سفر دہلی تک جا پہنچا جہاں بلڈوزر مسلمانوں پر مودی حکومت کے ایک عتاب اور عذاب کی علامت بن گیا ۔یوپی کی ریاست میں یوگی ادتیہ ناتھ جیسے سخت گیر اور کٹر ہندو وزیر اعلیٰ نے بلڈوز ر کو مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کے خلاف بے دردی سے استعمال کیا شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کے مسلمان راہنما یہ کہنے لگے تھے کہ اگلے الیکشن میں نریندرمودی کو اپنا انتخابی نشان بلڈوزر کو رکھنا چاہئے کیونکہ نریندر مودی نے بلڈوزر کو مسلمانوں کے لئے خوف ودہشت کی علامت بنا دیا ہے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔اب ان حالات کی گونج بھارت کے اعلیٰ ایوانوں تک میں سنائی دینے لگی ہے ۔بھارت اپنے طے کردہ راستے پر کسی ردعمل اوربدنامی کے خوف سے بے نیاز ہو کرچل رہاہے ۔وہ راستہ یہ ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت کے اصول پر چلتے ہوئے کشمیرکو اپنی گرفت میں لینا اوریہاں کی زمین اور جائیداد پر قبضہ جمانا ہے، تاکہ بعد میں اس کا استعمال اپنی پسند اور منصوبوں کے مطابق کیا جائے ۔اسی کوشش میں بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی کچی بستیاں گرانے والا بلڈوزر آخر کا ر کشمیر بھی پہنچ گیا ۔سرکاری زمینوں پر قبضے خالی کرانے کے نام پر غریب افراد کی بستیوں گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کی مہم زور وشور سے شروع ہوگئی ہے ۔جس کے خلاف کشمیر کی مقامی آبادی میں خوف اور دہشت کے سایوں تلے بھی احتجاج ہونے لگاہے ۔جوبلڈوزر پہلے ہی بھارتی مسلمانوں کے لئے خوف اور انتقام کی علامت تھاوہ اب کشمیریوں پر بھی برسنے لگا ہے ۔

بلڈوزر پالیسی کی گونج بھارتی لوک سبھا میں بھی سنائی دی ہے جہاں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن لوک سبھا حسنین مسعودی نے ایک زوردار تقریر میں بھارت کی بلڈزورپالیسی کو ہدف تنقید بنایا ۔حسنین مسعودی کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ وادی کشمیر فلسطین بن گئی ہے ۔کشمیر میں بلڈوزر راج کے ذریعے عوام کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہر صبح بلڈوزر بستیوں میں داخل ہوتے ہیںاور تجاوزات کے نام پرغریب لوگوں کی چھوٹی دکانوں اور مکانوں کا مسمار کردیتے ہیں۔یوں لگتا ہے فلسطین کا مغربی کنارہ ہے ۔حسنین مسعودی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت نے دہلی میں سرکاری زمینوں پر قائم سترہ سو بستیوں کو باضابطہ بنایا گیا ۔ممبئی میں نصف آبادی سرکاری اراضی پر قابض ہے گجرات میں پنتیس فیصد گھر سرکاری آبادی پر ہیں۔صرف کشمیر میں سرکاری اراضی واگزار کرنے کے نام پر ایک کھیل چل رہا ہے ۔انہوںنے الزام عائد کیا کہ ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنا کر آبادی کو تقسیم کیا جا رہا ہے ۔رکن لوک سبھا کا کہنا تھا کہ کلچرل پروگراموں اور کھیلوں کے مقابلوں کے ذریعے حالات کے نارمل ہونے کا دعویٰ اگر درست ہے تو جموں وکشمیر میں الیکشن کرائے جائیں۔نیشنل کانفرنس کے رکن لوک سبھا کی طرف سے بھارتی پارلیمنٹ میں یہ تلخ زبان اب خوف کی تنی چادر میں چھید ہونے کا پتا دے رہی ہے ۔اسی دوران بلڈوزر پالیسی کے خلاف بطور احتجاج محبوبہ مفتی نے بھی دہلی میں پارلیمنٹ ہاوس تک مارچ کرنے کی کوشش کی ۔پولیس نے انہیں گرفتار کرکے پارلیمنٹ تک پہنچنے سے روک دیا ۔اس موقع پر محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت نے ہمیں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج نہیں کرنے دیا ۔


سوشل میڈیا پر بھارتی میڈیا گروپ ’’دی وائر ‘‘کی ایک وڈیو وائرل ہے جس میں سری نگر کے وسط زینہ کدل کے ایک بازار میں کھڑے عام شہری سے بھارت کی معروف صحافی عارفہ خانم شیروانی سوال پوچھ رہی ہیں کہ کشمیر کے حالات کیسے ہیں ۔ شہری بے زاری اور بے بسی کے انداز میں جواب دیتا ہے کچھ کہہ نہیں سکتے ۔صحافی پھر پوچھتی ہیںکہ آپ کے چہرے سے تو ٹھیک نہیں لگ رہے ۔شہری پھرغصے بھری ہنسی کے ساتھ کہتا ہے نہیں حالات تو ٹھیک ہیں ۔چل رہے ہیں بس زندگی چل رہی ہے۔ صحافی پھر پوچھتی ہیں کہ کچھ کہنا چاہتے ہیں شہری جواب دیتا ہے کہ نہیں کچھ نہیں۔تھینک یو ۔صحافی پوچھتی ہیں اگر کہیں گے تو مشکل ہوگی آپ کو لگتا ہے ؟شہری پھر بے بسی سے جواب دیتا ہے کہ کہنے کو کیا رہ گیا ہے اب ۔بس دن کاٹ رہے ہیں اللہ مالک ہے۔ صحافی پوچھتی ہیںآپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ حالات ہی ایسے ہیں۔کوئی بولتا ہے شام کو اس کو اُٹھا لیا جاتا ہے ۔بس چل رہا ہے اللہ مالک ہے ۔کشمیر کے عام شہری کے اس لہجے میں زمانے بھر کی ناراضی اور بے بسی سمٹ کر آئی ہے ۔یوں کشمیری شہری کے بھارتی صحافی سے ہونے والے اس مکالمے پر یہ بول صادق آتے ہیں ۔کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے ۔یہ ایک فرد کی بے بسی اور غصہ نہیں یہ ایک قوم کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے ۔ایک ایسی قوم جو حالات سے بے جگری کے ساتھ لڑتے لڑتے اب اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے بھی عاجز ہو چکی ہے ۔اس کے وکیلوںنے اس کا مان توڑ دیا ہے اور بھارت تنہا کمزور اور بے بس دیکھ کر اس پر جھپٹ پڑا ہے ۔ا ب اس قوم کے پا س کھونے کو کچھ بچا ہے نہ کہنے کو کچھ باقی ہے ۔اسی حقیقت کا اظہار کشمیری شہری نے کیا ہے ۔کشمیری عوام چار عشروں سے جس جرأت اور بہادری سے لڑے اس نے مزاحمت کی تاریخ او رتحریکوں کو ایک نیا عنوان اورنام دیا ہے ۔اس بہادرقوم کے دو نوجوانوںنے تین دن تک محصور رہ کربھارت کے سینکڑوں فوجیوں کا مقابلہ کیا ۔اس قوم نے چھ چھ ماہ تک محاصرے اور لاک ڈاون میں بھی کمال خود داری خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کا مظاہرہ کیا ۔اس قوم نے اپنے شہیدوں کی موت کو سیلیبریٹ کرکے انہیں معاشرے کا ہیرو اور نوجوانوں کا رول ماڈل بنا کر مزاحمت کو معاشرے کا مجموعی رواج او رچلن بنا دیا ۔اس کا المیہ یہ رہا کہ کامیاب اور بہتر وکیل میسر نہ آسکا۔آج وہ مقام ہے کہ بھارت ان سے تاریخ اور جغرافیہ دونوں چھین رہا ہے ۔ان کی شناخت کا دامن تار تار کر دیا گیاہے ۔وہ شناخت جس پر اسے ناز اور فخر ہوتا تھا آج چیتھڑوں میں ڈھل رہی ہے۔یہ لوگ زبان ِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ’’میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں‘‘۔پاکستان کی حکومتوں اور او آئی سی جیسے ملکوں کی خاموشی نے کشمیریوں کے دل توڑ دئیے ہیں کیونکہ یہ وہ معاشرہ ہے جو دنیا میں کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے پر بھی سینہ کوبی کرکے اپنا حال خراب کر دیتی ہے ۔پانچ اگست 2019کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے کشمیریوں کو پتھر کی مُورت بنا دیا ہے ۔ایک طوفان ان کے دلوں میں مچل رہا ہے ۔یہ طوفان جلد یا بدیر اپنے لئے راستہ تلاش کرلے گا ۔
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں