اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیںکیا تم ( اس مثال سے )کوئی سبق نہیں لیتے؟ (اور ایسے ہی حالات تھے جب ) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا ۔( اس نے کہا )’’ میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا‘‘۔ جواب میں اس کی قوم کے سردار جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے ’’ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے۔اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے ۔ اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو ، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ‘‘۔اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم! ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سَر چپیک دیں؟اور اے برادرانِ قوم ، میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے ۔ اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں ۔ سورہ ہود آیت نمبر24 تا29 تفہیم القرآن سید ابوالااعلیٰ مودودی ؒ
ایمان و تقویٰ ہی نجات کا ذریعہ
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ( عام )عذاب نازل کرتا ہے تو یہ عذاب اس میں موجود تمام لوگوں کو پہنچتا ہے ،پھر وہ لوگ قیامت والے دن اپنے اعمال کے مطابق زندہ کئے جائیںگے۔‘‘ (بخاری)
فائدہ:یہ عذاب عام اس وقت آتا ہے جب کسی قوم میں نافرمانیاں عام ہوجائیںاور نیک لوگ بالکل تھوڑے رہ جائیں، پھر اس عذاب کی لپیٹ میں نیک اور بد دونوں آجاتے ہیں،تاہم قیامت والے دن لوگ تو اپنے ایمان و تقویٰ کی بدولت عذاب آخرت سے بچ جائیںگے۔جب کہ دوسروں کے لیے وہاں ، مزید عذاب اکبر تیار ہے۔
عزم و یقین دعا کے لیے ضروری ہے
حضرت انس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو اسے چاہیے کہ عزم و یقین کے ساتھ سوال کرے اور یوں ہرگز نہ کہے کہ اے اللہ !اگر تو چاہے تومجھے دے ،اس لئے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ بخاری
فائدہ :انسان قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے،اس لیے اسے اللہ کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس امر کا اظہار ہوکہ وہ تو بے نیاز ہے،اللہ تعالیٰ اس کا سوال پورا کرے نہ کرے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔علاوہ ازیںاس میں مطلوبہ چیز سے بھی بے نیازی ہے ، اور یہ دونوں باتیں اللہ کی شان سے فروتر اور بندے کی اپنی عاجزانہ حالت سے برتر ہیں۔البتہ اس طرح کہنے میں چنداں حرج نہیں کہ یااللہ اگر تیرے علم میں یہ میرے لیے بہتر ہے تو عطا کردے۔