انزیلہ قریشی
بچے کسی ملک و قوم کے مستقبل کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اگر ان پر ابتدا ہی سے توجہ نہ دی جائے تو وہ مستقبل میں اچھے شہری ثابت نہیں ہو سکتے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غریب والدین اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کو محنت مزدوری کے کاموں میں لگا دیتے ہیں جس سے بچوں کی جسمانی، ذہنی و تعلیمی ترقی کا دائرہ محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان نے 12 نومبر 1990 میںاقوامِ متحدہ کے معاہدے کے مطابق بچوں کے حقوق کے کنونشن پر دستخط کیے تھے اسی معاہدے کے آرٹیکل 32 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ بچوں کو ایسے کاموں سے بچائے جن سے ان کی صحت، تعلیم یا ذہنی و جسمانی ترقی میں رکاوٹ بڑھ سکتی ہو۔ حکومت روزگار کے لیے کام کرنے کی کم از کم عمر مقرر کرے اور ملازمت کی شرائط طے کرے۔ پاکستانی ہونے کے ناتے اگر ہم پاکستان کے آئین کو دیکھیں تو 1973 کے آئین کے آرٹیکل11 (3) میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی کارخانے یا کان وغیرہ یا دیگر پْر خطر ملازمات میں نہیں رکھا جائے گا اس آرٹیکل سے ثابت ہوا ہے کہ اگر والدین یا کارخانے دار 14 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری پر لگاتے ہیں تو آئین کے خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں گے۔ چائلڈ لیبر کے متعلق جتنی تحقیقات ہوئی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان بچوں کی تعلیم پرائمری سطح تک بھی نہیں ہوتی حکومت پاکستان اور صوبائی حکومت نے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود چائلڈ لیبر کو روکا نہیں جا سکا۔

1996 کے سروے کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد 33 لاکھ تھی اور یہ بچے فٹبال، قالین بافی، چوڑیاں، سرجیکل کے اوزار بنانے کی صنعتوں کے علاوہ چائے کی دکانوں، پلاسٹک کے کارخانوں وغیرہ میں بھی کام کرتے تھے اور اس بنا پر وہ خطرناک قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ تقریباً ایک دہائی پہلے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے 2013 کو بچوں کا سال قرار دیا 2012 کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار تھے۔


اکتوبر 2016 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں بچوں کی ملازمت کی عمر میں اضافے سے متعلق بل منظور کرا لیا گیا بچوں کی ملازمت کی عمر 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کر دی گئی اور سندھ اسمبلی نے 14 سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت دینا جرم قرار دیا اور خلاف ورزی کرنے والے کو چھ ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانہ کی سزا مختص کی۔ لیکن ان تمام تر پالیسیوں اور آرڈیننس کے باوجود بھی حکومت پاکستان اب تک چائلڈ لیبر کو کم کرنے اور روکنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے بچے اپنا بچپن اپنی تعلیم اپنے گھر کی کفالت میں قربان کر رہے ہیں۔ وہی بچہ اگر بچپن میں تعلیم حاصل کر کے کچھ بہترین صلاحیتیں سیکھ جائے تو ان کا مستقبل بہت روشن ہو سکتا ہے وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ملک کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ایک اچھی اعلیٰ ترین نوکری حاصل کر سکتے ہیں اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں لیکن یہ چائلڈ لیبر کی لعنت نے ملک کے کتنے بچوں کو اپنی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے اور غربت سے تنگ ماں باپ اپنی اولاد کو بہت کم عمر میں ہی کمانے پر لگا دیتے ہیں۔
چائلڈ لیبر ایک بہت حساس معاملہ ہے ہم آئے دن مہنگائی کا رونا روتے ہیں مہنگائی کے ابھی حال ہی میں ہونے کے باوجود مستقبل پر بھی گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں کیونکہ قوم کے معمار تعلیم سے دور صلاحیتیوں سے خالی اور جسمانی طور سے لاغر ہیں وہ بجائے تعلیم حاصل کرنے کے محنت مزدوری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا مستقبل بھی داو? پر لگ گیا ہے کیونکہ کہتے ہیں نا قوم کے بچے ہی اس کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔
اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہمیں چائلڈ لیبر سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانی چاہیے اپنے حقوق جاننے چاہیے جو کہ آئین نے ہمیں دیئے ہوئے ہیں حکومت پاکستان کو اس طرح کی مضبوط پالیسیاں بنانی اور ان کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا ان پر سختی سے عمل درامد کرانا ہوگا تاکہ پاکستان چائلڈ لیبر سے نجات حاصل کر سکے اور ملک کے معمار مستقبل میں ملک کا نام روشن کر کے اسے بلندیوں تک لے جا سکے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا