بھارت سے 100 سال جنگ بندی کا معاہدہ اورمسئلہ کشمیر

شیخ عقیل الرحمن ایڈووکیٹ

ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے باہر آنے کے بعد یہ مسئلہ زیربحث ہے کہ حکومت کی سطح پرایسی پالیسی طے کی گئی ہے۔ جس کے تحت انڈیا سے سو برس کیلئے جنگ بندی کامعاہدہ کیاگیاہے اور اس عرصہ میں دونوں ممالک تجارت کو باہمی فروغ دیں گئے۔ اگر کوئی ایسا معاہدہ طے پاگیاہے تو ہم اس پر اناللہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھ سکتے ہیں۔ گوکہ اس طرح کاکوئی معاہدہ پاکستان کے عوام قبول نہیں کریں گے کہ یہ معاہدہ اُن کے قومی مؤقف ہی کے برعکس نہیں بلکہ غیرت وحمیت کے بھی خلاف ہے اورجس کی زد پاکستان کی خودمختاری اورسلامتی پر بھی براہ راست پڑسکتی ہے۔ مسئلہ کشمیرکوایک طرف رکھتے ہوئے بھارت کے وہ سارے جارحانہ اقدامات جو وہ تسلسل سے مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے کررہا ہے مگراُس کے 370 اور 35A کے خاتمے تک کے اعلانات کو شرف قبولیت دینے کے مترادف ہوگاجس کاکوئی محب وطن پاکستانی تصور تک نہیں کرسکتاہے اوریہ کھلم کھلاکشمیرکازسے غداری کے مترادف ہوگا۔ اس معاہدہ کاانکشاف بھارت کے ایک صحافی شیکھر گپتانے کیاہے۔ بھارتی صحافی نے اپنے اس دی لاگ میں پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے بعض اہم انکشافات کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ اس پالیسی کے تحت پاکستان نے مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے بھارت کی مودی سرکار کا 5۔اگست 2019 ء کااقدام قبول کرلیاہے اورآئندہ کشمیرایشوپر کوئی بات نہ کرنے کا یقین دلایاہے اور سوبرس کیلئے ہرطرح کی مخاصمت کا خاتمہ کرکے تجارت کی پالیسی کو فروغ دیناکرادیاہے۔ اس طرح کی کوئی پالیسی طے کی گئی ہے یا طے ہونے جارہی ہے تویہ شہدائے کشمیرکے خون سے غداری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی قوم کسی صورت اجازت نہیں دے سکتی۔جوکے پاکستان کے ماضی قریب کے مؤقف کے بھی برعکس ہے۔

خودوزیراعظم پاکستان جناب عمران نے بارہایہ بیان تک دے دیاہے کہ بھارت سے اس وقت تعلق یا مذاکرات یا تجارت وغیرہ نہیں ہوسکتی جب تک بھارت 370 اور 35A کو بحال نہیں کرتا۔اس کے باوجود اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ملک میں یہ کون لوگ ہیں کہ جو نئی پالیسی لاناچاہتے ہیں وہ بھی کشمیریوں کے تڑپتی ہوئی لاشوں پر اس طرح کی پالیسی طے کی جارہی ہے جو سراسرپاکستان کے مفادکے خلاف ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کی جانب سے اس طرح کے معاہدہ کی کوشش ہوتی رہی کہ کسی نہ کسی طرح معاہدہ جنگ بندی کرلیاجائے لیکن ہر بارپاکستان کی عوام نے اس معاہدہ کو ردکردیا کہ کشمیرکے حل کے بغیراس طرح کا معاہدہ خودکشی کے مترادف ہوگا اورجو بھی اس طرح کا معاہدہ کرے گا وہ موت کے پروانے پردستخط کرے گا اورعوام اُس کا حشر نشر کردیں گے۔ماضی میں بھی پنڈت جواہر لال نہرو نے ایوب خان کو معاہدہ جنگ بندی کرنے کی دعوت دی تو ایوب خان نے پنڈت جواہرلال نہرو کو کہاکہ کشمیرکے تنازعہ کی صورت میں ایسامعاہدہ کیسے ہوسکتاہے؟ یہ تو ہمارے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ہم کشمیرکو کیسے بھول سکتے ہیں۔اب نہ صرف کشمیرکو ایک طرف رکھتے ہوئے ان لاکھوں شہداء کے خون کو بھی بھول بھال اور ان ہزاروں خواتین کی لٹی ہوئی عزتوں کی بھی پس پشت ڈالتے ہوئے ان ہزروں نوجوانوں کی بصارت کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے جنہیں بھارتی افواج نے پیلٹ گنوں سے اندھاکردیا اوراُن لاکھوں مکانوں کی خاکستر کو بھی بھول کرجن کو بارود سے تباہ وبربادکردیا۔اس طرح کامعاہدہ کرلیاگیا ہے جو قومی حمیت اور غیرت کے برعکس ہے یعنی دوسرے الفاظ میں اپنی عزت کا جنازہ نکالتے ہوئے اوراُس کو سرعام دفن کرکے آلو، پیاز، ٹماٹرکی تجارت کوشروع کرناچاہتے ہیں۔یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ قومیں غیرت کی موت مراکرتی ہیں میدان جنگ کی شکست باغیرت قوم آگے بڑھ کر فتح میں تبدیل کردیتی ہیں لیکن جن قوموں کی غیرت مرچکی ہو وہ قومیں بالآخر مرجایاکرتی ہیں۔۔۔ہم تو درویش افغانیوں سے بھی اور آذربائیجانیوں سے بھی سبق حاصل نہ کرسکے کہ باغیرت افغانی کس طرح بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے امریکہ اوراُن کے حواریوں کوجن میں غدارمشرف بھی شامل تھا کو شکست فاش دے چکے اوراب غیرت کی زندگی پورے فخر کے ساتھ بسرکررہے ہیں۔۔۔کاش ہم ان زندہ اور باغیور قوموں سے زندہ رہنے کا سبق حاصل کریں۔ اس لئے ہم اپنی قیادت سے سیاسی قیادت اورعسکری قیادت سے بھی کہیں گے کہ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہ کیاجائے جو قوم کو شرمندہ کردے۔ ہماری قوم بہادرقوم ہے وہ ایک غیرت مند، ایک خداکو ماننے والی قوم جو اپنی غیرت پرموت کوترجیح دے گی اور اس طرح کو کوئی بے غیرتی کامعاہدہ قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگی۔

ماضی قریب میں بھی باڈرزپر معاہدہ جنگ اورایک دوسرے کے احترام اورنام نہاد دہشت گردی کے خلاف معاہدہ کیلئے کیے جاتے رہے اورآپس میں مسکراہٹوں کے تبادلے، مٹھایوں کی بندربانٹ اور جپھیاں وغیرہ ڈالی جاتی رہیں۔ اُن معاہدوں کو بھی قوم نے مستردکردیا۔معاہدہ کرناہے تومقبوضہ کشمیر سے اُس کا آغازہوناچاہیے وہاں بھارت محاصرہ ختم کرے اورکشمیریوں کاقتل عام بندکرے اور اُن کو اُن کا بنیادی حق حق خودارادیت دے۔یہ اگر نہیں ہوتاتو پھرکچھ نہیں ہوگا اورنہ قوم اُس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوگی۔ہم پاکستان کی قیادت سیاسی، عسکری اورمذہبی قیادت سے پوچھتے ہیں:

کب تک دیکھو گے تماشا تم قاتل کا؟
بے گور و کفن لاشوں نے پکارا ہے!
ہے آندھیوں کا زور، شمع آزادی پر
تمہیں جلتے پروانوں نے پکارا ہے!

٭٭٭