
سیدعارف بہار
بھارت میں اسلاموفوبیا کا برآمد کیا جانے والا بوتل کا جن اب چہار سو دندناتا نظر آتا ہے۔کثیر الاقومی اور کثیر الثقافتی ملک کو عددی اور ریاستی طاقت کی بنیاد پر یک مذہبی رنگ بنانے کی مہم کئی مراحل طے کرتی جا رہی ہے۔اب تو یہ ذہنیت اپنے عزائم کے لئے اگر مگر کا سہارا لینے کی بجائے سیدھے سبھاؤ بھارت کو مسلمانوں کا میانمار بنانے کی بات کر رہے ہیں۔میانمار برما جہاں ایک فاشسٹ حکومت آنگ سوچی کی سرپرستی میں ہزاروں مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے ہلاک کیا گیا اور لاکھوں کو میانمار سے نکال کر بنگلہ دیش سمیت قریبی ملکوں میں دھکیل دیا گیا۔اب بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کو میانمارکے مسلمانوں کے انجام سے دوچار کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔کچھ دن پہلے اتراکھنڈ میں ”اسلامک بھارت میں سناتھن کا بھوش“کے عنوان سے دھرم سنسد منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں مسلمانوں کے حوالے سے نہایت زہر آلود خیالات کا اظہار کیا گیا جو بھارت میں پھیلتے اسلاموفوبیا کے بڑھنے کا مظہر تھیں۔ایک مقر ر نے کہا کہ اگر وہ ایم پی ہوتیں تو بھارت کے سابق سکھ وزیر اعظم من موہن سنگھ کو گاندھی کی طرح چھ گولیاں مارتیں۔ایک اور مقرر کا کہنا تھا کہ بھارت سے مسلمانوں کو اسی طرح بھگایا جائے جس طرح میانمار سے مسلمانوں کو نکالا گیا۔ایک مقرر نے عیسائیوں سے کہا کہ وہ بھارت میں کرسمس نہ منائیں۔ایک اور تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ہند و ابھی سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں تاکہ 2029کوئی مسلمان بھارت کا پردھان منتری نہ بن سکے۔ او ریہ کہ اگر انہیں چھ ہزار رضاکار مل جائیں تو بھارت میں مسلمانوں کے بیس لاکھ اویسی ٹائپ لوگوں کو قتل کرکے حالات کو پرسکون بنائیں۔اس مہم کے جواب میں بھارت کے معروف مسلمان راہنما بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ایک جلسہ ئ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف مقدما ت درج کئے جائیں اور ان پر یواے پی اے کا قانون لاگو کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر فیس بک پر مودی اور امیت شاہ کے بارے میں کوئی غلط پوسٹ لگ جائے جو چار گھنٹے میں ڈھونڈ کر پولیس اس شخص کے گھر میں پہنچ جاتی ہے مگر مسلمانوں کو دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا جاتا۔

یہ تازہ صورت حال اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ بھارت بہت تیزی کے ساتھ ہندو راشٹریہ بننے کی راہ پر چل رہا ہے۔سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو پوری طرح دیوا ر سے لگایا جارہا ہے اور جو ذہن سازی کی جارہی ہے وہ کسی بھی وقت کسی بڑے دھماکے کی شکل میں پھٹ سکتی ہے۔عیسائیوں نے تو انتہا پسندوں کے خوف سے اپنے ہندو نام رکھنا شر وع کئے ہیں کچھ عجب نہیں وہ کرسمس منانے سے بھی توبہ تائب ہوجائیں کیونکہ ہندو انتہاپسندی او ر بالادستی کی لہر اپنے اندر خونیں رنگ لئے ہوئے۔مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے اور گائے کا گوشت رکھنے کے الزامات میں تشدد کا نشانہ بنانے کا چلن عام ہے۔آئے روز کسی سفاک اور درندہ صفت ہجوم کے ہاتھوں کسی مسلمان نوجوان کے تشدد اور قتل کی وڈیو وائرل ہوتی ہے۔مسلمانوں کو نماز جمعہ اور عیدین کھلے مقامات پر پڑھنے سے روکنے کی مہم بھی زوروں پر ہے۔گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو ہیرو بناکر اس کی پوجا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔گویاکہ گاندھی کے سیکولر نظریے اور سیکولر بھارت کی چتا کو اب آخری اگنی دکھائی جا رہی ہے۔گاندھی کو گوڈسے نے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف مرن بھرت رکھنے کی بنا پر گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی نے مسلمانوں کے لئے جان دی تھی اور بھارت کے انتہا پسند گاندھی کا یہ جرم اب بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔وہ نئے بھارت میں گاندھی کو ولن اور گوڈسے کو ہیرو بنا کر بچھے کھچے سیکولر ہندؤوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کا انجام گاندھی جیسا ہوسکتا ہے اور وہیں اس میں مسلمانوں کے لئے پیغام ہے کہ اب بھارت میں ان کی آواز اُٹھانے والا کوئی ہندو نہیں رہا۔یہ وہ نکتہ ہے جو بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اپنے خطاب میں بھی اُٹھایا۔انہوں نے کہا زہر آلود تقریریں کرنے کے خلاف کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے جو خود کو سیکولر کہلاتی ہیں ایف آر درج کرانے سے اس لئے گریز کیا اس سے ہندو ووٹر ناراض ہو سکتا تھا اس لئے یہ کام ایک مسلمان کو ہی کرنا پڑا۔بھارت میں مسلمانوں کی یہ حالت زارآنے والے دنوں کی دھندلی ہی نہیں واضح اور صاف تصویر بنارہی ہے۔

بھارت میں مسلمان کوئی معمولی اقلیت نہیں بلکہ ان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔اتنی بڑی آبادی کو دیوار سے لگانا آسان کام نہیں۔بیس کروڑ آبادی کی بے چینی،اضطراب اور عدم اطمینان بھارت کی چولیں ہلا سکتا ہے۔
٭٭٭
سید عارف بہار کشمیر کے معروف صحافی، کالم نگار اور مصنف ہیں