تاریخ گواہ ہے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جو کچھ اسرائیل نے عربوں کے ساتھ کیا تھا اس بار حماس نے وہی کچھ اسرائیل کے ساتھ کیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت نے وہ کچھ کردیا جوجدید ہتھیاروں سے لیس فوجیں بھی نہیں کرسکتیں۔67ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر سمیت 4 عرب ممالک سے جنگ لڑی تھی لیکن یہ جنگ صرف جنگ صرف 6 دن تک جاری رہی، جس دوران ”اسرائیل” مصر سے جزیرہ نما سینا، شام سے گولان کی پہاڑیوں، اردن سے مغربی کنارے اور لبنان سے شیبا فارمز پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ” آج 6دن نہیں تقریباََ 2مہینے گذر چکے ہیں لیکن جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں اسرائیلی افواج اصولی طور پر ہار چکی ہیں ۔ ہاں اس جنگ میں اب تک پندرہ ہزار فلسطینی شہید اور تیس ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔لیکن فلسطینی عوام اور مجاہدین کا حوصلہ بلند ہے ۔ایک طرف چند معمولی ہتھیاروں کے ساتھ مجاہدین فلسطین پچھلے دو مہینوں سے امت مسلمہ کے وقار اور غیرت کا دفاع کررہے ہیں ،،دوسری طرف اسرئیل اپنی پوری قوت کے ساتھ وقار اور غیرت کے پاسبانوں کو ملیامیٹ کرنے کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ لیکن ابھی تک ناکام ہے ۔۔۔۔۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیلی فوج میں ایک لاکھ 69 ہزار 500 اہلکار موجود ہیں جب کہ چار لاکھ 65 ہزار افراد ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔اسرائیل کی بری فوج کے پاس 2200 ٹینکس اور 530 آرٹلریز ہیں۔ جدید ترین موبائل ایئر ڈیفنس بھی موجود ہے، جو چھوٹی رینج کے راکٹس کو پکڑنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسرائیلی کی فضائیہ کے پاس 339 جنگی لڑاکا طیارے ہیں جن میں 196 ایف 16، 83 ایف 15 اور 30 ایف 35 لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں۔ پانچ جدید ترین سب میرینز بھی ہیں۔پوری دنیا کی باطل قوتوں کا تعاون بھی انہیں پوری قوت اور شدت کے ساتھ مل رہا ہے ۔لیکن پھر بھی شکست خوردگی کا احساس ان کی جبینوں پر صاف نظر آ رہا ہے۔نام نہاد عالم اسلام اور اس کی مشترکہ تنظیم او آئی سی اگر حماس کی اس مٹھی بھر جماعت کی طرح اللہ پر توکل اور غیرت کا مظاہرہ کرتی تو فلسطین ہی کیا پوری دنیا کے مظلوم و محکوم ۔۔قابض اور غاصب قوتوں سے نجات حاصل کرلیتے ۔لیکن افسوس مسلم حکمرانوں نے ثابت کردیا کہ انہیں ملی غیرت و وقار کی کوئی پرواہ نہیں ۔وہ معیشت اور کاروبارکے نام پر اپنی خودی بیچ چکے ہیں۔وہ خوف کا شکار ہیں۔بقول معروف تجزیہ نگار شاہنواز فاروقی انہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چائیے کہـ” جس حماس کا اسرائیلی فوجی قوت سے موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا اسے بھی 50 روزہ جنگ کے بعد بھی اگلے حملوں کے لیے تیاری کی ضرورت پڑ گئی۔ یہ بات تو اسرائیلیوں اور ان کے سرپرستوں کے سوچنے کی ہے کہ اسرائیل کئی عرب ملکوں کو چھ روز میں شکست دے سکتا ہے لیکن حماس کے سامنے وہ 50 روز بعد بھی بے بس ہے”وہ آگے لکھتے ہیں کہ”اس قضیے کے سب سے بڑے مجرم مسلم حکمران ہیں اگر وہ اسرائیلی قبضہ ختم کرنے پر زور دیتے رہتے اور بار بار دو ریاستی حل یا تیسرے چوتھے فارمولے پر بات نہ کرتے تو کم از کم اسرائیل کے قدم اس طرح نہ بڑھتے۔ اس وقت بھی دنیا کے غیر مسلم ممالک کے عوام اور حکمران زیادہ پرجوش ہیں اور مسلم حکمران غائب ہیں، خوفزدہ ہیں اور شاید اسرائیل اور امریکا کے مقروض بھی ہیں۔ لیکن وہ بھی یاد رکھیں کہ جو اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے، جو اس کے سامنے حق بات نہیں کررہا ہے وہ بھی اسرائیل کا ساتھی تصور ہوگا” کیا حماس کی جدوجہد اور اس کے اثرات سے ان کی آنکھیں اب کھل سکتی ہیں ۔یہ آنیوالا وقت بتائے گا لیکن فی الحال اس وقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ او آئی سی کا کردار انتہائی شرمناک اور منافقانہ رہا اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ حماس کی حالیہ مزاحمت نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسئلہ فلسطین زندہ ہے، اسے ہمیشہ کے لیے دبایا نہیں جاسکتا اور اس کا کوئی قابلِ قبول اور پائیدار حل تلاش کیے بغیر اسرائیل کو بھی دیرپا امن اور چین نصیب نہیں ہوگا۔