بیس کیمپ یا اقتدار کا ریس کیمپ؟

تحریکِ آزادی کشمیر کی لہو میں ڈوبی زخم زخم داستان

اقوامِ متحدہ کی قبروں میں دفن قراردادیں، کیا عالمی ضمیر بھی بھارتی سفارتکاری خرید چکا ہے؟

بھارت کی فلمی مکاری اور عالمی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی۔کشمیر کی سچائی کو جعلی بیانیوں میں کیسے دفن کیا گیا؟

تہاڑ جیل کی زنجیروں سے بلند حریت کی صدائیں، شہیدسید علی گیلانیؒ، یاسین ملک اور قافلۂ قربانی کی داستان

کشمیر: ایک خاموش نسل کشی جسے دنیا تماشہ سمجھ بیٹھی،مگر یہ صرف زمینی تنازعہ نہیں، انسانیت کا جنازہ ہے

ہماری خاموشی، کشمیریوں کا ماتم، یوم آزادی کے دن ہر کشمیری مظلوم پوچھتا ہے: میرا جشن کب ہو گا؟

سید عمر گردیزی

رات کے پچھلے پہر کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ برف کی تہہ سے ڈھکی وادی میں کہیں دور اذان کی صدا کسی مقفل مسجد کی ٹوٹی ہوئی چھت سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے اذان ہو رہی ہو، مگر کوئی دروازہ کھلنے کا نام نہ لے۔ دریائے جہلم کا پانی خاموشی سے بہہ رہا تھا، جیسے اس کے سینے میں ہزاروں لاشیں دفن ہوں، اور ہر موج، کوئی بے نشان جنازہ ہو۔ اسی سناٹے میں ایک بوڑھی ماں، اپنی چادر میں لپٹا ہوا خون میں لت پت قرآن تھامے بیٹھی تھی۔ کبھی اس پر بوسہ دیتی، کبھی روتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتی اور پھر وہی سوال دہراتی، جو برسوں سے ہر کشمیری کے لبوں پر ہے: ’’کیا ہمارے سجدے ادھورے ہی رہیں گے؟ کیا قربانیاں شمار نہیں ہوتیں خدا کے ہاں؟ اور کیا پاکستان صرف ایک نعرہ تھا؟‘‘چند قدم دور، ایک چھوٹا بچہ ملبے میں اپنی گڑیا تلاش کر رہا تھا، وہ گڑیا جو اُس کی بہن کی آخری نشانی تھی، جو پچھلے ہفتے ایک بھارتی فوجی کی فائرنگ سے شہید ہو گئی تھی۔ بچہ بار بار مٹی ہٹاتا، آنکھیں مَلتا، اور بڑبڑاتا: ’’جب پاکستان آزاد ہوا تھا، تو کیا کشمیر کا بھی وعدہ کیا گیا تھا؟‘‘یہ سوال محض بچوں کے نہیں رہے۔ یہ سوال اب قبریں بھی پوچھتی ہیں، پتے بھی، ہوائیں بھی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو بیس کیمپ کے ایوانوں تک تو پہنچتے ہیں، مگر وہاں ان کی گونج نعرے، تقاریر اور ہوٹلوں کی میزوں کے نیچے دفن ہو جاتی ہے۔ یہاں وادی میں آزادی کے چراغ خون سے جلتے ہیں، اور وہاں کرسی کے چراغ سیاست سے۔ یہاں کشمیر لہو میں نہا رہا ہے، اور وہاں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ اگلے الیکشن کے پوسٹر پر چھپ رہا ہے۔ اور اس افسانے کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ یہ افسانہ نہیں، یہ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں، سینکڑوں خواب روند ڈالے ہیں، لاکھوں بین، صدائیں، اذیتیں، صبر اور سوالات پیدا کیے ہیں ، مگر جن کے جواب ابھی تک نہ اقوامِ متحدہ نے دیے، نہ عالمِ اسلام نے، اور نہ بیس کیمپ نے۔ اس تحریر میں آج میں صرف الفاظ کا سفر نہیں کرونگا بلکہ، میں وادی کی گلیوں میں قدم رکھوں گا، میں تہاڑ جیل کی کوٹھریوں سے آتی سسکیوں کو سناؤں گا، اُن کانفرنس ہالز کا حساب لوں گا جہاں کشمیر صرف ایک سائیڈ ایشو سمجھا گیا، اور اُن چہروں پر پردہ اُٹھاؤں گا جنہوں نے بیس کیمپ کو اقتدار اور کرسی نشینی کے ریس کیمپ میں بدل دیا۔ اس بار میری یہ تحریر ایک التجا ہے… ایک اعلان ہے… ایک مقدمہ ہے… اور ایک چیخ ہے… جسے اب دنیا کے ضمیر کو سننا ہوگا۔ یہ تحریر لہو سے لکھی جا رہی ہے۔ اس میں روشنائی کی جگہ وہ سرخ مائع بہتا ہے جو دہائیوں سے وادیٔ کشمیر کے چشموں، دریاؤں، گلیوں، گھاٹیوں اور ماؤں کی آنکھوں سے بہتا چلا آیا ہے۔ یہ صرف ایک مضمون نہیں، ایک نوحہ ہے، ایک فریاد ہے، ایک تاریخی فردِ جرم ہے، جو نہ صرف بھارت کے ظالم نظام پر عائد ہوتی ہے بلکہ ان سب پر بھی جو اس ظلم کو صرف بیانات میں لپیٹ کر، تعزیتوں میں چھپا کر، اور سفارتی ملفوظات میں گم کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔ وادیٔ کشمیر اس وقت بھی زنجیروں میں جکڑی ہے۔ بھارتی قابض افواج کے جوتوں تلے نہ صرف آزادی کچلی جا رہی ہے بلکہ انسانیت کا منہ چڑایا جا رہا ہے۔ ہر صبح بندوقوں کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے اور ہر رات کسی جنازے کی آہ و بکا کے ساتھ سوتی ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے وہ سیاہ دن رقم کیا جس نے کشمیریوں سے ان کی شناخت، ان کی حیثیت، ان کا جغرافیہ اور ان کی آئینی پہچان چھین لی۔ وہ خطہ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ تھا، یکطرفہ طور پر بھارت میں ضم کرنے کی جسارت کی گئی۔ مگر یہ محض آئینی یا قانونی حملہ نہ تھا؛ یہ کشمیریوں کے وجود پر وار تھا، ان کے خوابوں، تاریخ، عقیدے اور تشخص پر چاقو تھا۔قابض افواج کی موجودگی اب صرف فوجی چوکیوں تک محدود نہیں۔ وہ کشمیریوں کی سوچ، سانس، نیند، اور حتیٰ کہ ان کے سجدوں میں بھی گھس چکی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا، اجتماعی قبریں اب کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ زمین کے کربناک سچ بن چکی ہیں۔ پیلٹ گن کے ذریعے آنکھوں سے بینائی چھینی گئی، مگر بھارت یہ نہیں جانتا کہ جس قوم کے دل میں بینائی ہو، اس کی آنکھیں چھین لینے سے آزادی کا خواب ختم نہیں ہوتا۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کی لاشیں دفناتیں، ان کے ہاتھ میں صرف کفن نہیں بلکہ ایک سوال ہوتا ہے: ہم کب آزاد ہوں گے؟ حریت قائدین کی جدوجہد انسانی تاریخ کے ان ابواب میں لکھی جائے گی جہاں قربانی کو حرفِ آخر مانا جاتا ہے۔ سید علی گیلانی کی نصف صدی پر محیط جدوجہد، ان کی تنہائی میں گزری جوانی، جیلوں میں گزاری عمر، اور سب کچھ کھو دینے کے باوجود آزادی کے بیانیے سے وابستگی، ان کا ہر لمحہ کشمیری غیرت کا استعارہ ہے۔ ان کی موت بھی بھارت کے ظلم کی نشان دہی ہے؛ ان کا جنازہ بھی قید میں ہوا، ان کی قبر بھی پہرہ داروں کی نگرانی میں بنی۔ یاسین ملک، جس نے اس تحریک کے لیے سب کچھ قربان کیا، آج تہاڑ کی دیواروں کے پیچھے عمر قید کاٹ رہا ہے۔ اس کی چیخیں سننے والاکوئی نہیں، اور نہ ہی بیس کیمپ کے ایوانوں میں اس کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔

یہاں رک کر اب ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔ بیس کیمپ، یعنی آزاد کشمیر، وہ خطہ جو تحریک آزادی کشمیر کا مرکز ہونا چاہیے تھا، آج محض اقتدار کے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ حکمران طبقات نے اس خطے کو ریس کیمپ میں تبدیل کر دیا ہے۔ جو قیادت آزاد کشمیر میں ہونی چاہیے تھی، جو یہاں سے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنا چاہیے تھا، وہ اقتدار کے ایوانوں میں ذاتی مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جلسے، جلوس، بیانات، تعزیتی قراردادیں، بس اتنا ہی کردار ہے اس بیس کیمپ کا۔ نہ کوئی طویل المدتی پالیسی، نہ کوئی انسٹی ٹیوشنل فریم ورک، نہ میڈیا پر تسلسل سے کشمیر کا مقدمہ، اور نہ ہی عالمی اداروں میں مربوط سفارتی جدوجہد۔ یہ بات تاریخ کی سیاہ ترین سطروں میں لکھی جائے گی کہ جس خطے کو اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ ’’تحریکِ آزادی کشمیر کا بیس کیمپ‘‘ قرار دیا، وہ خطہ وقت کے ساتھ ایک اقتدار کا ریس کیمپ بن کر رہ گیا۔ وہ خطہ جہاں سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ناقوس بجنا تھا، وہاں صرف اقتدار کی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ جس چبوترے پر شہیدوں کے نام کندہ ہونے تھے، وہاں پارٹی جھنڈوں اور بینروں نے ڈیرہ ڈال لیا۔ آزاد کشمیر کی قیادت، چاہے وہ وزیراعظم ہو، اپوزیشن لیڈر ہو، وزراء یا ممبران اسمبلی، سب کے سب ایک مشترکہ ناکامی کا استعارہ بن چکے ہیں۔آج میں بتانا چاہوں گا کہ وہ ناکامیاں کیا ہیں؟ انتخابی دور میں سیاسی ترجیحات میں آزادی کا نام تک نہیں ہوتا سو بیانات کے، ان کے انتخابی منشور میں آزادی کشمیر ایک رسمی سطر کے طور پر شامل کی جاتی ہے، جس کے پیچھے کوئی حکمتِ عملی، کوئی سفارتی ڈھانچہ، کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ یہاں امیدوار کشمیر کا نام لے کر ووٹ لیتے ہیں، اور جیت کر صرف مظفرآباد یا اسلام آباد تک محدود ہو جاتے ہیں۔ سفارتی سطح پر مکمل نالائقی کس سے ڈھکی چھپی ہے، ستر سال گزر گئے، بیس کیمپ کی قیادت عالمی سطح پر ایک بھی مستقل لابنگ گروپ قائم نہ کر سکی جو بھارت کے مظالم کو اقوامِ عالم کے سامنے رکھ سکے۔ کوئی کشمیر ڈیسک، کوئی تھنک ٹینک، کوئی ریسرچ ادارہ، کوئی مضبوط میڈیا سیل تک نہ بنایا جا سکا۔ اس خاموشی نے بھارت کو بولنے کا موقع دیا اور ہمیں دنیا بھر میں تماشائی بنا دیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ قراردادیں موجود ہیں، لیکن آج تک کوئی آزاد کشمیری رہنما اقوامِ متحدہ کے دروازے پر مستقل موجودگی نہ بنا سکا۔ وہ ریاست جو حقِ خودارادیت کے لیے علامتی قیادت بن سکتی تھی، ایک ضلعی طرز کی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ بے مقصد اور نام نہاد کشمیر کانفرنسیں اور عیاشیاں تو عروج پر ہیں، ہر سال مختلف ہوٹلوں اور کانفرنس ہالز میں کشمیر کانفرنسوں کے نام پر فوٹو سیشنز ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر نعرے، لنچ پر دعوے، اور رات کو نائٹ پیکجز پر جشن ،مگر عملی نتیجہ؟ صفر! وہی مقبوضہ کشمیر، وہی شہادتیں، وہی آہیں۔ آج تک ہم مکمل طور پر ، عالمی تناظر میں عالمی دنیا کے سامنے بھارتی بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے، بھارت سوشل میڈیا، عالمی میڈیا، فلم، تھنک ٹینکس اور سفارت کاری کے ذریعے کشمیر پر اپنے بیانیے کو مضبوط کرتا رہا، اور بیس کیمپ میں ایک بھی ایسا ادارہ نہ بن سکا جو اس زہریلے پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکتا ہو۔ اکثر تاریخی موقعات پر مجرمانہ خاموشی تو اب روایت بنتی جا رہی ہے۔ جب 5 اگست 2019 کو بھارت نے آئینی طور پر کشمیر کا اسٹیٹس ختم کیا، بیس کیمپ نے صرف ایک دن کا احتجاج کیا ، وہ بھی سیاسی تقاریر، کالی پٹیاں اور مشروط غصے کے ساتھ۔ اس کے بعد وہی اقتدار کی رسہ کشی، وہی وزارتوں کی تقسیم، وہی مفادات کی سیاست۔ تحریکِ حریت کا صرف جذباتی استعمال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قربانیوں کو پالیسی میں نہیں ڈھالاگیا، بلکہ جذباتی استحصال کے ذریعے انہیں ووٹ بینک بنایا گیا۔ جو قیادت اقوامِ متحدہ کی قراردادیں پڑھنے کی زحمت تک نہ کرے، وہ کس حق سے کشمیر کا نام لیتی ہے؟ جو حکمران اپنی وزارت کی کرسی بچانے کے لیے بیس کیمپ کو خاموش رکھیں، وہ کیونکر کشمیریوں کے خون کے وارث ہو سکتے ہیں؟ جن کے پاس سفارتی، میڈیا، تھنک ٹینک، قانونی، انسانی حقوق کا کوئی عملی ادارہ نہ ہو، وہ کشمیر کو آزاد کرانے کا خواب کس منہ سے دیکھتے ہیں؟ یہ تحریر ان حکمرانوں کے لیے آئینہ ہے کہ اگر آپ کے ضمیر زندہ ہیں، اگر شہیدوں کی لاشوں سے بہنے والا خون تمہارے خوابوں میں آتا ہے۔ اگر تم واقعی سنجیدہ کشمیری قیادت ہو تو بتاؤ: کیا تم نے ایک بھی عملی قدم اٹھایا ہے جو آزادی کشمیر کی طرف بڑھتا ہو؟ اگر نہیں، تو تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی۔ تمہارا نام نہ کسی پتھر پر لکھا جائے گا، نہ کسی قبر پر۔ تم صرف اقتدار کے غداروں میں شمار کیے جاؤ گے۔ یہ وہ تلخ سچائی ہے جو بیوروکریسی، وزیروں، اسمبلی ممبران اور کشمیر کمیٹی کے موسمی دانشوروں کے ضمیر پر ہتھوڑے بن کر گرے گی مگر یہ سچ ہے اور اس سچ کو تسلیم کرتے ہو آگے سمت تلاش کرنا ہوگی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ مستقبل میں درست سمت کا تعین ہوگا جو عوام کی مرضی سے ہوگا نہ کہ اقتدار اور مفادات کی جنگ کی صورت میں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزرائے اعظم نے گزشتہ 78 برسوں میں کتنی بار عالمی اداروں سے باضابطہ رابطے کیے؟ کتنے بار یورپی یونین، اقوام متحدہ، یا بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں کشمیر کا کیس رکھا؟ کیا کوئی جامع سفارتی بلیو پرنٹ موجود ہے؟ افسوس کہ بیس کیمپ کے اربابِ اختیار نے کشمیر کے زخموں کو صرف سیاسی نعروں تک محدود کر دیا۔ عالمی سطح پر اگر نظر دوڑائی جائے تو کشمیر کی آواز دبانے میں بھارت نے اپنی چالاکی اور سفارت کاری کو بخوبی استعمال کیا۔ بھارتی سفارت خانے دنیا کے ہر اہم ملک میں کشمیر کو داخلی مسئلہ کہہ کر اس بحث کو بند کروا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھارت مسلسل نظر انداز کرتا آ رہا ہے، اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ بھارت نے امریکہ، اسرائیل، فرانس اور کئی مغربی ممالک سے دفاعی اور معاشی تعلقات کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے لیے محض ایک ’’پریس اسٹیٹمنٹ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت نے مغرب کو معیشت کا لالچ دیا، میڈیا کو کنٹرول کیا، اور عالمی بیانیے کو اپنی مرضی سے موڑنے میں کامیاب رہا۔ پاکستان کی طرف سے کوششیں ضرور ہوئیں مگر غیر منظم، وقتی اور ردعمل پر مبنی۔ اقوام متحدہ میں تقریریں کی گئیں، مگر پالیسی سازی اور عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی ایسا تھنک ٹینک فعال نہیں ہو سکا جو جدید سفارت کاری، ڈیجیٹل میڈیا، اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی روشنی میں یہ مقدمہ تیار کرتا۔ ہمارا میڈیا بھی وقتی جوش دکھاتا ہے، مگر مسلسل بیانیہ نہیں اپناتا۔ ہم نے مظلوم مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ضرور رکھی، مگر عملی میدان میں ہم بار بار پیچھے ہٹے۔ عالمی ضمیر کی بے حسی، اور ہماری اپنی بے عملی نے کشمیر کو تنہا کر دیا۔
کشمیر کا المیہ صرف بھارت کے ہاتھوں لہو لہان نہیں ہوا، بلکہ عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی نے بھی اس سرزمین پر خون کی ندیاں بہانے میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو یوکرین میں انسانی حقوق کے خلاف ایک قدم پر چیخ اٹھتی ہے، لیکن کشمیر میں جب پوری بستی کو جلایا جاتا ہے، لڑکیوں کی چوٹیاں کاٹ دی جاتی ہیں، اور بچوں کی آنکھوں میں چھرّے مارے جاتے ہیں، تو دنیا کی زبانیں گنگ، آنکھیں اندھی اور دل مردہ ہو جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، وہ ادارہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد انسانیت کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا، آج کشمیر کے معاملے میں بس قراردادوں کی قبرستان بن چکا ہے۔1948 کی قراردادیں، 1951، 1957 اور 1965 کی قرار دادیں، سب اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ کشمیریوں کو استصوابِ رائے (plebiscite) کا حق حاصل ہے، اور بھارت کو یہ حق دینا ہوگا۔ مگر کیا کبھی اقوامِ متحدہ نے اس پر عملدرآمد کروایا؟ نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے: بھارت کی معاشی قوت، سفارتی لابنگ اور بڑی طاقتوں کی مفاداتی مجبوری۔ بھارت نے 1990 کی دہائی سے ہی ایک ہمہ جہت پالیسی اپنائی۔ اس نے سب سے پہلے اسلامی تحریک کو ’’دہشتگردی‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ بھارت نے حریت کی خالص اور عوامی تحریک کو دہشتگردی کا لبادہ پہنا دیا۔ دنیا کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ کشمیر میں جاری مزاحمت پاکستان کی ’’cross-border terrorism‘‘ کا نتیجہ ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس کے بعد بھارت نے سفارتی لابنگ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور او آئی سی میں مستقل لابنگ گروپ بنائے۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، تھنک ٹینک اسکالرز کو خرید کر بھارتی بیانیہ دنیا کے ہر فورم پر پیش کیا۔ یوں ایک زہریلے بیانیے کو مہذب الفاظ میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد بھارت نے فلموں، میڈیا اور ثقافت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا۔ بالی وُڈ کے ذریعے کشمیر کو ایک حساس مگر ’’داخلی معاملہ‘‘ ثابت کیا گیا۔حیدر، شنکارا، ہمّت والا، اوڑی دی سرجیکل سٹرائیک ، فنا ، مشن کشمیر سمیت درجنوں بالی وڈ فلموں کے ذریعے بھارتی فوج کو ’’ہیرو‘‘ اور کشمیری مزاحمت کو دہشتگردی کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایک پوری نسل کو ذہنی طور پر کنفیوز اور گمراہ کر دیا گیا۔ بھارت کی سب سے خطرناک چال ’’فالس فلیگ آپریشنز‘‘تھے۔ سات دہائیوں میں کشمیر پر 18 سے زائد قراردادیں پاس ہوئیں، مگر ان پر کبھی بھی عالمی دباؤ کے تحت عمل نہیں ہوا۔ یو این او میں کشمیر کے لیے کوئی مستقل نمائندہ، کوئی انسانی حقوق کا کمیشن، کوئی تحقیقی مشن تک بھیجنے کی کوشش نہ کی گئی۔ صرف رپورٹیں، بیانات، اور نمائشی تشویش، اور پھر خاموشی۔ او آئی سی (OIC) کی صورتحال اور بھی قابلِ افسوس ہے۔ 57 مسلم ممالک پر مشتمل تنظیمِ تعاونِ اسلامی نے کشمیر پر درجنوں قراردادیں اور بیانات تو دیے، لیکن کیا کبھی کسی عرب ریاست نے بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ کیا کسی مسلم ریاست نے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے ختم کیے؟ ہرگز نہیں۔ تیل، تجارت اور بھارت کی مارکیٹ نے ان کے ایمان کو خرید لیا۔ یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے متعدد بار رپورٹس جاری کر چکے ہیں۔ ان رپورٹس میں پیلٹ گنز، اجتماعی قبریں، ماورائے عدالت قتل، اور آزادی اظہار کی بندش پر تشویش ظاہر کی گئی، لیکن کیا کسی یورپی ملک نے بھارت پر سفارتی یا تجارتی پابندی لگائی؟ کیا بھارت کو کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سزا ملی؟ نہیں۔ یہ سب ادارے صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں نوجوان شہید ہو گئے، سینکڑوں معصوم بچیوں کی آبروریزی کی گئی، پیلٹ گنز سے بچوں کی آنکھیں ضائع ہوئیں، اجتماعی قبریں بنیں، آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ہر گلی، ہر چوک، ہر مسجد میں زہر اگلتے رہے، تہاڑ جیل میں کشمیری قیادت قید رہی، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کتابوں میں دفن ہوتی رہیں۔ نمازِ جمعہ پر پابندی لگ گئی، مساجد پر قفل لگا دیا گیا، قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کیے گئے، اور سب سے بڑھ کر، کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) کی ایک منظم مہم شروع ہو چکی ہے، جسے اگر دنیا نے نہ روکا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر دوسرا روانڈا، دوسرا بوسنیا بن جائے گا۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم محض تقاریر اور قراردادوں سے آگے بڑھیں۔ بیس کیمپ کو حقیقی معنوں میں ایک انقلابی مرکز بنایا جائے۔ ہر ادارے میں کشمیر پر ماڈیولز ہوں، نوجوانوں کو عالمی میڈیا پر کشمیری بیانیہ دینے کی تربیت دی جائے، سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دیے جائیں، اور عالمی عدالتوں میں مقدمات داخل کیے جائیں۔ یوم آزادی پاکستان ہو یا بھارت، کشمیریوں کے لیے ہر سال یہ دن مزید زخم لے کر آتا ہے۔ 78 سال سے وہ ایک ایسے وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے ساتھ پاکستان نے کیا تھا ، کہ ہم تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں، اور بیس کیمپ میں جشن ہو رہے ہیں۔ یہ تحریر سوال ہے ان تمام ذمہ داروں سے جنہوں نے بیس کیمپ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے بجائے اسے سیاست کا شکار بنا دیا۔ کشمیر پکار رہا ہے: ’’ہم نے لہو دیا، تم نے کیا کیا؟‘‘اب بھی وقت ہے، بیس کیمپ کو ریس کیمپ سے آزاد کیا جائے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہمیں الفاظ نہیں، عزم، حکمت، اور مسلسل عمل کی ضرورت ہے۔ یہی تحریک کی بقا ہے، یہی کشمیریوں کے خون کا کفارہ بھی ہے۔ یومِ آزادی جب ہر سال پاکستان میں ملی نغموں، سبز پرچموں، آتش بازیوں، ترانوں اور جشن کی صورت میں آتا ہے، تو کشمیر کی وادی میں یہ دن ایک کرب میں ڈوبی شام کی مانند گزر جاتا ہے۔ وہاں نہ چراغ جلتے ہیں، نہ پرچم لہراتے ہیں، نہ نغمے گونجتے ہیں، بلکہ ہر گھر میں ایک شہید کی تصویر، ہر گلی میں ماؤں کی چیخ، اور ہر بچی کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں جن کی بینائی چھرّوں نے چھین لی۔ آزاد فضاؤں میں آزادی کا جشن منانے والو! ذرا سوچیے، ان کشمیریوں کا کیا قصور تھا جو تم سے صرف اتنا ہی مانگتے ہیں کہ تم ان کی پکار پر لبیک کہو، ان کی وادی کو ان کے لہو سے آزاد کراؤ، اور ان کے لیے بھی وہی آزادی چاہو جو تمہیں نصیب ہے۔ عالمی ضمیر سے ہم پوچھتے ہیں: کیا تمہاری انسانیت بھی اتنی ہی منتخب ہے جتنی تمہاری سیاست؟ کیا تمہاری آنکھیں صرف اُس خون پر نم ہوتی ہیں جو تمہارے مفاد کے خلاف گرتا ہے؟ کشمیر کے 78 سالہ دکھ، قربانیاں، آنسو، جنازے، اجتماعی قبریں، بند گلیاں، تہاڑ کی سلاخیں، اور جلتی بستیاں اب عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ اگر نہیں، تو پھر وہ دن دور نہیں جب انسانیت تمہارے ہاتھوں اپنی آخری سانس لے گی، اور کشمیر کی وادی تمہاری بے حسی پر ہمیشہ لعنت بھیجے گی۔ کشمیر کے معصوم، زخم خوردہ اور مصلوب بچے آج بھی ایک سوال لیے تمہاری آنکھوں میں جھانک رہے ہیں: کیا ہمارا یومِ آزادی کبھی آئے گا؟

سید عمر اویس گردیزی کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ۔معروف صحافی اور دانشور ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں اور بلامعاوضہ لکھتے ہیں