بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے

شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیںکہ’’ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے‘‘۔اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سنیں تو ان کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھری رکھ دی۔ (پھر عین اس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسف ؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں’’ حاشالِلّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے‘‘۔عزیز کی بیوی نے کہا’’دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بیشک میں نے اِسے رجہانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نِکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔یوسف علیہ السلام نے کہا ’’اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا۔۔۔اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور ان عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔پھر ان لوگوں کو یہ سوجھی کہ ایک مدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے برے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک روز ان میں سے ایک نے اس سے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشِید کر رہا ہوں‘‘۔ دوسرے نے کہا’’ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں‘‘۔ دونوں نے کہا ’’ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں‘‘۔

سورہ یوسف آ یت نمبر 30 تا 36 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

اللہ کے نزدیک بہترین انسان کون

ایک شخص رسول کریم ﷺ کے سامنے سے گزرا تو آنحضرت ﷺ نے ایک دوسرے شخص ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے جو آپ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے ، پوچھا کہ اس شخص ( گزرنے والے ) کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ معزز لوگوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم ! یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح کر دیا جائے۔ اگر یہ سفارش کرے تو ان کی سفارش قبول کر لی جائے۔ بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گزرے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے ان کے متعلق بھی پوچھا کہ ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ، یا رسول اللہ ! یہ صاحب مسلمانوں کے غریب طبقہ سے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اگر یہ نکاح کا پیغام بھیجیں تو ان کا نکاح نہ کیا جائے ، اگر یہ کسی کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کچھ کہیں تو ان کی بات نہ سنی جائے۔ آنحضرت ﷺنے اس کے بعد فرمایا : اللہ کے نزدیک یہ پچھلا محتاج شخص اگلے مالدار شخص سے ، گو ویسے آدمی زمین بھر کر ہوں ، بہتر ہے۔

(بخاری)

بد ترین حرام

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : حضرت محمد ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں تم کو یہ نہ بتاؤں کہ بدترین حرام کیا ہے ؟ یہ چغلی ہے جو لوگوں کی زبان پر رواں ہو جاتی ہے۔‘‘ اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا :’’ انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ ( اللہ تعالیٰ کے ہاں ) وہ صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

( مسلم )