عبد الہادی احمد
1953ء میں ان کو جمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ 1956ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے
لندن میں یوکے اسلامک مشن اور اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (IPS)کے قیام میں آپ کا بنیادی کردار تھا
آپ نے اردو اور انگریزی میں ستر سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں
پروفیسر خورشید احمد23 مارچ 1932ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔13 اپریل 2025ءکو برطانیہ میں وفات پائی۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْه راجعون۔اسلامی جمعیت طلبہ سے تربیت حاصل کرنے والے خورشید احمد نے ایک دین دار اور بہت پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ان کے بڑے بھائی ضمیر احمد نیوی کے اعلی افسر بنے ۔1989ء میں ان کی وفات ہوگئی ورنہ وہ پاکستان نیوی کے سربراہ بن جاتے۔پرو فیسر خورشید احمد کا بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا۔بی اے میں انہوں نےقانون اور مبادیات قانون جیسے مضامین پڑھے۔اس کے بعداکنامکس اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔پی ایچ ڈی کرنے برطانیہ گئے مگر بوجوہ پی ایچ ڈی نہ کر سکے، مگر آج بہت سی یونیورسٹیوں میں طلبہ ان پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد کے والد جناب نذیر احمد قریشی مولانا مودودی کے بزرگ دوستوں میں شامل تھے ۔ان کے بڑے بھائی ضمیر احمد اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم رہے۔ ان کی ترغیب پرخورشید احمد نے 1949ء میں جمعیت سے ناطہ جوڑا۔ 1953ء میں ان کو جمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ 1956ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور تا دم آخر جماعت میں شامل رہے۔پروفیسرخورشید کئی علمی اداروں کے بانی تھے۔لندن میں یوکے اسلامک مشن اور اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (IPS)کے قیام میں آپ کا بنیادی کردار تھا۔ 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی بنے۔ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے ۔ ماہر تعلیم کی حیثیت سے 1955ء سے 1958ء تک کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چار برس تک چیئر مین رہے۔1979 ء سے 1983 ء تک شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے وائس پریزیڈنٹ رہے۔1978ء سے1983ء تک قومی ہجرہ کمیٹی کے رکن رہے۔سوڈان کے اسلامی قوانین کا جائزہ لینے والی قانون دانوں کی کمیٹی کے رکن رہے۔اسلامی ترقیاتی بینک جدہ کے ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی جائزہ کمیٹی کے رکن رہے۔
1985 ،1997 اور2002 ء میں سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اورسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔اسلام ، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کے حوالے سے کام کی وجہ سے انہیںبین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
پروفیسر صاحب متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں ستر سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی موقر رسائل میں ان کی نگارشات شائع ہو چکی ہیں۔ کئی سو سے زیادہ بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں ذاتی یا نمائندہ حیثیت سے شریک ہو چکے ہیں۔
آپ کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ عطاکیا گیا۔ اقتصادیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی بینک نے 1990ء میں اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا اسلامی اقتصادیات ومالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انھیں جولائی 1998ء میں پان چواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس یوایس اے پرائز دیا گیا۔ دوسری بہت سی مصروفیات کے علاوہ جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر بھی رہے۔
ذاتی لا بئیرری میں اچھی کتب جمع کرنے کا شوق عمر بھر رہا اور طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کے پاس اچھی خاصی لابئیرری رہی۔ 1965ء میں، ان کے پاس 20ہزار کتابیں تھیں ،ان میں سے کچھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کو عطیہ کیں۔ لندن میں بھی ان کے پاس 7، 8ہزار کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ اسلامک سنٹر فاؤنڈیشن کو عطیہ کیا اور اسلام آباد میں بہت سی کتب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز اسلام آباد کے سپرد کیں۔ان کی لکھی ہوئی کتابوں میںذیل کی کتب زیادہ اہم ہیں۔’’مذہب اور دور جدید،’’اسلامی فلسفہ حیات‘‘، ’’اسلامی نظام حیات‘‘،اسلامی تحریک کو درپیش چیلنج،ترقیاتی پالیسی کی اسلامی تشکیل ،امریکا مسلم دنیا کی بے اطمینانی11 ستمبر سے پہلے اور بعد،تفہیم القرآن ایک کتاب انقلاب، بلوچستان کا مسئلہ،دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاک امریکا تعلقات کے اثرات،پاکستان کی نظریاتی اساس،تحریک آزادی کشمیر،پاکستانی معیشت کی صورت حال ، مسائل اسباب، لائحہ عمل۔نظام تعلم مطبوعہ ادارہ مطبوعات طلبہ،وغیرہ
پروفیسر خورشید احمد کے والد نذیر قریشی صاحب عمر میںمولانا مودودی ؒسے بڑے تھے،لیکن دوستی اور بے تکلفی کا اندازہ ان کی باہمی خط و کتابت سے لگایا جا سکتا ہے۔پروفیسر صاحب نے اپنی یادداشتوں میں اس بے تکلفی اور مولانا کے اپنے گھر آنے کا ذکر کیا ہے اور ان مواقع پر مولانا سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی تحریر میں مولاناؒ سے عقیدت کی چاشنی بھی موجود ہے۔بہت بعد میں جب مولانا گردے کے آپریشن کے سلسلے میں لندن گئے ،تو پروفیسر خورشید صاحب کی قیام گاہ پررکے۔آپریشن کے کئی روز بعد واپس آئے تو پھر خورشید صاحب کی رہائش گاہ پر قیام کیا ۔ پروفیسر صاحب نے مولانا کی واپسی کا احوال لکھتے ہوئے کہا ہے۔ کہ مولانا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی فرمایا۔’’ارے اتنے دن گزر گئے اور کسی نےکیلنڈر کی تاریخ ہی تبدیل نہیں کی۔‘‘ پروفیسر خورشید صاحب
نے بصد ادب کہا؛ ’’تاریخ بدلنے تو آپ آئے ہیں‘‘ـ
غلام محمد صفی کنوینئر آل پارٹیز حریت کا نفرنس