تحریک آزادی کشمیر کے ایک عظیم سپاہی کی رحلت

تحریک آزادی کشمیر کے ایک عظیم سپاہی کی رحلت

سید علی گیلانیؒ کے قریبی ساتھی اور تحریک آزادی کشمیر کے مرکزی رہنما مولانا غلام نبی نوشہری چند روز قبل اسلام آباد میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ کشمیر میڈیا سنٹر کے سربراہ شیخ محمد امین نے عید کے موقع پر ایک ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا تھا کہ نوشہری صاحب بہت بیمار ہیں، بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ متعدد ملاقاتیں یاد کرتے ہوئے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی لیکن ان کا وقت ِ مَدعُود آن پہنچا تھا۔ چار دن بھی نہ گزرے تھے کہ ان کے انتقال کی خبر آگئی۔ ان کی نماز جنازہ برما ٹائون اسلام آباد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے پڑھائی۔ اس موقع پر سوگوار اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے مولانا نوشہری کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اہل پاکستان نے کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد سے لاتعلق ہوگئے ہیں۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اہل پاکستان نے اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی نے اپنے بے شمار بیٹے جہاد کشمیر میں قربان کیے ہیں، ہم اپنے کشمیری بھائیوں سے کیسے بیوفائی کرسکتے ہیں۔ اگر بیوفائی کی ہے تو پاکستانی حکمرانوں نے کی ہے۔ جنہوں نے کئی مرتبہ کشمیر کی جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدلا ہے۔ لیکن ان شاء اللہ یہ ہار جیت میں بدل کر رہے گی اور ہمارے کشمیری بھائی بھارت کی غلامی سے آزاد ہو کر رہیں گے۔

مولانا غلام نبی نوشہری کا سن ِ پیدائش 1934ء ہے اس طرح انہوں نے نوے سال کی عمر پائی اور نہایت بھرپور اور جدوجہد سے لبریز زندگی گزاری۔ تعلیم کے میدان میں مولوی عالم اور فاضل کی استاد حاصل تھیں۔ عمل زندگی میں قدم رکھا تو 1958ء میں جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر مولانا سعد الدین سے پہلی ملاقات میں اتنے متاثر ہوئے کہ فوری طور پر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی اور جماعت اسلامی کے عالمگیر مشن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا۔ جماعت نے انہیں جو بھی ذمے داری سونپی۔ انہوں نے بخوبی اسے پورا کیا۔ تقسیم برصغیر کے موقع پر مسلم ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ جو ناانصافی روا رکھی گئی تھی۔ بیش تر آزادی پسند کشمیری رہنما یہ سمجھتے تھے کہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اس ناانصافی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ خود بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا۔ چناں چہ جماعت اسلامی کی پالیسی بھی یہی تھی کہ ریاستی سیاست میں بھرپور حصہ لیا جائے اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر وہاں زیادہ سے زیادہ اپنے نمائندے بھیج کر اسمبلی میں عوام کی آواز بلند کی جائے۔ اس پالیسی کے تحت سید علی گیلانی نے بھی ریاستی انتخابات میں حصہ لیا اور کئی بار ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مولانا نوشہری بھی 1972ء کی اسمبلی میں رکن منتخب ہوئے اور اسمبلی کے اندر بڑی دلیری سے آزادی کے حق میں آواز بلند کی لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ بھارت کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے نہایت ظالمانہ حربے اختیار کررہا ہے اور پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ جب کشمیری نوجوانوں نے اپنے حق کے لیے بندوق کے جواب میں بندوق اٹھائی تو مولانا نوشہری نے اس کی تائید کی۔ وہ کچھ عرصے کے لیے عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے امیر بھی رہے۔ لیکن جب بھارت ان کے خون کا پیاسا ہوگیا اور بھارتی ایجنسیاں ان کی ٹوہ میں رہنے لگیں تو مقبوضہ کشمیر میں ان کا رہنا دشوار ہوگیا۔ انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے آزاد کشمیر آگئے۔ تاہم مقبوضہ علاقے میں کشمیری قیادت کے ساتھ ان کا رابطہ برقرار رہا۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کے تمام قائدین اور سرگرم ارکان و عہدیداران جیل میں ہیں ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں اور مکانات بلڈوز کردیے گئے ہیں لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ مولانا نوشہری آخر دم تک جماعت اسلامی مقبوضہ کے نظم سے وابستہ رہے اور جماعت کے امور خارجہ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک عظیم سپاہی کی حیثیت سے دنیا سے رُخصت ہوگئے۔ رہے نام اللہ کا۔ ٭٭٭