تحریک آزادی کشمیر اور سید علی گیلانی

شہزاد منیر احمد

جدوجہد آزادی کشمیر میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہد فرزندان کشمیر کے باغیچے میں کھلنے والے پھولوں میں سید علی گیلانیؒ وہ پھول تھے جو خوبصورت ہونے کیساتھ ساتھ خوشبودار بھی تھے۔ سید علی گیلانی روائتی سیاستدانوں سے یکسر مختلف تھے۔ وہ سیاست کو سیاست برائے مقصد جانتے تھے نہ کہ سیاست برائے اقتدار و مال غنیمت اور تزک و احتشام۔ وہ جرأت، حوصلے اور بہادری میں یکتا قائد و مجاہد تھے، ریا،ہوس پرستی، حرص و لالچ جیسے امراضِ سے یکسر پاک سیاسی رہنما۔
29 ستمبر 1929 میں مقبوضہ وادی کشمیر کے علاقہ سوپور میں گیلانی سیدوں کے گھر پیدا ہونے والے اس بچے کا نام تاریخ اسلامی کے غزوہ خیبر کے عظیم فاتح جناب علی کرم اللہ وجہہ کے نام پر ’’ علی‘‘ رکھا گیا۔ بچوں کے نام رکھنے میں والدین کی خوشی کے علاوہ ان کی عقیدت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ اپنے والدین کے رکھے ہوئے نام’’ علیؓ‘‘کی سید علی گیلانیؒ نے حصول تعلیم کے مرحلے، نظریہ حیات پر قائم رہنے،عملی سیاست میں قابل تحسین و تقلید کردار ادا کر کے لاج رکھ لی اور ثابت کیا کہ ’’ والد کی رضا میں اللہ کی رضا ہوتی ہے‘‘۔ وہ واقعی اپنے انسانی کردار کی ادائیگی میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے نقش قدم پر چلنے والے جرأتوں کے نشان مومن تھے۔
سید علی گیلانی ؒنے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ سوپورمیں مکمل کی اور پھر لاہور اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔سید علی گیلانیؒ علامہ اقبال سے دہری عقیدت رکھتے تھے۔ ایک یہ کہ علامہ اقبالؒ اسلام اور اسلامی تاریخ کے بڑے معتبر شاعر،محقق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق تھے۔دوسرے علامہ اقبالؒ کے آباء واجدادبھی تلاش روزگار میں بہت پہلے وادی کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور آ بسے تھے۔ اپنی مٹی کے نام کی خوشبو نے بھی اپنا اثر دکھایا اور وہ علامہ اقبال کے بڑے مداحوں میں شمار ہوئے۔ قیام لاہور کے دوران وہ علامہ اقبالؒ کے دوستوں سے مل کر بالواسطہ فیض یاب ہوتے رہے۔

This image has an empty alt attribute; its file name is aphc-chairman-syed-ali-gillani-reveals-five-points-agenda-for-resistance-against-indian-government-1566833106-1657.jpg

1953 میں وہ جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور پھر تادم مرگ جب وہ سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گذشتہ بارہ برسوں سے مسلسل بھارتی افواج اور پولیس کی بھاری تعداد کی موجودگی میں نظر بند رکھے گئے تھے تو اس نظربندی کے دوران یکم ستمبر 2021 جمعرات کو انتقال فرما گئے۔بھارتی فوجی اس بندہ مؤمن کی میت سے بھی اس قدر خوف زدہ تھے کہ ا ن کی وصیت کے مطابق انہیں مزار شہداء سرینگر میں دفن نہیں کرنے دیا گیا ۔ان کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے بھی بھارتی حکومت نے پوری مقبوضہ وادی کشمیر میں سخت ترین پابندیاں عائدکیں۔مصری امام حسن البناء یاد آرہے ہیں ۔جن کا صرف والدین اور بہنوں نے جنازہ پڑھا۔کسی اور کو اس جنازے میں شرکت نہیں کرنے دی گئی ۔یہاں اس سے بھی خطرناک معاملہ ہوا ۔اپنے خاندان کے کسی بھی فرد کو جنازے میں شامل ہونے نہیں دیا گیا ۔انہیں گھر میں ہی محصور رکھا گیا۔
سید علی گیلانی کے صاحبزادے ڈاکٹر نعیم گیلانی کے بقول ’’ ابا جان کو کس نے غسل دیا، کس نے جنازہ پڑھایا اور انہیں کس نے کہاں دفن کیا انہیں کچھ پتہ نہیں‘‘۔
سید علی گیلانی کی شخصیت اور سیاسی قیادت کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو راقم کی نظر میں وہ علامہ اقبال کے اس شعر کے مخاطب لگتے ہیں:-
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی۔
سیاسی جد و جہد کے میدان میں اترنے اور قیادتی ذمہ داریوںکے نبھانے کے اعتبار سے وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھے۔گو کہ وہ تین دفعہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب کئے گئے اور موثر نمائندگی کی۔ میرے قریب مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ تحریک آزادی کشمیر میں شامل مختلف کئی جماعتوں اور تنظیموں کو یہ باور کروانا کہ آزادی کی جنگ کوئی ایک جماعت نہیں جیت سکے گی۔ فتح یاب ہونے کیلئے ہمیں باہم متحد ہو کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، اور پھر ’’کل جماعتی حریت کانفرنس کوتشکیل دیا گیا تھا۔ جس کے بعد میں وہ کافی عرصے تک منتخب چیئرمین بھی رہے۔

میری دانست میں ان کی اعلیٰ نظریاتی اور فکری کاوشوں کا اعتراف تب کیا گیا تھا جب انہیں بار بار اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنسز میں شمولیت کی دعوت دی جاتی۔ 27 ستمبر 2019 میں گیلانی صاحب نے شرکت کی اور فرمایا۔

’’مسئلہ کشمیر گزشتہ کئی عشروں سے اقوام متحدہ میں التوا Procrastination کا شکار ہے ۔اس کو فوری طور پر حل کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ یہ مسئلہ دن بہ دن گھمبیر ہوتا جا رہا ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر دنیا میں بالعموم اور بر صغیر میں بالخصوص امن قائم ہو سکتا ہے تو وہ سنگین اور خونین غلطی پر ہے ‘‘۔حق و حقیقت کا عکاس ان کا خطاب شرکاء کانفرنس نے بہت سراہا لیکن اقوام متحدہ کی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے اور اسلامی ممالک صرف تماشائی کی حیثیت سے بے بسی اور بے کسی کی علامت بن کر صرف دیکھ رہے ہیں ۔
آزادی کشمیر کی جنگ میں سید علی گیلانی کے سیاسی کردار کا صحیح جائزہ تب مکمل ہوتا ہے جب ان کے ہمعصر دوسرے کشمیری لیڈروں کا بھی تذکرہ شامل گفتگوہو، مثلاً نیشنل کانفرنس والے شیخ عبداللہ چوہدری غلام عباس اور دیگر۔
شیخ عبداللہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ 1922 میں انہوں نے میٹرک پاس کیا۔ لاہور میں قیام کے دوران وہ انجمن اسلام کے ان سارے مشاعروں میں شامل ہوتے جہاں علامہ اقبال بھی اپنی نظمیں پڑھتے تھے۔ شیخ عبداللہ اقبال کی نظمیں ترنم سے پڑھتے اور داد پاتے۔ یہیں سے انہیں شہرت بھی ملی۔ پھر وہ اپنے طور پر خود کو’’ شیر کشمیر ‘‘ کہنے لگے۔ چونکہ اقبال سے محبت کا ڈرامہ خود نمائی کیلئے تھا اس کے علاوہ انہیں اقبال کے نظریہ سے کوئی اور لگاو یا سروکار نہیں تھا ۔ ان کا مقصد مسند اقتدار تک رسائی پانا تھی۔ علی گڑھ سے تعلیم مکمل کر کے جب شیخ عبداللہ عملی سیاست میں آئے تو ’’ شیر کی کھال میں مکار لومڑ نکلا‘‘ اسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت روکا کہ نہرو اور گاندھی کی چالوں میں نہ آنا، نسلیں تباہ کروا کے بیٹھو گے۔ خان غفار کے بہکاوے میں نہ آنا، خود کو مٹا ڈالو گے اور یہ کشمیری عوام کیساتھ غداری ہو گی۔ لیکن انہوں نے وہی کچھ کیا جو اسے خود پسند آیا اور پھر وہی نتائج سامنے آئے جس کے بارے میں قائد نے پہلے ہی انہیں آگاہ کیا تھا۔
بھارتی شاعر جناب مظفر رزمی نے بڑا ہی تاریخ ساز شعر کہہ رکھا ہے۔ لگتا ہے وہ انہوں نے ایسے ہی قوم فروشوں کے بارے میں لکھا تھا۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
کسی نے سچ کہاہے کہ۔
چہ بے پرواہ گزشتند، از نوائے صبح گاہ من
کہ برد آں شور و مستی،از سیہ چشماں کشمیری
نوائے اقبال جو جبر و استبداد کے شکار کشمیری عوام کو صبح آزادی کی نوید سنا سکتی ہے، جس فکر پر عمل پیرا ہو کر کشمیری عوام سینکڑوں برسوں کی محکومی سے نجات پا سکتے ہیں۔اس فکر سے انہوں نے اس طرح منہ موڑ رکھا ہے جیسے انہیں آزادی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔
اہل فکر کہتے ہیں کہ آزاد منش آدمی انہی لمحوں میں آزاد ہوتا ہے جب وہ اکیلا ہوتا ہے۔اہل کشمیر کی جنگ آزادی لڑتے لڑتے سید علی گیلانیؒ یکم ستمبر 2021 میں واقعتاً آزاد ہو کر ہمیں اللہ حافظ کہہ گئے تھے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ غنی الودود ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے ابرار و صالحین و مقربین بندوں میں شمار فرمائے، آمین ثمہ آمین

٭٭٭

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں