محمد احسان مہر
مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں کئی طرح کی قدر مشترک ہیں،دونو ں تنازعات40 کی دہائی سے کرہ ارض پر موجود ہیں،دونو ں تنازعات سے متعلق76 برسوں سے اقوام متحدہ میں قرار دادیںموجود ہیں،دونوں تنازعات برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے (زخم) ہیں،دونوں متاثرہ فریقین کو اپنے ہمسایہ برادر اسلامی ممالک سے وہ تائیدو حمائت حاصل نہیں جس کی وہ توقع رکھتے ہیں ،کشمیرو فلسطین کا نا م سیاسی حلقوں میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے،کشمیر وفلسطین عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن ،مگر افسوس؛؛ان پر مسلط حکمرانوںکی بے اعتنائی کا شکار ہیں،یہ دونوں خطے اسلامی ممالک کے وسائل پر قابض حکمرانوں کی اجتماعی بے حسی اور عالمی برادری کی سرد مہری کی وجہ سے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان تنازعات کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کردار ادا نہیں کر رہی ،ماضی کے مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی ممالک اپنے شہریوں کو جاسوسی،لاقانونیت اور جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجود بھی دنیا میں کہیں تنہااوربے یار مددگار نہیں چھوڑتے (ریمنڈڈیوس کا کیس آپ دیکھ سکتے ہیں )۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیروفلسطین کے لاکھوں مسلمانوں (جو حق خودارادیت اوربنیادی انسانی حقوق کے حصول کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں)کو اجتماعی نسل کشی کے دھانے پر تنہا چھوڑ دیا جائے،فلسطین میں جس طرح غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ، اہل عرب اور OIC کے مذمتی بیانات کو خاطر میںلائے بغیر7 دہائیوں سے اسرائیلی ناجائز ریاست جس طرح وسعت اختیار کر رہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ،کہ کس طرح مصر،اردن،شام اور لبنان کے علاقوں پر قابض ہو کر غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کو توسیع دی گئی،ظلم وستم کے مقابلے میں حق وصداقت واضح ہونے کے بعد بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری طاقت ور ہونے کی وجہ سے اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہی،کیا دنیا کے مستقبل کے فیصلے اب امریکہ ،برطانیہ کی ویٹو پاور اور ان کے شریر اتحادیوں کی مرضی سے طے ہونا ہیں ؟امریکہ جس تیزی سے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل کر انسانی تحفظ اور بقاء کو خطرے میں ڈال رہا ہے اس کے نتائج کا سامنا اسے بہرحال کرنا ہی ہو گا ، کشمیری، یوکرینی اور فلسطینیوں کی طرح مظلوم کے خون سے جس کسی کے بھی ہاتھ رنگے ہیں کسی طاقت ور کی طاقت اور کسی ظالم کا ظلم انہیں ان کے انجام سے نہیں بچا سکتا ۔کشمیر کی مزاحمتی تحریک پر بھی فلسطینی مزاحمت کے اثرات نمایاں ہیں،بھارتی فوجی،دفاعی اور انٹیلی جنس ماہرین بھی اسرائیلی تجربات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں مختلف سطح پر سرگرم عمل ہیں ۔

یہودوہنود کے اس ریاستی گٹھ جوڑ کے پیچھے خطرناک اور گھنائونے مقاصد پوشیدہ ہیں ،جنہیں عالمی استعماری طاقتوں کی مکمل تائیدوحمائت حاصل ہے،یہ غاصب،قابض اور ظالم ریاستیںمسلمانوں سے نفرت اوراسلام دشمنی میں انسانی حقوق اوراخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کابھی کھلے عام مذاق اڑا رہی ہیں،لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کرنا تودرکنار،ان کے غیرآئینی اور غیر قانونی اقدامات کا نوٹس تک نہیں لیا گیا،مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370کی منسوخی اور اس پر بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ زندہ مثال ہے،بھارتی حکومت نے دانستہ طور پر 4برسوں تک معاملے کو لٹکا کر عالمی رائے عامہ اور پاکستانی ردعمل کا بغور جائزہ لیا ،پاکستان میں ہر سطح پر سکوت دیکھتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے 370آرٹیکل کی منسوخی کے خلاف دائر تمام درخواستیں مسترد کر دیں،بھارتی عدالتیں اور ادارے مودی کے ہندئوتواء نظریات کے پرچار کی خاطر بھارتی آئین کے ساتھ بھی کھواڑ کر رہی ہیں،بھارتی سپریم کورٹ نے حقائق کے برعکس اپنے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 370جنگی حالا ت کی وجہ سے عارضی اقدام تھا،کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک پر سوال اْٹھاتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں نے ہندئوستان سے (خوساختہ)الحاق کے بعد داخلی خود مختاری کا عنصر برقرار نہیں رکھا ،جموںو کشمیر کا آئین داخلی خود مختاری کے حوالے سے واضح نہیں،فیصلے کے ابتدائی مندرجات میڈیا پر آنے کے ساتھ ہی کشمیری رہنمائوں کو نظر بند کرکے ان کے گھروں کے دروازے سیل کر دئیے گئے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے سے ریاست کشمیر کے مستقبل سے متعلق انتہائی سنجیدہ قسم کے سوالات جنم لے رہے ہیں،یہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے کردار پر بڑا سوالیہ نشان ہے ،یہ فیصلہ کشمیریوں کے لیے بھی سخت پیغام لیے ہوئے ہے،جس طرح فلسطینی (غزہ) کے مسلمان وسائل سے مالا مال عرب ممالک کی لمبی ناک اور OIC کے اجلاس کے دوران ذبح ہورہے ہیں،اور بچ جانے والے سرد موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے جان دے رہے ہیں ۔اسی طرح کی صورتحال کشمیر میں بھی ہے
کشمیری مزاحمت کا مزاج رکھنے والے بھی اس پر غور کریں،کہ اخلاقی،سیاسی اور سفارتی حمایت کی چھتری تلے گزشتہ76سالوں میں کیا کچھ حاصل کر پائے ۔۔۔؟اور پھر مستقبل کے لیے بھی کچھ اسی طرح کا شمار کر لیں ۔یاد رکھیں۔۔ پاکستان نام نہادعالمی قوانین کا علمبردار بننے اور علاقائی امن واستحکام کے لیے کام کر رہا ہے، اور بھارت کشمیر میں ایک اور غزہ بنانے کے لیے غیرآئینی اور غیر قانونی ا قدامات کر رہا ہے۔کشمیریوں کے لیے دلچسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اسرائیلی غیر قانونی یہودی بستیوں میں توسیع پر آج تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اْٹھایااور ہمسایہ عرب ممالک نے بھی فلسطینی ریاست سے متعلق خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا ہے ، کیا مقبوضہ ریاست کشمیر سے متعلق ( اِدھر) بھی کچھ اسی طرح کا ہونے والا ہے۔۔؟؟ ایسے میں مقبوضہ ریاست کشمیر جو تین ایٹمی طاقتوں میں منقسم ہے ،کیا اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر پائے گی ؟کیا کشمیریوں کی سیاسی اور مزاحمتی استعداد کار عالمی برادری کے سامنے پورے قد کے ساتھ اپنے پائوں پر کھڑے ہو پائے گی ؟عالمی حالات وواقعات ،علاقائی سیاسی سرگرمیاں اور سفارتی نا ہمواریاں ایک بار پھر‘‘ کشمیریوں کا مستقبل ’’ماضی اور حال سے بھی زیادہ مشکل بنانے جا رہی ہیں ، بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے سامنے کھڑی ہے ۔
٭٭٭
محمد احسان مہرمحمد احسان مہر
