سید عارف بہار
دہلی کی تہاڑ جیل کشمیریوں کے لئے اب وادیٔ مرگ بن چکی ہے جہاں مقبول بٹ ؒسے افضل گورو ؒتک یا تو کشمیریوں کو پھانسی کے پھندوں کاخراج ملتا ہے یا سید الطاف شاہؒ کی طرح انہیں لاشوں میں ڈھال کر واپس بھیجا جاتا ہے ۔سید علی گیلانی ؒکے داماد اورتحریک حریت کے فعال راہنما سید الطاف شاہ ؒتہاڑ جیل میں قتل ہونے والے تیسرے راہنما ہیں۔اس جیل سے اگر کوئی کشمیری قیدی زندہ بھی آیا تو اپنے ساتھ کئی جسمانی اور ذہنی عارضوں کی سوغات لئے ہوئے تھا جو زندگی بھر اس کے ساتھ چمٹے رہے۔بھارت کی نئی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر کی موجودہ نسل پر سیاسی اور نظریاتی اثر رسوخ رکھنے والی کشمیری قیادت کو جیلوں میں غیر معینہ مدت تک بند رکھ کر خود اپنی موت آپ مرنے پر مجبور کیا ۔مقبول بٹؒ اور افضل گورو ؒکو پھانسیاں دے کر او ر ان کے اجساد ِخاکی کو تہاڑ کی گمنام راہوں میں دبا کر بھارت نے تجربہ کرلیا اور اسے اندازہ ہوا اس طرح وہ کشمیری نوجوانوں او ر آنے والی نسلوں کے ہیروز کی فہرست میں اضافہ ہی کرتا چلا جا رہاہے ۔کشمیری سماج ایسے کرداروں کو آئیڈیلائز کرتا ہے۔ا س لئے بہتر یہی ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو مزید ہیروز نہ دئیے جائیں اور ان کے لیڈروں کو جیلوں میں سلو پوائزننگ یا ذہنی اذیتیں پہنچا کر طبعی موت کے انجام سے دوچار کیا جائے۔ ۔الطاف شاہؒ اس پالیسی کا پہلااور آخری شکار نہیں ۔

تہاڑ جیل سمیت بھارت بھر کی جیلوں میں سیکڑوں کشمیری راہنما اور سرگرم سیاسی کارکن بھارت کی اس پالیسی کے نشانے پر ہیں ۔ان اسیروں کو گھروں سے دور رکھ کر ذہنی اذیتیں دینے کے علاوہ ناقص خوراک دے کر جسمانی عوارض کا شکار کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی موت کا الزام بھارت پر نہ آئے اور ایک روز ٹمٹماتا ہوا چراغ خود ہی لودینا بند کرے اور خاموشی سے بجھ جائے ۔گزشتہ برس یہ تجربہ سید علی گیلانیؒ کے دست راست محمد اشرف صحرائیؒ پر کیا گیا اور آخر کار ان کا جنازہ بھی قید کی حالت میں اُٹھا اور وہ قیدی کی حیثیت سے ہی بہت خاموشی سے تہہ خاک چلے گئے۔ ۔اب تحریک آزادی کے چھیاسٹھ سالہ راہنما سید الطاف شاہ اسی حکمت عملی کا شکار ہوئے ۔وہ پانچ سال سے قید تھے ۔اس دوران انہیں علاج معالجے کی سہولت میسر تھی نہ اہل خانہ سے ملنے کی اجازت تھی ۔وہ بنیادی طور پر ایک سیاسی قیدی تھے جنہیں بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے دہشت گردی کے لئے ممنوعہ فنڈنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ایک جانے پہچانے سیاسی راہنما کی بجائے ان کے ساتھ پیشہ ور مجرموں کا سلوک روا رکھا گیا اور یوں لگ رہا تھا کہ بھارتی حکام کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ الطاف شاہ جیسے متحرک اور کمٹیٹڈ انسان کو زندہ اب جیل سے نہیں نکلنے دینا ۔

سید الطاف شاہ ؒکی صاحبزادی رووا شاہ کشمیر کی مشہور صحافی ہیں نے اپنے والد کی بیماری کی خبریں سامنے آنے کے بعد سو جتن کئے کہ انہیں والد سے ملاقات کی اجازت دی جائے مگر سفاک اور ظالم طاقتوں نے ان کی اس خواہش اور انسانی حق کو تسلیم نہیں کیا ۔روا شاہ ٹویٹر پر درخواستوں کے ذریعے نریندر مودی اور امیت شاہ سے اپیل کرتی رہیں کہ ان کے والد کی تکلیف کم کرنے کے لئے ہسپتال منتقل کیا جائے اور انہیں والد سے مل کر ان کی وصیت معلوم کرنے کی اجازت دی جائے مگر شنوائی نہ ہوئی ۔ وہ صحت کی خرابی کی بنیاد پر والد کی ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کرتی رہیں تاکہ وہ ایک آزاد شخص کے طور پر اس دنیا سے رخصت ہوں ۔روواشاہ کا ٹویٹر اکاونٹ چیخ چیخ کر درخواستیں کرتا رہا ۔ایک بیٹی کی بے ساختہ اور فطری تگ ودوتھی مگر یہ سب دیواروں سے سر پھوڑنے کے مترادف تھا ۔جب وہ دہلی ہائی کورٹ پہنچیں توجیل حکام نے عدالت میں جو رپورٹ جمع کرائی اس میں الطاف شاہ کی بیماری کو معمولی بنا کر پیش کیا گیا تھا اور اس میں ان کے کینسر کے عارضے کا ذکر نہیں تھا ۔اس کے بعد جب عدالت نے انہیں ہسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا تو الطاف شاہ وینٹی لیٹرپر جاچکے تھے اور وہ اپنی آخری خواہشات کے اظہار کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔

رووا شاہ اور ان کا بھائی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے باہر اس امید پر بیٹھے رہے کہ بھارتی حکام انہیں والد کے آخری لمحوں میں شرکت کا موقع دیں گے مگر سنگ دل دشمن نے موم ہونا تھا نہ ہوا اور یوں الطاف شاہ نے آخری سانس لی بھارت نے سکھ کا سانس لیا اور روواشاہ نے ایک گہری اور لمبی سانس کی طرح ٹویٹ کیا کہ ان کے والد قیدی کی حیثیت سے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔انہوںنے استقامت کے اس انداز اور موت پر شکر بھی ادا کیا ۔روا شاہ اپنے والد کے ساتھ یادگار تصویر بھی شیئر کی شاید کوئی دل ایک بیٹی کی چیخ وپکار پر نرم ہو مگر بے سود کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولراز م کا دعوے دار ملک بھارت تھا یہاں ایسی آوازو ں کامقدر صدا بصحرا ہونا ہی رہا ہے۔جب الطاف شاہ کو ایک قیدی اور ایک انسان کے حقوق سے انکار کر کے موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا تھا عین اسی وقت نریندر مودی ہندو مت کے اصول دھرما پر لیکچر دے رہے تھے کہ اس اصول کا مطلب خدمت ِانسانی ہے۔یہ تضادات اور منافقانہ طرز عمل بھارت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اب اس ملک کو کسی حملہ آور اور کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔اسے داخلی تضادات کا سرطان لاحق ہوچکا ہے۔
دلّی کی تہاڑ جیل میں کشمیری رہنما الطاف شاہ کی دوران حراست موت، آخری وقت تک بیٹی رعایت کی فریاد کرتی رہی۔
٭٭٭
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں