تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

ڈاکٹر منظور احمد

گھر کے سربراہ اور والد کی حیثیت سے میں نے ان کو نہایت شفیق پیار کرنے والا پایا۔ نہ صرف گھر والوں بلکہ اپنے ساتھیوں اور ہمسائیوں کے ساتھ بھی بہت شفقت سے پیش آتے ۔میں نے ان کو اکثر بچو ں اور بڑوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے پایا۔اس لئےکہ وہ ہرایک دل عزیز تھے، غصہ بھی کرتے تھے کبھی فجر کی نماز پہ نہ اٹھتے تو گھر والوں کو بولتے کہ جس نے فجر نہیں پڑھی اس کو ناشتہ اور کھانا بند کر دو ۔ بہت ساری باتوں پہ مکالمہ بھی ہوتا تھا۔ اور ان سے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ملتا۔ بچپن میں ان کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کا موقع نہ ملا، بلکہ جب ہم ہجرت کر کے یہاں آئے، تب بھی وہ تحریک آزادی کشمیر محاز پر سرگرم تھے۔ جب یہاں آتے تو کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا، لیکن وہ ہمیشہ عیدیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزارتے۔ پوچھنے پر ابو کہتے کہ ان کے والدین اور گھروالے یہاں نہیں ہیں تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان کے ساتھ وقت گزاروں۔ اپنی والدہ کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے ۔ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی دعائیں لیتے۔ ان کی وفات کے بعد کافی عرصہ اس کمرے سے نہیں نکلے۔ رمضان میں ہمیں قرآن کی تفسیر پڑھاتے تھے اور اکثر تفسیر پڑھاتے وقت ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے اور روتے تھے۔ خاص کر جب جہاد کے حوالے سے کوئی بات آتی۔وہ ہمیشہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو ایک لمبی قمیض پہنتا تھا اور یہی اس کا جنگی لباس ہوتا تھا۔ جب وہ میدانِ جنگ سے واپس آتا تو اپنے کپڑوں کو جھاڑتا اور ان میں جمع ہونے والی مٹی کو ایک جگہ اکٹھا کرتا۔ اس نے وصیت کی تھی کہ مجھے اس مٹی میں دفن کرنا ۔اس واقعے کو سناتے وقت بہت جذباتی ہو جاتے تھے۔ انہوں نے گھر میں ایک معمول بنایا ہوا تھا کہ ہر مہینے میں ایک دن فجر کے بعد سب مل کر قرآن پڑھتے تھے اور سب کے لئے دعا کرتے تھے۔ بہت صاف ستھرے رہتے تھے کوئی ایسا دن یاد نہیں جس دن انہوں نے صبح اٹھ کر اپنے بال نہ دھوئے ہوں۔ تیل اور خوشبو نہ لگائی ہو۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ شہادت کے وقت بھی وہی لباس زیبِ تن تھا جو 14 سال پرانا تھا۔شہادت سے کچھ عرصہ پہلے کہنے لگے یار میرے پاؤں کے نیچے والے حصے اور ٹانگیں درد کرتی ہیں۔ اب تو مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ میں نے کچھ دوائیاں دیں اور کہا اب آرام کریں۔ تو وہ مسکراتے اور کہتے یار ابھی تو میں جوان ہوں۔ ابھی تو بہت کام کرنا باقی ہے ۔سر میں ایک طرف کا درد رہتا تھا۔ اور زیادہ چلنے سے بھی درد ہونے کے باوجود جب بھی سفر پر نکلنے کا وقت ہوتا تو ہشاش بشاش ہوتے اور نکل پڑتے، سب درد بھول جاتے تھے۔ تہجد باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ بلکہ سفر سے واپسی پر کتنا ہی تھکے کیوں نہ ہوں، کتنے ہی لیٹ کیوں نہ آئے ہوں وہ اپنے وقت پہ ہی اٹھتے اور تہجد پڑھتے۔ اللہ سے گڑ گڑ ا کے دعائیں کرتے تھے۔جب کشمیر سے کسی ساتھی کی شہادت کی خبر ملتی تو زارو قطار رونے لگتے تھے کہ یہ بغیر کسی سامان کے لڑ کر شہید ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھامیں جو اپنے حصے کا کام کر سکتا ہوں وہ میں جاری رکھوں گا۔شہدا ءکے خاندانوں اور ان کے اہل و عیال کا خاص خیال رکھنے کی کوشش کرتے ۔ان کی مالی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ کوششوں میں لگے رہتے۔ کام سے فرصت ملتی تو مطالعہ کرتے تھے ۔مختلف کتابیں پڑھتے اور قرآن کا مطالعہ کرتے اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی ذہانت سے نوازا تھا ۔کوئی بات کرتے تو سامنے والے غور سے سنتے تھے۔ کیوں نہ سنتے، ان کا اندازِ بیان تھا ہی اتنا سحر انگیز کہ لوگ مجبور ہوتے۔ مختصر یہ کہ ان کی شخصیت میں وہ ہر ایک چیز بدرجہ اتم موجودتھی جو ہم کسی شخص میں ڈھونڈتے ہیں اور کسی کو مرغوب کرنے کے لئے یہ سب کافی تھا۔

جو چلے تو جاں سے گزر گئے

ابو آگئے ہیں، ہوش سنبھالنے کے بعد ابو کی یہ پہلی یاد ہے جو میرے ذہن میں موجود ہے۔1991 کی ظفرخانی جھڑپ میں زخمی حالت میں گرفتاری کے تقریباً دو برس بعد ابو جیل سے رہا ہو کرگھر آئے تھے۔ بشیر احمد پیر المعروف امتیاز عالم کا جنم 7 اپریل 1965 میں کپواڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بابا پورا میں ہوا۔ بچپن سے ہی اعلیٰ کردار اور ذہین شخصیت کے مالک تھے۔ ہر کام میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانا ان کی زندگی کا معمول تھا۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بچپن سے ہی قرآن اور دینی تعلیم میں بہت دلچسپی تھی۔ اپنی جوانی کے ابتدائی دنوں میں ہی بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا اور امامت بھی کرائی۔ جماعتِ اسلامی سے منسلک ہونے کے بعد ایک سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ جہادِ کشمیر میں ان کی دلچسپی ابتدا سے ہی تھی۔ چنانچہ 1990 کی ابتدا میں ہی عملی جہاد کے لئے گھر سے نکلے اور میدان کارزار میں مجاہدین کی صفوں کا حصہ بن گئے۔ وہ ایک نڈر مجاہد تھے جنہوں نے اللہ کی مدد سے دشمن کی نیندیں اڑا دی تھی ،اسی وجہ سے وہ ہمیشہ دشمن کے نشانے پر رہے ۔ 1991 ظفر خانی کی خونی جھڑپ میں دشمن کا بھاری نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے مجاہدین کی شہادتیں بھی ہوئیں،اسی جھڑپ میں شدید زخمی ہونے کے بعد گرفتار ہوئے۔گرفتاری کے بعد ان پر بہت تشدد ہوا جس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ گرفتاری کے بعد کافی عرصے تک معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔پھر ایک دن بھارت کی ”کوٹ بلوال‘‘ جیل سے ان کا ایک خط موصول ہوا جس میں انہوں نے کشمیری میں چند اشعار لکھے تھے،
ون موج بہ دراس جہادس
رُخصت دیتائ گلابس
جیل بھی ان کو اپنے کام سے نہ روک سکی ۔چنانچہ جیل میں بھی وہ اپنے ساتھیوں کو دین کی تعلیم دیتے رہے۔ 1993 میں کافی کوششوں کے بعد وہ جیل سے رہا ہوئے لیکن وہ رکنے والے کہاں تھے ۔اپنے وطن اور جہاد اسلام کے لئے جو جذبہ اور آگ ان کے دل میں تھی اس کو بجھانا ناممکن تھا،رِہا ہوتے ہی دوبارہ میدان جہاد میں اترنے کا فیصلہ کیا اور اللہ کی مدد سے اپنے ساتھیوں سے مل کر دشمن پہ حملہ آور ہوتے رہے ۔اور بھارتی فوجیوں کو جہنم رسید کرتے رہے۔ دشمن نے ان کو جھکانے کے لئے بہت حربے استعمال کیے۔ 1991میں ان کے جوان بھائی نذیر احمد پیر کو ان کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے گھر سے اٹھا لیااور پھر کیمپ میں تشدد کرنے کے بعد ایک دریا میں پھینک دیا اور اوپر سے گولیوں کی برسات کر کے ان کو شہید کر دیا۔ان دنوں دریا میں سیلاب کی صورتحال تھی کوئی بھی دریا میں اترنے کو تیار نہ تھا، اس وقت ابو نے اپنے کمر کے ساتھ رسی باندھ کر دریا میں سے اپنے جوان بھائی کی لاش نکالی ۔اپنے جوان بھائی کی شہادت بھی ان کے حوصلے کو نہ توڑ سکی اور وہ مضبوط چٹان کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔بھارتی فوجیوں نے ہمارے خاندان پہ بہت ظلم ڈھائے۔ ۱۹۹۸ میں شہید امتیاز عالم کے والد محمد سکندر پیر کو بھی تشدد کے بعد شہید کر دیا گیا ۔ان کے جسم میں تقریباً ۳۲ گولیاں لگی تھیں ۔اور تشدد کے بہت سے نشانات موجود تھے۔ میرے دادا کی شہادت کے بعد ہمارے گھر کو ہمیشہ کے لیے تالا لگ گیا تھا ۔ان کی شہادت سے پہلے تو کبھی کبھار گھر میں رہ لیتے تھے ۔مجھے نہیں یاد کہ ہم نے اپنے گھر میں کتنی راتیں گزاری ہوں گی ۔بس صبح گھر سے ناشتہ کر کے سکول جاتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ سکول میں ہی پیغام مل جاتا کہ آج گھر نہ آنا اور وہاں سے ہی کسی رشتہ دار کے گھر چلے جانا ۔شام ہوتے ہی کھانا کھا کر ہم رات گزارنے کے لیے ٹھکانہ تلاش کرنے نکل جاتے۔ دادا کی شہادت کے بعد ہم سب بکھر گئے تھے ۔اس دوران بھارتی فوجی میری والدہ کو ہر جگہ تلاش کر رہے تھے ۔وہ اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی ۔دشمن کے ڈر کی وجہ سے انہیں روز اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا تھا اور پھر ایک دن تیز بارش میں جنگل سے گزر رہی تھی اور وہاں ان کی ملاقات ابو کے کچھ ساتھیوں سے ہوئی ان کو اس حالت میں دیکھ کر وہ پریشان ہوئے اور انہوں نے وائرلس پر ابو سے رابطہ کیا اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اس کے جواب میں انہوں نے صرف ایک جملہ بولا کہ “اس کا اجر ان کو اللہ کی ذات دے گی”۔ جس ظلم اور مشکلات کا سامنہ ہمارے خاندان کو کرنا پڑا اس کو آج بھی یاد کرتا ہوں تو رونگٹھے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ لیکن ان تمام مظالم کے باوجود شہید امتیاز عالم اپنے موقف پہ مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ جیسا کہ قرآن نے واضح کہہ دیا ہے کہ “جب تم اللہ کے راستے پہ آو گے تو وہ تمہیں ضرور آزمائے گا، وہ تمہیں جان، مال کے نقصان سے آزمائے گا کہ تم ثابت قدم رہتے ہو یا نہیں”۔ شہید امتیاز عالم کو اللہ نے اپنے راستے کے لئے چُن لیا تھا۔ اور انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کرنے کا عہد کر لیا تھا ۔پھر ایسے انسان کو بھلا کون جھکا سکتا تھا؟ اپنا سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ صرف اسی شخص میں ہو سکتا ہے جس کا کامل ایمان اللہ کی ذات پہ ہو اور اس کو یہ یقین ہو کہ اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے۔

شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں

شہید امتیاز عالم سمیت لاکھوں شہداء اپنی جان کا نظرانہ پیش کر کے اپنی حقیقی منزل پا چکے ہیں ۔تمام شہداء کا راستہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں اور قربانیوں کو نہ بھولیں۔ اختلافات ہو سکتے ہیں،میرے والد کے بہت سے لوگوں کے ساتھ اختلافات تھے لیکن ہمیشہ کہتے تھے کہ میرا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں ،بلکہ نظریاتی اور تحریک کے حوالے سے اختلافات ہیں۔ ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے ماضی کی حقیقتوں سے آگاہ کیا ہے یا نہیں؟ کیا ہم نے ذہنی نشوونما کی ہے؟ کیا ہم نے ان کو آنے والے وقت کیلئے تیار کیا ہے؟ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ہمارے ماضی اور حال کی کامیابیاں کسی ایک شخص کی وجہ سے نہیں ملی۔ بلکہ اللہ کی مدد سے ملی ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ ہماری کامیابی کسی ایک شخص پر منحصر ہے تو اس کے لئے حضرت خالد بن وليد کی مثال سامنے ہے ۔ان کو صرف اسی لیے ہٹایا گیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ اسلام کی کامیابی خالد بن ولید کی وجہ سے تھی، بلکہ کامیابی تو صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ ہماری نوجوان نسل بلخصوص جو پاکستان میں مقیم ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جو آسائشیں اور آرام آج ہمیں میسر ہے وہ صرف اس جہاد اور ہجرت کی برکت سے ہے۔ ہم ان آسائشوں میں پڑھ کر اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔ ہمارے لیے حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی زندگی ایک رول ماڈل ہے ۔وہی معصب بن عمیر جنہوں نے دین اسلام کےلئے آرام دہ اور آسائشوں والی زندگی قربان کر دی ۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ہم اگر اس سے منہ موڑ بھی لیں تو اللہ کسی اور کو یہ فریضہ سونپ دے گا ۔لیکن کیا ہم اللہ کے غضب کا سامنا کر پائیں گے؟ یا حضرت کعب بن مالک کی طرح توبہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ابھی مایوسی ضرور ہے لیکن ہمیں اللہ پہ بھروسہ کر کے اس مایوسی کو پھیلنے نہیں دینا ۔ان شاءاللہ ایک دن اللہ ہمیں آزادی کی نعمت سے ضرور نوازے گا ۔اور رکاوٹیں ڈالنے والے سیلاب کے ساتھ بہہ جائیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ تمام شہداء کی قربانیوں کو قبول کرے اور ہمیں ان کے راستے پہ چلنے کی توفیق دے آمین۔ـشہادت سے قبل کافی دنوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی تھیں۔ ان دنوں انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا تھا اور انہیں معلوم تھا کہ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ان کی عادت تھی کہ وہ ہمیں ایسی باتیں بہت کم بتاتے تھے جن سے ہمیں پریشانی ہوتی۔ جب مجھے حالات کا پتہ لگا تو فون پر صرف مجھے یہ بتایا کہ گھر جب آوگے تب سب کچھ بتا دوں گا۔ 19فروری 2023 کی صبح فجر سے پہلے میں اپنا کام ختم کر کے اپنے ہاسٹل کی طرف نکلا تو اچانک اللہ تعالیٰ نے دل میں گھر جانے کا خیال ڈالا ۔اللہ نے میرے مقدر میں ان سے ایک آخری ملاقات لکھ دی تھی ۔گھر پہنچا تو انہوں نے دروازہ کھولا اور مسکرا کے گلے لگایا ۔فجر نماز کے بعد کہنے لگے تم آرام کرو تھک گئے ہوگے بعد میں بات کرتے ہیں ۔پورا دن تو بات کرنے کا موقع نہ ملا ۔رات کو کھانے پہ ہماری بات ہوئی تو بتایا کہ دشمن بہت قریب پہنچ چکا ہے ۔میں نے کہا آپ نماز گھر میں پڑھ لیا کریں اور کچھ دن گھر میں آرام کریں۔ میری بات پر مسکرا دیئے اور کہنے لگے میں ہمیشہ لوگوں کو درس دیتا آیا ہوں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں نماز گھر میں پڑھ لوں ۔شہادت سے کچھ روز پہلے انہوں نے اپنے کام سے چھٹی لی ہوئی تھی۔ گھر کے سامنے والی گلی کا کچھ کام کروارہے تھے۔ اس بات کی خبر بھی دشمن تک پہنچ چکی تھی کہ وہ تین دن سے گھر پر ہیں۔ اور گلی میں کام کرواتے ہوئے بھی کسی نے تصویریں بنا کر دشمن تک پہنچا دی تھیں ۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دشمن کتنا قریب تھا۔ حالات کے پیش نظر کچھ دنوں سے گھر سے کوئی ان کو گاڑی تک یا بائیک پر چھوڑ آتا تھا۔ 20 فروری کی صبح جاتے ہوئے بس ایک آخری آواز دی کہ آج کے بعد میں کسی کو نہیں بولوں گا کہ مجھے چھوڑ کر آؤ یہ آواز آج تک کانوں میں گونج رہی ہے۔

ابو کو گولی لگی ہے

20 فروری 2023 کی شام کو فون پہ یہ جملہ میری زندگی بدل دے گا شاید مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا ۔ 20 فروری کی شام کو مغرب کی نماز سے لوٹتے وقت انہیں شہید کر دیا گیا۔ جب تک میں ہاسپٹل پہنچا تب تک وہ شہادت کے مرتبے پہ فائز ہوئے تھے ۔ چند عینی شاہدین کے مطابق، جب انہیں گولیوں سے شہید کیا گیا تو ان کی زبان پر آخری کلمات “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ” تھے۔ انہوں نے دشمن سے ڈر کر بیٹھنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی ۔جیسا کہ حضرت خالد بن ولید کا قول ہے کہ ’’اگر موت میدان جنگ میں ہوتی تو خالد کبھی بستر پہ نہ مرتا‘‘۔ اپنے والد سے بچھڑنے کی تکلیف ایک طرف لیکن ان کی شہادت پر کئی زیادہ خوشی ہے۔ انہوں نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ میں خود کو ایک شہید کا بیٹا کہہ سکوں ۔نہ صرف میں بلکہ میرے پورے خاندان کیلئے نہایت اعزاز کی بات ہے۔ ان کے ساتھی جن الفاظ کے ساتھ انہیں یاد کرتے ہیں اس سے میرا سر فخر سے بلند ہوتا ہے ۔اور ان شاءاللہ رب العزت کی رحمت کے سائے میں ہم آخرت میں ضرور اکھٹے ہوں گے۔