شہزاد منیر احمد
بند آنکھوں سے دیکھے خوابوں کی نہ کوئی ترتیب ہوتی ہے نہ تسلسل اور نہ ہی وہ پائیدار ہوتے ہیں، ادھر آنکھ کھلی تو ادھر خواب کے کردار و مناظر غائب۔ کھلی آنکھوں دیکھے خواب البتہ زندگی اور امید کی کرنیں بن کر رہنمائی کرتے ہیں۔ عمل کی راہیں دکھا کر بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ عملی زندگی میں اعتماد اور طمانیت دونوں معیاری سطح کے بخشے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے دیکھے گئے سہانے خوابوں نے کبھی ہمارے حوصلوں اور ارادوں کو مرجھانے نہیں دیا ، کشمیری عوام نے اپنی تحریک آزادی کے سفر میں پیش آنے والی ہر مشکل اور کٹھن حالات کا مقابلہ بڑی زندہ دلی اور جرتوں سے کیا، جس کی ہماری بے شمار جانی قربانیاں گواہ ہیں۔
اب مجھے اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ موجودہ حالات میں ارادے کچھ مرجھاتے ہو ئےلگتے ہیں۔ غالباً انہیں تروتاز رکھنے کے لیے شفاف اور وافر سیرابی پانیوں کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ 5 فروری کے یوم کشمیر کے حوالے سے ایک پر جوش مجلس مذاکرہ میں راقم بطور سامع شامل تھا ۔ اہل علم و بصیرت ، تاریخ دان پروفیسر حضرات اور سیاست دانوں نے تقاریر سے خوب رنگ جمایا اور سامعین کا لہو گرمایا۔ مجلس میں موجود شرکا نے ہر مقرر کی تقریر پر تالیاں بجاتے داد بھی دی۔ صدارتی خطاب میں محترم و معزز صدر مجلس نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا، کشمیریوں نے اپنی جد وجہد آزادی میں پیش کردہ کردار، شخصی قربانیاں اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جو تحریک آزادی کشمیر کو جاری رکھا ہوا ہے وہ ضرور ثمر بار ہو نگی۔ اور کشمیر ان شااللہ جلد آزاد ہو گا۔ تالیاں ہی تالیاں۔
سامعین میں سے ایک بائیس چوبیس سالہ نوجوان جو ایک یونیورسٹی کا طالب علم بتایا گیا اس نے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی جو دے دی گئی ۔ سوال کنندہ نوجوان نے بڑے مؤدبانہ انداز اور تحمل سے یوں گزارش کی۔ میرا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ میرے دادا ، میرا باپ دو بہنیں اور تین بھائی تحریک آزادی کشمیر کے شہیدوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ میں اور میرا بڑا بھائی بچے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ ملنے والے ہیں کشمیر سے منسوب کوئی تقریب ہو ، 14 اگست ہو، 6 ستمبر ہو 27 اکتوبر ہو ، 5 فروری ہو، 9اور11فروری ہو یوم شہداء کشمیر ( محمد افضل گورو شہید اور محمد مقبول بٹ شہید) ہم ان میں باقاعدہ شامل ہوتے ہیں ۔ میں سیاسی قائدین کی تقریریں سنتا ہوں سر دھنتا ہوں مگر پھر بھی تجدید عہد کرتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کو ہم نے بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھنا ہے۔ ان شاءاللہ
مجھے خوشی ہوئی آپ کی اس بشارت دینے اور امید دلانے پر کہ کشمیر جلد آزاد ہو گا۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر آپ یہ پیشگوئی کر رہے ہیں۔ ( نوجوان رکا اور بولامیری پوری بات سن لیں آپ کو فیصلہ کرنا اور جواب دینا آسان ہو جائے گا ۔تلخ نوائی کی معذرت چاہتا ہوں ) کیا کشمیریوں کی سیاسی قیادت نے اپنی گزشتہ کارکردگی کا جائزہ لے کر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کی ہے، کیا نیا لائحہ عمل Strategy طے پا گیا ہے، کیا کشمیر کے غیر مستند نا معتبر لیڈران نے اپنے رویے سے تائب ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ کیا وہ مشترکہ مرکزی سیکریٹریٹ قائم کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں جب تک کشمیر کے دونوں خطوں کے قائدین اکٹھے ہو کر نہیں لڑیں گے ہماری تحریک آزادی کشمیر کا سفر مزید بڑھتا رہے گا۔ کیا جبری تقسیم کے نتیجہ میں بٹے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے کشمیری قائدین اکٹھے ہونے پر راضی ہو گئے ہیں، جیسے جبری بٹوارے سے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی الگ الگ کئے گئے تھے اور45 سال بعد پھر سے اکٹھے ہو گئے تھے۔ کیا کشمیریوں نے اپنی سفارتی کوششیں بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کا کوئی نیا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔ معروضی حالات میں تو ایسے خوشگوار مناظر نظر نہیں آتے، یا ہم بے خبر ہیں، اس لئے آپ سے پوچھنے کی جسارت کی ہے۔ آپ کی سماعت کا شکریہ ۔
صدر مجلس نے بڑی توجہ سے سوال سنا اور تفصیل سے جواب دیا۔ اسی اثنا میں دوسری طرف سے ہاتھ کھڑا کرتے ایک بزرگ کشمیری کھڑا ہو گئے اور فرمانے لگے ہم ان لوگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے واقعتاً دریاؤں میں گھوڑے دوڑائے اور ستاروں پر کمندیں ڈالیں ۔ لیکن جب وہ جہاد ، جہادی تعلیمات ، جہادی طرز زندگی کو ترک کر کے ، آرام طلب ہو گئے ۔جب عبداللہ بن زبیر ، طارق بن زیاد ، ٹیپو سلطان ، جیسے غیور بیٹے ہم سے چھن گئے تو برطانوی لارڈ کلائیو جیسے کردار ہم پر مسلط کر دئیے گئے۔ ہماری غفلت اور ضرورت سے زیادہ پراعتمادی نے ہمیں شیخ عبدااللہ جیسے بے بھروسہ لیڈردیئے اور انسپکٹر زمان کیانی اور خورشید جیسے بزدل مجاہد ملے۔ ہمیں آج پھر سے مقبول بٹ(شہید) جیسے بیٹوں اور سید علی گیلانیؒ جیسے قائدین کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہماری آزادی کشمیر کے خواب وہم و وسواس کا شکار ہو کر ہمیں سستانے پر مجبور کرنے لگے ہیں۔
ہمیں اپنی بہو بیٹیوں اور بہنوں کو پھر سے متحرک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں سونے سلانے والی لوریاں نہیں جنگی ترانے اور جہاد زندگانی کی شاہراؤں پر چلنے کی ترغیب و تربیت دیں ۔ میری تجویز پر غور ضرور فرمائیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ تقریب ختم ہو گئی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
ریاست جموں و کشمیر تاریخی آئینہ میں
اس تاریخی سچائی کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے قدیم مذہب شیوازم SHAIVISM (ہندو میتھالوجی) کے خاتمے کے بعد ریاست جموں و کشمیر اسلامی ریاست بنی تھی۔
شیوا ، سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے،صورت و ہیئت میں تبدیلی لانے والا دیوتا’’ شیوازم ‘‘کا خاتمہ13 ویں صدی عیسوی میں ہوا جب 1339 میں شاہ میر جموں و کشمیر کا پہلا حکمران بنا ۔ نظام قدرت میں خطہ ریاست جموں و کشمیر جو آدم علیہ السلام کی جائیداد ہے اس دن سے بطور ایک سیاسی اکائی عالمی نقشے پر اپنی جغرافیائی حثیت و اہمیت سے قائم ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ کشمیر میں حکومتیں اور حکمران بدلتے رہے ۔ کشمیری عوام بھی دیگر اسلامی ریاستوں کی طرح اپنے وطن’’جنت نظیر کشمیر‘‘میں1561 تک مضبوط حثیت میں اسلامی اقدار پر قائم پرامن آزاد زندگی گزارتے رہے ۔ علامہ اقبال نے اس کشمیر پر لکھا ہے :
ورثہ میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
پھر نہ جانے کس لمحے ، کس سے اور کیا خطا سرزد ہوئی کہ کشمیریوں پر صدیوں کی سزا نازل ہو گئی ۔19نومبر 1846 کو مہاراجہ گلاب سنگھ پوری ریاست جموں و کشمیر کا مالک و مختار بن کر انگریزی فوج کے ساتھ سری نگر میں داخل ہؤا ۔ یوں ریاست میں ڈوگرہ راج کا آغاز ہو گیا۔ ریاست جموں و کشمیر میں مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی شروعات اس وقت ہوئیں جب کشمیر پر انگریزی قبضہ کے بعد 16 مارچ 1846 کو بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض کشمیر کو انگریزوں نے اپنے ایک وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا ۔ اس غیر انسانی معاہدہ کے تحت جموں و کشمیر کا پورا علاقہ ، اس کی تمام آبادی اور وسائل گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دئیے گئے ۔ ڈوگرہ حکمران بھی انگریزوں سے بڑھ کر مسلمانوں سے تعصب برتتے تھے۔
مسلمانوں سے ان کے تعصب کی انتہا یہ تھی کہ کسی مسلمان کو دوپہر سے پہلے کسی ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہ تھی کہ وہ دوپہر سے پہلے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کو اپنے وطن میں مسجدوں میں اذان دینے کی اور جمعہ و عیدین کا خطبہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں کی مساجد کو گھوڑوں کے اصطبل اور اسلحہ و بارود خانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو ودیعت کردہ حقوق بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور ثقافتی اقدار و سرگرمیوں کی ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں پامالیاں عروج پر تھیں ۔ اس کریہہ منظر کشمیر پر علامہ اقبال کو لکھنا پڑا :-
پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بے تاب
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبرر و محراب
دیں بندہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
ڈوگرہ راج کے ہاتھوں کشمیری عوام کی محکومی ، غلامی ،کسمپرسی اور ان پر ڈھایا جانے والا استبداد جاری تھا کہ بھارت پر قابض انگریزوں کی حکومت برطانیہ نے 1947 میں ہندوستان کو تقسیم کر کے دو خود مختار ریاستیں ، پاکستان اور انڈیا بنانے کا فیصلہ کر دیا۔کشمیر اصولی طور پر حسب معاہدہ، پاکستان سے الحاق کرنا چاہ رہا تھا اور اس کی تیاری بھی مکمل ہو چکی تھی ، مہاراجہ کشمیر ، ہری سنگھ کو خوف تھا کہ پاکستان کے قبائل زبردستی کشمیر کو پاکستان میں ضم کر دیں گے۔دوسری طرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو ہندوستان کے آخری وائسرائے تھے نے عملی طور پر ہندوستان کے وزیراعظم کا کردار سنبھال رکھا تھا۔ انہوں نے ہری سنگھ کو مزید ڈرایا کی اگر تم کشمیر کا الحاق ہندوستان سے نہیں کرو گے تو پاکستان تمہارا جینا محال ۔کردے گا۔ اس لیے تم ہندوستان سے معاہدہ کرکے اس کی مسلح افواج کو کشمیر میں اتار دو۔ ہری سنگھ دباؤ میں آگیا ۔ اسی اثناء میں ہندوستانی افواج سرینگر میں داخل ہو گئیں۔ ہندوستان نے جھوٹا پراپیگنڈا کر دیا کہ انڈیا کی افواج راجہ ہری سنگھ اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ معاہدہ کے تحت داخل ہوئی ہیں۔ حالانکہ نہ تو 1947 میں یہ معاہدہ کسی کو دکھایا گیا اور نہ ہی آج تک اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر میں جنگ چھڑ گئی۔ ہندوستان ( اصل میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن) نے کشمیر اپنے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے دیکھ کر اپنے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو جنگ بندی کی درخواست دے کر اقوام متحدہ بھیجوا دیا۔ یوں لولی لنگڑی جنگ بندی تو ہو گئی مگر کشمیر کے الحاق کا اونٹ اقوام متحدہ آج تک کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دے رہا۔گزرتے وقتوں کے ساتھ کشمیریوں کا حق خود ارادیت کا مسلہ دن بہ دن گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ دنیا بھر کی سفارتی اور اخلاقی مدد کشمیریوں کی جد وجہد کی حامی اور انہیں حق خودارادیت دلانے کی حمایت کر رہی ہے۔ فروری 2025 کے دوسرے ہفتے جب ہندوستان کے وزیراعظم مودی ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے پیرس پہنچے ، انہوں نے پیرس کے صدر میکرون کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ مودی کو نظر انداز کر کے سیکرٹری اقوام متحدہ کی طرف بڑھ گئے اور مودی کو شرمندہ کر دیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے بھارت مخالف نعرے لگائے ، انہوں نے ہاتھوں میں کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا ہوا تھا ۔




بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے دوستانہ رویوںکے پیش نظر اپنی جد وجہد آزادی و حق خودارادیت میں مزید تیزی لانے کے لیے کشمیریوں کو موثر بین الاقوامی رابطے بڑھانےچاہیں۔
کشمیری عوام اپنی صدیوں سے آزاد حیثیت سے کیسے دستبردار ہو جائیں اور ہوں بھی کیوں۔ یہ ان کا بنیادی ، سیاسی اخلاقی حق ہے کہ وہ اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں اور خطہ کشمیر ( مقبوضہ و آزاد) دونوں میں اپنی آزاد حیثیت میں رہیں۔ یہ جنگ جاری ہے اور ان شاء اللہ اپنی کامیابیوں تک لڑی جائے گی ۔ تحریک آزادی کشمیر سے منسوب موجودہ کوششوں کے بارے میں علامہ اقبال کے اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے یہی عرض کروں گا:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
***
جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں
