جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر
جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیرگلگت بلتستان کا قیام 13جولائی 1974 ء میںعمل میں آیا،جماعت اسلامی کے قیام کا دن 13جولائی کا دن اس لیے رکھا گیا کہ اسی دن 13جولائی 1931میںسرینگر میں اذان مکمل کرنے کیلئے ڈوگرہ ا فو اج کے ہاتھوں 22فرزندان توحید نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے االلہ کی کبریائی بلند کی تھی،جماعت اسلامی اسی مشن کی تکمیل کیلئے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کررہی ہے۔
جماعت اسلامی کی تاسیس کے ساتھ ہی مولانا عبدالباری مرحوم جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرگلگت بلتستان کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ان کے بعد کرنل (ر)عبدالرشید عباسی مرحوم امیر منتخب ہوئے،ان کی وفات کے بعد عبدالرشید ترابی ،سردار اعجاز افضل خان،ڈاکٹر خالد محمود خان اورآج قافلہ سخت جا ں کی قیادت ڈاکٹر محمدمشتاق خان کررہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مشتا ق خان کو امارت کاحلف اٹھائے ایک برس ہونے کو ہے اس عرصے میں انھوںنے تحریک آزادی کشمیراور جماعت اسلامی کو منزل سے ہمکنار کرنے کیلئے یونیک قسم کے عملی اقدامات کیے جس کے نتیجے میںتحریک آزادی کشمیرکو بھی نئی جلاملی اور جماعت اسلامی نے بھی پیش قدمی کی ،ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے آزاد کشمیرکے درجنوںسنیئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس ،کئی سنیئر سیاست دانو ں سمیت ہزاروں نئے افراد کو جماعت اسلامی میںشامل کرایا ،ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے وکلاء کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کیلئے اسلامک لائرز مووومنٹ کے نام سے تنظیم قائم کی جس میں بڑی تعداد میں وکلاء شامل ہوئے اور ہورہے ہیں،نوجوانوںکو جوڑ نے کیلئے جے آئی یوتھ کو از سر نومنظم کیا بڑی تعداد میں نوجوان جماعت اسلامی کا حصہ بن رہے ہیں ،خواتین جو ہماری آبادی کا نصف سے زائد ہیں ان کو متوجہ کیا اور خواتین بڑی تعداد میں جماعت اسلامی میں شامل ہورہی ہیں۔جس سے جماعت اسلامی عوام کی آخری امید بن کرابھررہی ہے۔ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے آزاد کشمیرکے تمام اضلاع اسی طرح گلگت بلتستان کے اضلاع اور پاکستان میںمقیم مہاجرین کے حلقوں کے دورے کرکے جماعت اسلامی کو ایک متحرک اور فعال جماعت میں تبدیل کیاہے،ڈاکٹر محمد مشتاق خا ن نے تحریک آزادی کشمیرجو 5اگست 2019میں مودی کے ظالمانہ اقدامات کے بعد مشکلات کاشکارتھی اور کشمیری حریت پسند عوام کو مودی نے عملایرغمال بنالیا ہے ا س حوالے سے بھی یونیک اقدام کیا ۔
ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے تحریک آزادی کشمیر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو دو دن کیلئے جمع کرکے ان کیمرہ سیشن کیا ،اس میں مقبوضہ کشمیر،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان ،پاکستان ،امریکہ اوربرطانیہ سمیت دنیا بھرمیں پھیلی ہوئی کشمیری قیادت شریک تھی۔ا ن کمرہ سیشن میں تحریک آزادی کشمیرکیاکھویا کیا پایا کے تجزیے کے بعد آئند ہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا جس سے مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور کشمیری عوام میں پھرایک بار امید کے چراغ جلے ہیں۔یوں ڈاکٹر محمد مشتاق خان اس قافلے کو لے کرحقیقی اسلامی تبدیلی اور مقبوضہ کشمیرکی آزادی کی منزل کی جانب گامزن ہیں۔
جماعت اسلامی نے بھمبر سے اٹھمقام اور گلگت سے خپلو تک لاکھوں انسانوں تک اللہ اور اس کے رسول ﷺکا پیغام پہنچایا ،ہزاروں لوگوں نے اس پیغام کو قبول کیا،ایک پوری نسل کو اسلام اور تحریک آزادی کیلئے تیار کیا،ریاستی نظام تعلیم کے مقابلے میں ایک شاندار تعلیمی نیٹ ورک قائم کیا۔5سو نوجوانوں کوبیرون ملک سے اعلی تعلیم دلوائی 7 ہزار خواتین کو ہنرمند بنا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔21 ہزار یتیم بچوں کی کفالت کی جارہی ہے,گیارہ ہزاروں بیوائوں کو آرفن کیئر پروگرام کے تحت مدد کی جاتی ہے۔۹ہزاربے روزگار نوجوانوں کو روزگار دلایا۔9ہزار سے زائدمعذورافرادکو وئیل چیئرزفراہم کی گئیںایک لاکھوں افرادکو خوراک اور ادوایات کی سہولت فراہم کی گئی ۔آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں سینکڑوںواٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے ،جماعت اسلامی کی خدمات جاری ہیں۔
جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاسیس سے لیکر اب تک دستور کے مطابق تسلسل کیساتھ جمہوری عمل اور ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے امیر کو منتخب کرنے میں ایک دن کی تاخیر نہیں کی۔امیر جماعت کا انتخاب ہر تین برس بعد اراکین جنرل کونسل خفیہ رائے دہی سے کرتے ہیں۔مرکزی مجلس شوریٰ اراکین کیلئے امیر کے انتخاب میں سہولت کیلئے تین نام تجویز کرتی ہے۔لیکن اراکین جنرل کونسل ان ناموں کے علاوہ بھی اگر کسی کو چاہیں تو امیر منتخب کر سکتی ہے۔

امیر جماعت کے انتخاب کیلئے جو اوصاف ہونے چاہئیں ان میں تقویٰ،پرہیزگاری،فہم وفراست اور ٹیم کو لیکر چلنے کی صلاحیت۔ان اوصاف کو سامنے رکھ کر ہر رکن جنرل کونسل دستور کے مطابق علاقائی، قبیلائی یا لسانی تعصبات پرنہیں بلکہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے نقطہ نظر سے ووٹ دیتا ہے۔انتخاب کے دوران کوئی فرد لابنگ یادخل اندازی نہیں کر سکتا۔دستور کے مطابق ایسا کرنے والا فرد چاہے مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن ہو یا رکن جنرل کونسل وہ معطل کر دیا جائے گا۔ مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور دستور پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل صاف اور شفاف ہوتا ہے، جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے کا تصور کسی دوسری جماعت یا پارٹی میں نہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت سے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کو امیر جماعت اسلامی اور مرکزی ٹیم لے کر چلتی ہے۔ جماعت اسلامی میں فیصلے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی ایک انقلابی تحریک ہے جو موجودہ فرسودہ نظام تبدیل کرکے اللہ کا دیا ہواعادلانہ نظام چاہتی ہے۔االلہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنی واحدانیت کے اقرار اور دنیا میں دین اسلام کے غلبے کیلئے مبعوث فرمایاکہ تمام ادیان باطل کو مٹا کر اللہ کے دئیے ہوئے نظام کو غالب اور نافذ کیا جائے۔یہی پیغام نبی آخرالزمان ﷺ کا تھا۔آج ہمارا دین بطور نظام حیات مغلوب ہے اور جماعت اسلامی اسی لیے قائم ہوئی ہے کہ وہ دین کو بطور نظام حیات قائم کرے۔
مختلف ادوار میں جماعت اسلامی کی ذمہ داری جن قائدین کے کندھوں پر رہی، انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں لگاکر ان کی آبیاری کی، عبدالرشید ترابی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی،اصلاح معاشرہ،عوامی خدمت اورتحریک آزادی کشمیرمیں گراں قدر خدمات اور اداروں کی تشکیل کی، عبدالرشید ترابی نے 22برس تک قافلہ سخت جاں کے امیر کی حیثیت سے کام کیا اور سیکرٹری جنرل اور امیر ضلع کی حیثیت سے بھی اگر شامل کیاجائے تو سب سے زیادہ اس قافلہ سخت جاں کے قائد کی حیثیت سے فیلڈ میںموجودرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں،عبدالرشیدترابی نے جماعت اسلامی کو پارلیمانی نمائندگی دلائی اور تاریخ ساز کام کیے ۔اسمبلی سے قرآن کی تعلیم لازمی قراردلائی،ختم نبوت کے بل کو قانون بنوایا،این ٹی ایس کے ذریعے تعلیم میں بھریتاںکرانے کا اہتمام کیا،آزاد کشمیرمیںپہلی بار ایم ایل اے فنڈز متعارف کرایا،عدل وانصاف پر تعمیراتی سکمیں متعارف کرائیں،لوکل گورنمنٹ نے ان کے حلقے کو ماڈل حلقہ ان معنوںمیں قرار دیا کہ کسی ایک سکیم میں ایک روپے کی کمی نہیں کی بلکہ اپنے پاس سے رقم لگائی،عبدالرشید ترابی نے بطور پر ممبر اسمبلی اپنے بجٹ سے آزاد کشمیرکے دیگر حلقوںمیںبھی سکمیں دیں،پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کروڑ وں روپے کی رقم بازیاب کرائی ،پہلی بار محکموں کو معلوم ہوا کہ ان کے کرنے کے کام کیاہیں۔عبدالرشید ترابی نے دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد ہوتا رہا جن میں مختلف ممالک کے سینکڑوں کی تعداد میں مندوبین اور سربراہان مملکت شریک ہوتے رہے جنہوں نے عبدالرشید ترابی کی تحریک پر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعلان کیا اور متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں۔ان ہی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں او آئی سی میں کشمیر کنٹیکٹ گروپ کا قیام عمل میں آیا اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آتا ہے ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیاگیا۔ابلاغ کے محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف زبانوں میں سینکڑوں کتب اور میگزین شائع ہو رہے ہیں۔ ان سے دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور مسئلہ کشمیر سے آگاہی حاصل کر رہی ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے ہاتھوں سے کروڑوں نہیں اربوں روپے مختلف منصوبوں پر خرچ ہوئے۔مگر کیا مجال کے کسی قیادت اور کارکن پرکوئی انگلی اٹھائے،یہاں ایک بات ذہین نشین رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اورکارکن بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں او راسی طرح انسانی خواہشات رکھتے ہیں جس طرح دوسرے افراد ہیں۔یہ کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے،نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کرسکتاہے۔کوتاہیاں اور کمزوریاں ان میں بھی ہیں لیکن خیرغالب ہے۔ان لوگوں کے دامن صاف ہیں،اس کو معمولی نہ سمجھاجائے۔
جماعت اسلامی کے اس شاندار کردار کااعتراف پاکستان کی ا علیٰ عدلیہ نے بھی کیاہے۔یہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس کچھ تھا ہی نہیں تو کرپشن کیا کرتی؟امیر جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیرعبدالرشید ترابی ممبراسمبلی رہے۔ ایک دفعہ جیت کے نتیجے کو دوسرے دن تبدیل کروایا گیاوہ الگ بحث ہے،جب ممبر اسمبلی تھے تو پہلی مرتبہ کسی کو پتہ چلا کہ ایم ایل اے فنڈز بھی ہوتاہے،محکمہ لوکل گورنمنٹ نے عبدالرشید ترابی کے حلقے کو ماڈل حلقہ قراردیاتھا یہ ریکارڈ پر موجود ہے،365سیکمیں بلاتخصیص دیں یہ نہیں دیکھاکہ کس علاقے کے لوگوں نے ووٹ دیے تھے کہ نہیں دیے تھے سب کو برابر حق دیا،بلکہ جس علاقے کے لوگوں نے زیادہ ووٹ دیے اور دوسرے علاقے کے لوگوں نے کم ووٹ دیے تھے یہ نہیں دیکھا بلکہ جس کا حق جتنا آبادی کے بنیاد پربنتاتھا وہ دیا۔جماعت اسلامی کی خاتون ممبر اسمبلی نے بھی شاندار پارلیمانی کردار ادا کیا۔
جماعت اسلامی نے سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے پیش نظر نسل نوکے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کیلئے آزاد کشمیربھر اور گلگت بلتستان میں 4سو سے زائد سکولز اور کالجز قائم کیے۔ان سکولوں میں ہزاروں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے اور ایک لاکھ کے قریب زیر تعلیم ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قرآن کی تدریس اور فہم قرآن کیلئے 150سے زائد دینی ادارے قائم کیے جن میں ہزاورں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جماعت اسلامی نے ان اداروں کے ذریعے ایسے علماء تیار کیے جو مسلکی اور فرقہ واریت سے بالاترہوکر دین کاابلاغ کررہے ہیں جو امت کو امت واحدہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دور جدید کے چیلنجز سے آگاہ ہیں۔
عوامی خدمت کے میدان میں جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں۔ 17ہزار یتیم بچوں کی کفالت جماعت اسلامی اور اس کے ادارے کررہے ہیں۔
صحت کے شعبے میں بھی جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں ہسپتال اورڈسپنریاں اس مقصد کیلئے دن رات کام کر رہی ہیں۔
جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے تحریک آزادی کشمیرکیلئے سب سے زیادہ عملی کام کیا۔مقبوضہ کشمیر سے بھارتی ا فواج کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والوں کی بے مثال خدمت کی اور ابھی بھی ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔مہاجرین کے کیمپوں میں ان کے مسائل کے حل اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ROKMسمیت دیگر ادارے قائم کر رکھے ہیں۔مسئلہ کشمیر کو تحلیل کرنے کیلئے جب چارنکاتی فارمولا پیش کیا گیا تھا تو جماعت اسلامی کے سوا سب ڈھیر ہو گئے۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ہی کھڑی رہی چاہے وہ سردار اعجااز افضل خان ہوں یا عبدالرشید ترابی یا ڈاکٹر خالد محمود ہوںباقی ساری آزادکشمیرکی قیادت چار نکاتی فارمولے کی ٹرین پر چڑگئی تھی۔جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے تحریک آزادی کشمیر کو اس حادثے سے بچایا۔آزاد کشمیرسے جن لوگوں نے مقبوضہ کشمیرمیں جاکر جہا دمیں عملی حصہ لیا ان کاتعلق بھی جماعت ا سلامی سے ہے۔مقبوضہ کشمیرکے ہر قبرستان میں آزاد کشمیرکے شہداء موجود ہیں۔آزادی کی منزل تک جماعت اسلامی کشمیری بھائیوں کیساتھ رہے گی یہ ہمارا یمانی اور دینی فریضہ بھی ہے اور جماعت اسلامی کے دستور کاحصہ بھی ہے۔جماعت اسلامی کیساتھ اس وقت لاکھوں لوگ وابستہ ہیں،ہزاروں ممبران ہیں۔آزاد کشمیرگلگت بلتستان اور مہاجرین کے ہر حلقے میں ایک طاقت کے طو رپر موجود ہے،وقت قریب ہے کہ عوام جماعت اسلامی پر ہی اعتماد کریں گے اس کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرگلگت بلتستان چونکہ 1974ء میں ہی قائم ہوئی تھی اس لیے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔اس کے بعد 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا،1985ء میں پاکستان کی طرف سے ایک شق لاگوہوئی جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے انتخاب میں براہ راست حصہ نہیں لیا تھابلکہ تین جماعتوں کا اتحاد بناتھا جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی۔اسی اثناء میں مقبوضہ کشمیرکے اندر تحریک آزادی کشمیرپوری قوت کیساتھ شروع ہوئی ہزاروں کی تعدا د میں مقبوضہ کشمیرسے لوگوں نے ہجرت کرکے آزاد کشمیرکا رخ کیا،آزاد خطے سے جماعت اسلامی ہجرت کرکے آنے والوں کی رہائش او ردیگر ضروریات کی طرف مصروف عمل ہو گئی،جماعت اسلامی نے مشاورت کے بعدتحریک آزادی کشمیرکے اس بڑے چیلنج سے عہدہ برا ء ہونے کیلئے اپنی ساری تونائیاں اس کی کامیابی میں صرف کیں۔جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرنے اس تحریک کی تمام ضروریات پوری کیں۔1990ء میں انتخابات کے موقع پریہ تحریک عروج پر تھی تو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے مشاورت سے فیصلہ کیاکہ اگر اس موقع پر جماعت اسلامی انتخابی میدان میں جاتی ہے تو ساری توجہ اور وسائل انتخابی معرکے میں کامیابی کیلء لگیں گے تو تحریک آزادی کشمیرمتاثرہوگی،جماعت اسلامی نے انتخابات میں نہ جانے کا فیصلہ کیااوراپنی ساری توانائیاں تحریک آزادی پر صرف کیں۔تحریک کے تقاضوں کے مطابق سارے محاذوں پر کام کرکے تحریک آزادی کشمیر کو ایک تواناآوازاورمسئلہ کشمیرکو عالمی سطح پرفلش پوائنٹ بنادیا۔تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کیلئے بیس کیمپ کے کردار کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل میں جماعت اسلامی نے 1996ء میں مشاورت سے پہلی بار پوری قوت کیساتھ میدان سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا،انتخابات میں جماعت اسلامی کو اچھے ووٹ بنک کیساتھ پارلمیانی نمائندگی بھی ملی،جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیرعبدالرشید ترابی نے اس پارلیمانی نمائندگی کے ذریعے مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کیساتھ ساتھ عوامی حقوق کیلئے جنگ لڑی۔2001ء میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا،اس مرتبہ عبدالرشید ترابی 2100کی لیڈ سے جیت گئے تھے مگر رات کو نتائچ تبدیل کروائے گئے۔دوسرے دن عبدالرشید ترابی کی ہار کا اعلان کروایا گیا، ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے دیگر امیداروں نے اچھے ووٹ حاصل کیے تھے۔ان انتخابات میں بھی ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کو اسمبلی سے باہررکھاگیا۔لیکن جماعت اسلامی آفاقی نظریات کی حامل جماعت ہے اس کو جتنا کوئی دبائے گا اتنی ہی ابھرے گی۔آج جماعت اسلامی ایک متبادل قیادت ہے پوری قوم تسلیم کررہی ہے کہ جماعت اسلامی ہی ہمارے مسائل کاحل ہے۔
٭٭٭
راجہ ذاکرخان
