جماعت کا وصف یہ ہے کہ اس میں شعوریت ہے، موروثیت نہیں
جناب عبدالرشید ترابی کا تعلق آزاد کشمیر ضلع باغ سے ہے۔جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے 22 سال تک امیر رہے ہیں۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور اسلامی جمعیت طلبہ آزاد کشمیر کے ناظم بھی رہے ہیں۔ اس وقت کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے کنونیئراور متحدہ مجلس عمل آزاد کشمیر کے صدر ہیں۔سابق چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی رہے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی محاذ پر گراں قدر خدمات ہیں اور اس وقت بھی بخوبی نبھارہے ہیں۔امام گیلانی ؒ کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور آزاد کشمیر کے واحد رہنما ہیں جنہیں ان سے کئی مواقع پر بالمشافہ ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔امام گیلانی ؒ کی شخصیت اور امامؒ کے دینی،سیاسی اور تحریکی کردار پر ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں جو ان شا ء اللہ عنقریب منظرعام پر آئیگی۔پچھلے مہینے ہمارے دفتر تشریف لائے تھے۔ان سے موجودہ حالات کے بارے میں جو گفتگو ہوئی وہ انٹر ویو کی شکل میں پیش خدمت ہے۔۔۔۔(شیخ محمد امین)

ترتیب و تحریر:عروج آزاد
س:کیا موجوہ جماعت اسلامی اسی جماعت کا تسلسل ہے جس کی بنیاد سید مودودیؒ نے ڈالی یااس میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی تبدیلیاں بھی آئی ہیں؟
ج:جی الحمداللہ،یہ وہی جماعت اسلامی ہے۔ جو لائحہ عمل اورفکری تربیت کا ایک مزاج سید مودودی ؒ نے دیا۔اللہ کا شکر ہے کہ اسی پر جماعت قائم ہے۔یعنی دین کا ہدف اور رضا الٰہی اس جماعت کا نصب العین ہے اور پھر وہی دعوت،تربیت،تنظیم اور اصلاح معاشرہ اور تبدیلی قیادت تھا۔جو چار پانچ نکاتی فارمولہ ہے اسی کو لے کر جماعت چل رہی ہے اور جماعت کا وصف الحمداللہ یہ ہے کہ اس کے اندر شعوریت ہے۔کوئی موروثیت نہیں ہے۔شوریٰ کے اندر ہر سطح کے لوگ موجود ہیں علماء کرام ہیں،وکلا ہیں،اہل دانش ہیں،انجئینرز ہیں ڈاکٹرز ہیں،سارے مسائل پر بحث ہوتی ہے۔بالعموم اتفاق رائے سے فیصلے ہوتے ہیں۔ دستور کے مطابق کثرت رائے سے بھی ہوتے ہیں۔یہ مشاورت کا وصف ہے الحمداللہ۔۔البتہ جو نئے چیلنجز ہیں ان کی روشنی میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔حالات بدل گئے ہیں،دنیا بدل گئی ہے اس کے تقاضے بدل گئے ہیں تواسے ہم آہنگ ہونے کے لئے مزید پالیسیز اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وہ ہمیشہ زندہ دل تحریکوں کے اندر گنجائش ہوتی ہے اس کا انتظام ہوناچاہیے۔
س:پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے،فریق ہونے کے ناطے اس کا جو کردار بنتا ہے کیا وہ کردار ادا کررہاہے؟کیا آپ اس کی کشمیر پالیسی سے متفق ہیں؟
ج:۔ مسئلہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے اور پاکستان کا ہر سطح پر یہی موقف رہا ہے کہ وہ اس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہتاہے، اور وہی اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان کا سرکاری موقف یہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس موقف کا اظہار پارلیمنٹ کی قرارداوں میں بھی ہوتا ہے یا وزیر اعظم پاکستان کا یا صدر پاکستان کا وقتاََفوقتاََجنرل اسمبلی میں خطابات کے دوران ہوتاہے۔اوآئی سی میں جو قراردادیں اتفاق رائے سے پاس کی جاتی ہیں وہ اسی موقف کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔البتہ جہاں تک اقدامات کا تعلق ہے تو اس میں ہم کمزوری محسوس کررہے ہیں اور ایسے مواقع بھی آئے ہیں جن میں ہم پیش رفت کرسکتے تھے اور اب بھی کرسکتے ہیں۔لیکن ابھی تک ایسا نہیں کرسکے۔ بد قسمتی ہے کہ پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔ نوگیارہ کے بعد پاکستان پر جو دباؤ مرتب ہوا اس کے نتیجے میں ترجیح بدل گئی ہے اور جو بھی لوگ حکمران تھے یا پالیسی ساز تھے تو ان کی ترجیحات تبدیل ہونے کے نتیجے میں جو ریاست کی پالیسی ہے اس پر پیش رفت جس طرح سے ہونا چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی ہم بار بار متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ جہاں سے بھی ہمیں موقع ملا یا مل رہا ہے ہم نشاندہی کررہے ہیں۔ قراردادوں کی شکل میں بیانات کی شکل میں ملاقاتوں کی شکل میں ہم متوجہ کرتے رہتے ہیں۔بالخصوص جو اگست ۲۰۱۹ ء کے جو مودی کے اقدامات ہیں، اس کے بعد جو صورتحال کا تقاضا تھا اس پر جس طرح سے اقدامات ہونے چاہیے تھے ان کا فقدان نظر آرہا ہے۔ لیکن جہاں تک ریاست کی پالیسی ہے یا پاکستانی قوم کی جو کمٹمنٹ ہے وہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ہمارا مسلسل یہ کام یہ ہونا چائیے کہ پاکستان کے اندر رائے عامہ کو موبالائز کرکے متحرک کرکے اس کمٹمنٹ کوہم برقرار رکھیں اور اس کو مضبوط تر بھی کریں۔

سوال:آپ اس بات سے واقف ہیں کہ 2019 ء میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی ریاست کو مکمل طورپر ختم کردیا ہے۔پاکستان اس غیر آئینی اقدام میں کیا کررہاہے؟ اور اسے کیا کرناچاہیے؟مزید عالمی برادری اس وقت کہاں کھڑی ہے؟
ج:۔ دو طریقے ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اتنا سفارتی دباؤبھارت پر مرتب ہو کہ وہ مجبور ہوجائے اپنے اقدامات واپس لینے پر۔مجھے خود بین الاقوامی سطح پر جو بیداری ان اقدامات کے بعد نظر آئی وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔آپ مختلف ممالک کو دیکھیں، یورپی یونین کو دیکھیں،یورپی پارلیمنٹ کو دیکھیں،برٹش پارلیمنٹ کو دیکھیں،امریکی پارلیمنٹ کے اندر دیکھیں۔ یہ مسئلہ ڈسکس ہوا ہے اور جتنے ذرائع ابلاغ کے عالمی مراکز ہیں وہاں پوری شدت اور قوت سے اس پرگفتگو ہوئی اور تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ آج سے چند سال پہلے مودی لندن کے دورے پر آیا تھا۔ لندن میں اس وقت ہم نے ایک آل پارٹی مشاورت میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہاں اس کی آمد پر ہم ایک بڑا مظاہرہ کریں گے۔اس وقت تحریک کشمیر برطانیہ کے ہمارے ساتھی فہیم کیانی صاحب اور غالب صاحب اور دیگر ساتھیوں نے بڑا کام کیا۔اس میں ساری پارٹیوں کی نمائندگی تھی اور وہ ایک تاریخی مارچ اور مظاہرہ تھا۔ میں خود اس میں شامل تھا لیکن اس کو وہاں کے ذرائع ابلاغ نے اگنور کیا، لیکن مودی کے اقدامات کے بعد جس طرح سے وہاں کے ذرائع ابلاغ نے مسئلہ کشمیرکو ہائی لائٹ کیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان اقدامات کے بعد اس عرصہ میں اقوام متحدہ کا جو انسانی حقوق کمیشن ہے اس کی دو رپورٹس آئی ہیں ان رپورٹس کی عالمی حیثیت ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اور ایشین واچ کی جتنے تھنک ٹینک ہیں انہوں نے جو پر زور انداز میں آواز اٹھائی وہ بھی حوصلہ افزا ہیں کیونکہ اس سے پہلے ان سب کی طرف سے اس طرح آوازنہیں اٹھائی گئی تھی۔عوامی سطح پر آگاہی بہت زیادہ ہوئی۔مجھے خود انڈونیشیا،ترکی،ملائیشیا،جانے کا موقعہ ملا وہاں کی کانفرنسوں میں جو قرارداد یں ہم نے پیش کیں دنیا کے اہم دانشور اس میں موجود تھے،انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ اس ساری مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ بھارت پر،ان اداروں کی سطح پر دباو آیا لیکن اخلاقی اور عوامی دباو آیا لیکن جہاں تک حکومتوں کا سوال ہے تو ان کی طرف سے ایسا کوئی ٹھوس دباؤ نہیں آیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کا بیان ہمارے حق میں آیا لیکن اس پر کوئی اجلاس نہیں ہوا۔دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کی وجہ سے برطانیہ ،امریکہ اوریورپی یونین ممالک سے ان پر باقاعدہ حکومتی سطح پر کوئی دباو نہیں آیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ان سارے ممالک کے حکمرانوں کا ایک متعصبانہ نکتہ نظر ہے۔مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ہو یا مسلمانوں کے مسائل ہوں تو ان کی ایک طے شدہ پالیسی ہے اور دو طرفہ تعلقات جو بدقسمتی سے اس وقت بین الاقوامی تعلقات پر حاوی ہیں اور اس میں پھر جو لیوریج ہے وہ پھر اقوام استعمال کرتی ہے۔بھارت نے بھی انہیں استعمال کیا۔ہماری بھی خامیاں صاف نظر آرہی ہیں۔کئی مواقعے بھی ہم نے ضائع کئے مثلاََ مودی اور آر ایس ایس کا تو طے شدہ ایجنڈا تھا کہ وہ آئیں گے تو یہ دفعہ 370 ختم کردیں گے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔یہ طے شدہ ایک امر تھا اس پر جو ہوم ورک ہماری طرف سے ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ بھارت کے وزیر خارجہ نے چالیس ممالک کا دورہ کیا حتیٰ کہ ہمارے خلیجی ممالک ہیں وہاں پر بھی جاکر اس نے جو بیانیہ ہے اسے فروخت کیاکہ اس کے نتیجے میں دیکھیں جی ہم وہاں کشمیر میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔اتنے بلین ڈالرز کی وہاں انوسٹمنٹ ہوگی اور یہ بیس تیس سال سے علاقہ جو ہے وہ ایک تشدد کی گرفت میں ہے،وہ نکل جائے گا اور آپ کی کمپنیوں کو بھی ہم دعوت دیں گے۔ چونکہ بین الاقوامی سطح پر ایک خودغرضی کا ماحول ہے اور متعصبانہ بھی ہے۔لیکن ہمارا ہوم ورک بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔اس لئے عوامی رائے عامہ ہمارے حق میں ہونے کے باوجود حکمرانوں کی طرف سے وہ سپورٹ ہمیں نہیں مل سکی جو ملنی چائیے تھی۔
س: مودی کے اقدامات کا توڑ کس طرح سے کیا جاسکتا ہے؟
ج:۔بھارت اس کی قیمت ادا کرے، وہ اقدامات واپس لے سکتا ہے۔جیسے متحرک جہاد کے نتیجے میں ان کی لاشیں اٹھتی تھیں اس پر جو ان کے بڑے بڑے لیڈر ہل کر رہ گئے تھے۔ موجودہ حالات میں بھی ان کے ہاں جو سروے ہوئے ان کے مطابق کشمیری عوام کی نفرت آئے روز بھارت کے حوالے سے بڑھتی جارہی ہے۔۔۔۔یشونت سہناکی سربراہی میں جو کمیٹی بنی ہے کنسرٹ سٹیزن کی۔۔۔ ان کی رپورٹ ہے کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ نہ صرف فاصلہ بڑھ گیا ہے بلکہ نفرت کے اندر شدت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ کشمیری جن کا بھارت کے حوالے سے نرم گوشہ تھا،نام نہاد مین سٹریم پارٹیاں نیشنل،کانگریس اور پی ڈی پی ان کے کارکنوں کے اندر بھی اب بھارت کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہے اور روز بروز یہ بڑھ رہی ہے ۔فاروق عبداللہ نے حال میں ایک انٹرویودیا ہے جس میں کھل کے ان باتوں کا اظہار کیا ہے۔یعنی وہ لوگ جوکہ اس طرح سے تحریک کے ساتھ کمٹٹڈنہیں تھے انہیں بھی احساس ہوا اور سمجھ آیا کہ انہیں بھی دشمن ہی سمجھا جارہا ہے تو اس طرح سے تحریک کا سکوپ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ فاروق عبداللہ کا یہ کہنا کہ سنتالیس میں میرے والد نے غلط فیصلہ کیا تھا۔معنی خیز ہے اور قائد اعظم کے بیانیے کی کا میابی ہے۔تحریک کے حتمی میدان میں کامیابی سے پہلے بیانیہ کی فتح ہوتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا لیکن جو دوسری طرف ہمارا بیانیہ تھا، صلاح الدین احمد کا بیانیہ تھااور امام گیلانیؒ کا بیانیہ تھاتو اس کو تقویت ملی ہے۔ سمجھتا ہوں کہ تحریک کا میدان وسیع ہوگیا ہے۔بھارت کے اندر جو مسلمانوں اور بقیہ اقلیتوں کے ساتھ جو ہورہا ہے۔سادھوں کے کنونشن میں جس میں،بی جے پی کے لوگ موجود تھے اس میں انہوں نے کہا ہمیں مسلمانوں کے ساتھ وہی کرناچاہیے جس طرح برما میں ہوا ہے،اراکان میں ہوا ہے اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ،سکھوں کے ساتھ اور عیسائیوں کے ساتھ وہی کچھ وہ کررہے ہیں،مودی کا چہرہ اس کے نتیجے میں پوری دنیا کے سامنے ہے اور جو فضاء بنی ہے ہمیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اس حد تک کریڈٹ دینا چاہیے جو انہوں نے نازی ازم کی تشریح کرکے دنیا کو باور کرایا ہے کہ آرایس ایس اسی فلسفے کی قائل ہے۔

سوال:مسلم دنیا مودی کے اقدام کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟
ج:میں ترکی میں دوہفتے رہا،وہاں بڑے تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں ہوئی۔یقینا کشمیر کے حوالے سے سارے فکر مند ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے اور آر ایس ایس کے جو عزائم ہیں امت مسلمہ کو ہمیں اس سے باخبر کرنا چائیے۔،پہلے لوگ یقین نہیں کرتے تھے اب بھارت نے جو اقدامات کئے ہیں اس کے بعد انہیں اب سمجھ آنا شروع ہوگیا ہے۔،ایک طرف سعودی عرب اور عرب امارات کے مایوس کن حکومتی فیصلے ہیں لیکن دوسری طرف وہاں ہی سوشل میڈیا کے اوپر بھارت کے خلاف ایک کمپین جاری ہے۔بھارت کا ایک سنگرہے جس نے بی جے پی کے لئے گانے اور ترانے گائے ہیں ابھی ایک کنسرٹ میں شرکت کیلئے دوبئی جانے والا تھا تو سوشل میڈیا پر ایک کمپین چلی کہ یہ تو آر ایس ایس کا اہلکار ہے۔بالآخر حکومت کو اس کا ویزا منسوخ کرنا پڑا۔سعودی عرب،کویت،اور قطر میں بھی سوشل میڈیا کا فیلڈ وسیع ہوگیا۔۔عوامی سطح پر،یہ ہمارے لئے موقع ہے کہ ہمیں اس سے فائدہ اٹھائیں۔۔
سوال: کشمیر ی قیادت کو ان حالات میں آپ کیا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟
ج:۔میں سمجھتا ہوں کہ جو اقدامات مودی نے کئے ہیں،بہت ہی خوفناک ہیں تاہم ہر شر سے اللہ تعالیٰ خیر برآمد کرتاہے۔تو اس سے ایک بڑی خیر ہمارے لیے یہ برآمد ہوئی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو بھارت کے حوالے سے تشویش ہوئی ہے۔بھارت کے اندر ایک رائے عامہ بن رہی ہے۔کشمیر کے اندر ہماری بنیاد وسیع ہورہی ہے۔اب یہ وہ موقع ہے کہ پوری کشمیری قیادت کو کم سے کم متفقہ ایجنڈے پہ کوئی مفامت کرنا ہوگی۔ اپنی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے،اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے۔آر پار جتنا ہمارا آپس میں اتحاد مظبوط ہوگا،کافی فائدہ مند ثابت ہوگا،حریت حلقوں کے اندر جتنا اتحاد ہوگا بلکہ میں کہوں گا اس میں ڈوگرے ہیں،سکھ ہیں یا دوسری اقلیتیں ہیں یا لداخ والے ہیں یعنی جتنے بھی لوگ ہیں اس ساری صورتحال میں ان کو آپس میں ایک طاقت بننا ہوگا۔ بین الاقوامی پریشر بڑھانا اوراس کے ساتھ بھارت کے اندر رائے عامہ کو بھی مودی عزائم سے آگاہ کرنا ہوگا کہ کس طرح اس کے اقدامات اس پورے خطے کے امن کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔
سوال:ترابی صاحب کیا آپ کو یقین ہے کہ کشمیر آزاد ہوگا؟
ج:۔ سو فیصد یقین ہے نہ صرف اس حد تک کہ کشمیر آزاد ہوگا بلکہ بھارت بکھر جائیگا اور مودی کے اقدامات اس بکھرنے کی بنیادی وجہ بنے گی۔ بھارتی صحافی خوشونت سنگھ بہت بڑا دانشور اور بڑے پائے کا مصنف اور رائٹر بھی تھا۔ آج سے بیس پچیس سال اس نے کتاب لکھی تھی (THE END OF INDIA)تو اس نے یہ پیشن گوئی اسی میں کی ہے۔یہ جو فلاسفی اس وقت مودی نے اختیار کی ہے اسی سے انڈیا کا اختتام ہوگا۔ایک جرأت مندانہ اور حکیمانہ پالیسی کی بھی ضرورت ہے ان شااللہ اللہ تعالیٰ نہ صرف کشمیر آزاد ہوگا بلکہ پتہ نہیں اور کتنی اقوام کو آزادی ملے گی۔ ہم بھرپور طوراپنے کارڑ کھیلیں اللہ تعالیٰ کی شائد مشیت بھی اسی میں ہے کہ کشمیر صرف آزاد نہ ہو بلکہ ہر بھارتی مظلوم برہمن کے چنگل سے آزاد ہو۔
٭٭٭