
شیخ محمد امین
مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی توقع رکھنا محض حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے
سید مودودیؒ کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان سرکاری اور قومی سطح پر کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے جہاد کا اعلان کرے
میرے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ سیدعلی گیلانی شہیدؒمیری بات توجہ سے سنتے تھے اور اسے اہمیت بھی دیتے تھے
قاضی حسین احمد ؒ صحیح معنوں میں مجاہدملت تھے پوری امت مسلمہ کا درد ان کے دل میں بھرا ہوا تھا
جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا وہاں اسلام کو اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا ہے
قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں نے اپنے رب سے جو عہد کیا تھا اس عہد سے ہم نے بے وفائی کی اور اس بے وفائی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے
جناب متین فکری پاکستان کے معروف ادیب ،شاعر ،مصنف ،صحافی اور دانشور ہیں ۔پاکستان کے ناموراور مایہ ناز شاعر ،ادیب ،نقاد اور مزاح نگار مرحوم سید ضمیر جعفری نے 1997ء میں متین فکری صاحب کا تعارف چند الفاط میں اس طرح کیا ہے کہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی سمند ر کو کوزے میں بند کردیا ہے ،لکھتے ہیں “جناب متین فکری ایک فکر انگیز شاعر ،نثر نگار اور شفاف ذہن کے صحافی کی حیثیت سے ملک کے ادبی اور صحافتی حلقوں میںعزت و احترام کے ایک بہت بلند مقام پر فائز ہیں ۔وہ ان کمیاب اہل قلم میں سے ہیں کہ ادب اور صحافت کے دونوں قبیلوں میں ان کے مداحوں کا بڑا کثیر حلقہ موجود ہے ۔وہ ہمارے ان شعراء میں سے ہیں جن کا شعرعصری زندگی کی دھوپ چھاوںکی سچی عکاسی اور ترجمانی کرتا ہے اور وہ ہمارے ان صحافیوں میں سے ہیں جن کی نظر کشادہ ہے اور مسائل کو غیر جانبدارانہ انداز میں پرکھنے کی صلاحیت اتم درجے پر رکھتے ہیں پھر قدرت نے ان کو ایک اور بے بہا نعمت یہ عطا کر رکھی ہے کہ ان کے ذہن میں نہ کوئی سلوٹ ہے اور نہ ان کی تحریر میں کوئی جھول ۔بہت کم ادیب ہیں جو اپنے نقط نگاہ کو اتنی سلاست کے ساتھ ،اتنی طاقت اور تاثیر کے ساتھ قاری میں منتقل کرسکیں” اسی طرح برصغیر کے ممتاز کالم نگار اور صحافی ہارون الرشید جناب متین فکری کی زندگی کا احاطہ ان الفاط میں بیان کرتے ہیںکہ “متین فکری الفاط سے زیادہ عمل کے آدمی ہیں ۔۔اپنے کام کا سلیقہ رکھنے والے آدمی ہیں ۔۔وقت جیسے قیمتی متاع کو بے دردی سے لٹانے والے ذہنی مفلسوں اور منتشر اذہان کے ہجوم میں متین فکری ان لوگوں میں سے ایک ہیں ،جو اپنے شب و روز کا حساب رکھتے ہیں اور ہر دن کے ساتھ جن کے خیال و فکر کا خزانہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔متین فکری اسی دنیا کا آدمی ہے ۔اس کی ایک ذات ،نسل اور قبیلہ بھی ہے لیکن وہ ان سب بندھنوں سے اوپر اٹھ کر سوچ سکتا ہے کہ وہ ایک آزاد آدمی ہے ۔بظاہر وہ بہت دھیمی رفتار کا آدمی ہے ،لیکن اس نے ذہن رسا پایا ہے ۔اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ راست فکر آدمی ہے ۔واضح خیالات اور مربوط شخصیت کا آدمی۔ان کی جرات مندانہ اور گرہ کشا تحریریں بے نفسی کی ایسی شہادت ہیں جو مجھے یقین ہے کہ روز جزا اس کے دائیں ہاتھ میں ہونگی”

ماہنامہ کشمیر الیوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ روزنامہ جنگ سے ریٹائر منٹ کے بعد ،متین فکری اس جریدے کے بانی ایڈیٹر ہیں ۔2009تک اس کے ایڈیٹر رہے ۔متین فکری نے تحریک آزادی کشمیر کیلئے قلمی و علمی محاذ پر بے انتہا کام کیا ۔انہیں اگر تحریک آزادی کشمیر کا ترجمان بھی کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔انہیں اس بات کا بڑا دکھ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو کشمیر کی آزادی کیلئے جو کچھ کرنا چائیے تھا وہ کردار انہوں نے ادا نہیں کیا ۔وہ برملا اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بغیرتقسیم برصغیر کا ایجنڈا نامکمل ہے۔کچھ ہفتے پہلے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ان کی ذات اورارد گرد کی صورتحال پر کچھ گفتگو ہوئی ۔جسے قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔(شیخ محمد امین،فاروق احمد )
س:آپ کے خاندان نے کب پاکستان کی طرف ہجرت کی۔آپ نے کس عمر میں مہاجر بننے کا اعزاز حاصل کیا
ج:ہم لوگ متحدہ ہندوستان کے شہر ا لٰہ آباد کے رہنے والے ہیں ۔ اس شہر کو اکبر الٰہ آبادی کی شاعری اور علامہ اقبال کے خطبات کی نسبت سے خصوصی شہرت حاصل تھی۔اس شہر پر اسلامی تہذیب و ثقافت کا غلبہ تھا۔ اور ہندو بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ نہرو خاندان بھی اسی شہر کی شناخت کا باعث تھا۔کشمیری پنڈتوں کا یہ خاندان کشمیر سے آکر یہاں آباد ہوا تھا اور انڈین کانگریس میں اپنی اہمیت کے سبب اسے ممتاز مقام حاصل تھا۔نہرو خاندان کے مسلمانوں سے نہایت خوشگوار مراسم تھے۔اور ان کی بود وباش پر بھی اسلامی چھاپ لگی ہوئی تھی۔میرے والد بتاتے ہیں پنڈت جواہر لال نہرو اپنے مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ہمیشہ” خدا حافظ “کہتے تھے۔ ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت کا ایک مسلمان سے معاشقہ بہت مشہور ہے یہ خاتون اسلام قبول کرنے اور مسجد میں نکاح پڑھوانے پر آمادہ ہوگئی تھیں۔لیکن گاندھی جی کو جونہی اس کی خبر ہوئی انہوں نے ہنگامہ کردیا اور ایسا چکر چلایا کہ یہ شادی ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد وجے لکشمی پنڈت کو امریکہ میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔
ہندوستان اگست 1947 ء میں تقسیم ہوا اس وقت میری عمر چھ سال کے قریب تھی لیکن ہم لوگ پاکستان بننے کے تین سال بعد 1950 ء میں لاہور آئے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ الٰہ آباد میںتقسیم کے وقت کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیںہوا۔میرے بڑے بھائی ریلوے میںملازم تھے اور ان کے محکمے نے ان سے پوچھا کہ وہ الٰہ آباد میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان جانا چاہتے ہیں۔انہوں نے پاکستان کے حق میں رائے دی تھی۔چنانچہ ان کا لاہور تبادلہ کردیا گیا اور وہ 1948 میں لاہور آگئے۔پھر انہوں نے 1950 میںپورے خاندان کا پر مٹ بنوا کر بھیجا اور ہم سب لوگوں نے لاہور ہجرت کی ۔ اس زمانے میں ابھی انتقال آبادی کا عمل جاری تھا اور بھارت و پاکستان کے درمیان ویزہ سسٹم رائج نہیں ہوا تھا بلکہ لوگ خصوصی اجازت ناموں کے ذریعے آجا رہے تھے۔

س: اپنے تعلیمی سفر کے حوالے سے کچھ بتائیے،صحافت کی دنیا میں کب قدم ڈالا؟
ج:میری تعلیم کا سلسلہ تو الہ آباد میں ہی شروع ہوگیا تھا اور وہاں مسجدمیں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کررہا تھا پھر لاہور آگیا ۔اسکول کالج اور یونیورسٹی کے مراحل سے گزرا ۔دوران تعلیم ہی مضمون نگاری بھی شروع کردی تھی میرے مضامین اس زمانے کے مشہور ہفتہ روزہ چٹان میں شائع ہوتے تھے جو نامور ادیب وشاعر آغا شورش کاشمیری کی ادارت میںنکلتا تھا۔میرے مضامین نہایت سنجیدہ اور پرمغز حوالوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کو میںپنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھ کربڑی محنت سے تیار کرتا تھا۔اور یہ مضامین میںبذریعہ ڈاک چٹان کو بھیجتا تھا ۔میری آغا صاحب سے ابھی تک ملاقات نہیںہوئی تھی۔ایک دن میری شامت آئی تو آغا صاحب سے ملنے چٹان کے دفتر پہنچ گیا اس وقت میں بیس سال کا نوجوان تھا لیکن صحت اتنی کمزور تھی کہ سترہ اٹھارہ سال کا نظر آتا تھا۔ آغا صاحب نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا ’’لڑکے کیا کام ہے ؟ میںنے کہا ،میرا نام متین فکری ہے اور میں آپ کے رسالے کے لئے مضامین لکھتا ہوں ‘‘وہ یہ سن کر ہنسے اور چٹان کے منیجنگ ایڈیٹر خواجہ صادق کو جو ان کے برادر نسبتی تھے آواز دیتے ہوئے کہا ’’یہ لڑکا علامہ متین فکری بن رہا ہے اس کی خبر لو‘‘خواجہ صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی میز پر لے گئے اور کہا برخوردارتمہیں علامہ صاحب بننے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے میں نے کہا میں ہی متین فکری ہوں ۔آپ میرا امتحان لے لیجئے ۔انہوں نے میرا تازہ ارسال کردہ مضمون میز کی دراز سے نکالا اور پوچھا تم نے کون سامضمون بھیجا تھا اس کا عنوان کیا ہے مجھے مضمون زبانی یاد تھا میں نے فرفر سنا دیا اس پر وہ حیران ہوئے لیکن انہیں یقین آگیا کہ میں ہی متین فکری ہوں۔ انہوں نے آغا صاحب سے کہا کہ یہی لڑکا متین فکری ہے اس پر آغا صاحب نے مجھے سمجھایا کہ اتنے مشکل اور اق مضامین لکھنے کی ضرورت نہیں ہلکے پھلکے اور دلچسپ مضامین لکھا کرو تاکہ تمہاری لکھنے کی صلاحیت نشو ونما پائے۔میں نے ان کی یہ بات پلے باندھ لی ۔میں نے اپنے صحافتی کئیریر کا باقاعدہ آغاز ہفتہ روزہ ’’ایشیا‘‘سے کیا جس کے ایڈیٹر برصغیر کے نامور صحافی ادیب وشاعر ملک نصراللہ خان عزیز تھے۔ ان کی زبان دانی کے لیے یہ واقعہ ہی کافی ہے کہ وہ لاہور سے جاکر بجنور کے سہ روزہ ’’مدینہ ‘‘ کے مدیر ہوئے جس کی ادارت بعد میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی کی ۔میں نے جب ایشیا میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو ملک نصراللہ خان عزیز اگر چہ اس کے مدیر اعلیٰ تھے لیکن یہ پرچہ ممتاز افسانہ نگار اور ادیب محترم جیلانی بی اے کی ادارت میں نکل رہا تھااور وہی اس کے کرتا دھرتا تھے۔انہوں نے مجھے ایشیا کے دفتر میںبلایا اور بات چیت کے بعد سمن آباد میں ملک نصراللہ خان عزیز کے پاس بھیج دیا ۔انہوں نے ٹھونک بجا کر میرا انٹرویو لیا اور ایشیا کے نائب مدیر کی حیثیت سے میری تقرری کی منظوری دے دی۔میں ہفتہ روزہ ایشیا میں کم و بیش دس سال تک کام کرتا رہا اس کے بعد جیلانی صاحب ہی کوششوں سے روز نامہ جنگ راولپنڈی میںبطور سب ایڈیٹر میرا تقرر ہوگیااور میں لاہور سے راولپنڈی آگیا۔1970 میں لاہور میںشادی ہوچکی تھی راولپنڈی میں میری آمد کا سال 1975 ہے۔ میں جنگ اخبار میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتا رہا۔ 2001 میں ۔۔میں نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ اس کے بعد سات آٹھ سال تحریک آزادی کشمیر کے ترجمان جریدے سے وابستہ رہا جو میرے زمانے میں ہفتہ روزہ تھا اس کے بعد اب وہ ماہنامہ کشمیرالیوم کے نام سے شائع ہورہا ہے ۔اس کے بعد جسارت میں کالم لکھ رہا ہوں ۔
س :سید مودودی رحم اللہ سے کب پہلی ملاقات ہوئی۔۔۔آپ نے سید مودودی رحم اللہ کی قربت میں بھی کچھ وقت گزارا ہے۔۔کچھ یادگار لمحات اس سفر کے۔۔: رکن جماعت کب بنے؟
ج: سید مودودیؒ سے میری ملاقات ہفت روزہ ایشیا میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہوئی ۔سید صاحب نماز عصر کے بعد عام لوگوں سے ملاقات کرتے تھے اور جس کوٹھی میں وہ رہائش پذیر تھے وہیں جماعت اسلامی کے مرکزی دفاتر بھی تھے۔سید صاحب نماز عصر کے بعد کوٹھی کے سبزہ زار میں ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتے تھے اور ان کے دونوں اطراف میں کرسیاں لگا دی جاتی ہیں جن پر آنے والے بیٹھتے تھے۔ یہیں میں نے سردار عبدالقیوم خان،علامہ احسان الٰہی ظہیر،ائر مارشل اصغر خان ،نواب مشتاق احمد گورمانی اور بہت سے دیگر اکابرین کو سید صاحب سے ملاقات کرتے دیکھا۔مجھے یاد ہے کہ 1970 میں آزاد کشمیر کے صدارتی انتخابات میں جب مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان کو کامیابی ملی تو وہ اپنی پہلی فرصت میں مظفر آباد سے لاہور آئے اور عصری مجلس میں سید مودودیؒ سے ملاقات کی۔ان کی کامیابی کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ اس لئے سید صاحب نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا اور صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی۔ سردار صاحب کہنے لگے کہ یہ کامیابی صرف میری نہیںبلکہ آپ کی اور جماعت اسلامی کی کامیابی بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر میں وہی کام کررہی ہے جو جماعت اسلامی پاکستان میںکررہی ہے ۔ سید صاحب نے سر ہلا کر ان کی تائید کی لیکن پھر جب کافی عرصہ بعد آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم کی گئی تو مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا۔مجھے سید مودودی ؒکے ساتھ سفر کرنے کا بھی اتفاق ہوا جب جنرل ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی بحالی جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی تو سید مودودیؒ نے اس سلسلے میں کئی شہروں کا دورہ کیا تھا۔ جماعت کے دیگر رفقاء اور صحافیوں کے ساتھ میںبھی سید صاحب کا رفیق سفر رہا۔مجھے یاد ہے کہ ان جلسوں میں سید مودودیؒ واحد مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے تھے۔یہ جلسے بالعموم رات میں عشاء کے بعد ہوتے تھے اور دیر تک جاری رہتے تھے۔سرگودھا میںایک جلسہ تھا جس کی صدارت مسلم لیگ کے نواب زادہ افتخار انصاری نے کی تھی مجھے یاد ہے اس جلسے میںسید مودودی ؒنے جنرل ایوب خان کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے غالب کا یہ شعر پڑھا تھا
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس زمانے میں امریکی ڈالر چھ روپے میںآتا تھا اور اپوزیشن اس بات پر معترض تھی کہ یہ چھ روپے کا کیوں ہے اسے تو ایک روپے کا ہونا چاہیے اندازہ کیجئے کہ اب یہی ڈالر تین سو روپے سے زیادہ ہے اور ہماری آنکھیں بند ہیں۔رکن جماعت تو میں بہت بعد میں غالباََ 1980 کی دہائی میں روز نامہ جنگ کی ملازمت کے دوران بنا ۔

س: سید کی جماعت اور آج کی موجودہ جماعت میں کچھ فرق یا کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے؟
ج:سید مودودی ؒکی جماعت اسلامی اور آج کی جماعت اسلامی میںفرق بہت واضح ہے اس زمانے میں اہل علم کی ایک کہکشاں تھی جو جگمگا رہی تھی اس زمانے میںجماعت اسلامی کا نظریاتی لٹریچر تیار ہوا جو آج تک کارکنوں کی رہنمائی کررہا ہے اور جماعت اسلامی کو دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ اس لٹریچرنے جماعت اسلامی کو تحریک اسلامی کی شکل دی ہے اور یہ تحریک پوری دنیا میںجاری ہے ۔اسلامو فوبیا کے مقابلے میںاس تحریک کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور بہت اہم لوگ اسلام قبول کررہے ہیں کہا جاتا ہے کہ موجودہ اور آنے والی صدی یورپ میںاسلام کی صدی ہے اس کو جتنا دبایا جائیگا اتنا ہی یہ پھیلے گا لیکن افسوس! مسلمان ملکوں میں کوئی ایسی قیادت موجود نہیںہے جو احیائے اسلام کے عمل کو آگے بڑھا سکے۔پاکستان کا حال بھی بہت پتلاہے۔
جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا وہاں اسلام کو اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا ہے ،ہم اسلام کی رسی کو تھام کر ہی ترقی کی منزلیں طے کرسکتے تھے۔اسے چھوڑ نے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا وجود ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے اور کرپشن نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔مختصر یہ کہ قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں نے اپنے رب سے جو عہد کیا تھا اس عہد سے بے وفائی کی اور اس بے وفائی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے پاکستان اقوام عالم میںذلیل ہورہا ہے۔
س:کشمیر کے حوالے سے سید مودودی ؒ کے کیا جذبات تھے؟
ج: کشمیر کے حوالے سے سید مودودیؒ کے جذبات بہت شدید تھے وہ ا سے پاکستان کا حصہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان سرکاری اور قومی سطح پر کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے جہاد کا اعلان کرے وہ پرائیویٹ جتھوںکی طرف سے مقبوضہ کشمیر میںجہاد کو شرعاََ درست نہیں سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان پر جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دینے کا الزام لگایا گیا اور خود حکومت نے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا ،حالانکہ سید مودودی ؒ جہاد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے پرجوش حامی تھے۔انہوں نے 1965 کی جنگ میں جنرل ایوب خان کی حمایت کا غیر مشروط اعلان کیا تھا لیکن جب وہ تاشقند میں مذاکرات کی میز پر مسئلہ کشمیر سے پیچھے ہٹ گئے تو سید مودودیؒ نے اس پر کڑی تنقید کی ۔
س: آپ کا شہید سید علی گیلانیؒ کے ساتھ ایک قریبی تعلق تھا۔آپ ان کے ساتھ کھل کر والہانہ محبت کا اظہار بھی کرتے تھے۔کوئی خاص وجہ
ج:سید گیلانی شہید کے ساتھ بالمشافہ ملاقات تو نہیں ہوئی البتہ ان سے ٹیلیفون پر رابطہ ضروررہا۔میرے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ وہ میری بات توجہ سے سنتے تھے اور اسے اہمیت دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میںامریکا کے دبائو پر مسئلہ کشمیر کو سائیڈلائن کرکے بھارت سے دوستی کی باتیں شروع ہوئیں اور سرینگر تامظفرآباد دوستی بس کا منصوبہ بنایا گیا تو مشرف حکومت کی شدید خواہش تھی کہ پہلی بس میں دیگر کشمیری رہنمائوں کے ساتھ سید گیلانی بھی ضرورآئیں تاکہ اس منصوبے کا اعتبار و اعتماد قائم ہوسکے۔جماعت اسلامی بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اور وہ گیلانی صاحب کی پاکستان آمد کو بہت مفید سمجھتی تھی اس کے لیڈروں نے گیلانی صاحب سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ان پر زور دیا کہ وہ دوستی بس کے ذریعے پاکستان ضرور آئیں۔ پاکستانی عوام ان کے شدت سے منتظرہیں اور انہیںاپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔ابھی یہ بحث چل رہی تھی اور گیلانی صاحب گومگو کی کیفیت میںتھے کہ میںنے انہیں ایک خط لکھ دیا جس میں ان کی متوقع آمد پر میں نے غیر معمولی مسرت کا اظہار کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ دوستی بس دراصل امریکی منصوبہ ہے جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے ۔کیا آپ اس منصوبے کا حصہ بننا پسند کریں گے؟ میرا خط انہیں موصول ہوا تو انہوں نے فوراََ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا جس میں اس خط پر غور کیا گیا اور بالآخر یہی طے پایا کہ گیلانی صاحب دوستی بس کے ذریعے مظفر آباد نہیں جائیں گے۔گیلانی صاحب خود کو پاکستانی سمجھتے تھے اور انہیں بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان آنا کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ ان کے انکار کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی۔ بہر کیف دوستی بس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ گیلانی صاحب کی زندگی کا منشور علامہ اقبال کے اشعار میںیوں بیان کیاجاسکتا ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلئہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناراض
میں زہر ہلاہل کوکھبی کہہ نہ سکا قند
گیلانی صاحب جب تک زندہ رہے امید کی شمع اپنے دل میںفروزاں رکھی ۔ایک مومن کی حیثیت سے وہ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیںہوئے یہی امید کی شمع آج کشمیریوں کے دل میں فروزاں ہے اور وہ بھارتی جبر کے مقابلے میںڈٹے ہوئے ہیں۔

س: آپ کی طویل صحافتی خدمات ہیں،کشمیر کی موجودہ صورتحال پر آپ کیا تبصرہ کریں گے،آپ کے خیال میں کس پاکستانی سیاست دان کومسئلہ کشمیر کے حوالے سے مخلص،سنجیدہ اور کمیٹڈپایا؟
ج:میرے خیال میں صرف قاضی حسین احمدؒ ہی وہ سیاستدان ہیں جو مسئلہ کشمیر پر انتہائی سنجیدہ ،مخلص اور کمٹڈ تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ صرف جہاد کے ذریعے ہی کشمیر کو آزاد کرایا جاسکتا ہے۔وہ صحیح معنوں میں مجاہدملت تھے پوری امت مسلمہ کا درد ان کے دل میں بھرا ہوا تھا۔ سابق سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ پہلے لیڈر تھے جو افغان عوام کی مدد کو پہنچے ،انہوں نے باربار کابل کا خفیہ دورہ کیا ۔افغان مجاہدین کو منظم کیا،پشاور میں اپنا مکان ان کے لیے وقف کردیا۔جنرل ضیاء الحق تو بہت بعد میں اس میں شامل ہوئے ،بعد میں ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ نے افغان جہاد کو ہائی جیک کرلیا۔ لیکن روس کے خلاف افغان جہاد کو منظم کرنے کا سہرا قاضی حسین احمد کے سربندھتا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاد کو اسی انداز سے منظم کرنا چاہتے تھے ،سب سے پہلے نواز شریف نے جو اس وقت وزیر اعظم تھے ان کوششوں کو سبوتاژ کیا ،پھر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے دبائو پر جہاد کشمیر پر پابندیاں لگائیں ۔۔۔اس طرح مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں کمزوری کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں،قاضی حسین احمدؒ نے اپنی کوششوں میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین
س: بعض مبصرین کے خیال میں کشمیر پر پاکستان کی کمزور پالیسی نے الحاق پاکستان کی آپشن کو کافی حد تک کمزور کیاہے،کیا پاکستان کشمیر کے بغیر زندہ رہ سکتاہے؟
ج:پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے متعدد مواقع ضائع کیے ہیں اور یہ مواقع وہ تھے جن میں پاکستان اپنی طاقت کو بروئے کار لا کر ریاست جموں و کشمیر کو اپنا حصہ بناسکتا تھا لیکن پاکستانی قائدین نے اپنی بے تدبیری سے یہ مواقع ضائع کردیے۔ سب سے پہلا موقع تووہ تھا جب تقسیم ہندوستان کے فوراََ بعد کشمیری عوام اپنی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور قبائلی مجاہدین بھی ان کی مدد کو آپہنچے تھے۔ کشمیر کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بھارت جنگ بندی کی اپیل لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیاتھااس نے عالمی ادارے کو یقین دلایا کہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیر ی عوام کو حق خودارادی کے ذریعے انہیں ان کا جائز حق دیدیا جائیگا ۔پاکستانی قیادت دوراندیش ہوتی تو بھارت کے جھوٹے دعوے پر اعتبار کرنے کے بجائے جنگ اس وقت تک جاری رکھتی جب تک سرینگر پر پاکستان کا قبضہ نہ ہوجاتا،بھارت اس وقت نہایت کمزور پوزیشن میں تھا۔ پاکستان سرینگر ائر پورٹ پر قبضہ کرکے بھارت کی کشمیر پر قبضے کی کوشش ناکام بناسکتاتھالیکن پاکستانی قیادت کے پاس کشمیر کو آزاد کروانے کی کوئی پلاننگ نہ تھی وہ بھارت کے جال میں آگئی۔دوسرا موقع 1962 میں چین نے پاکستان کو فراہم کیا جب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری تھیں اور بھارت کی فوج چین کے ساتھ الجھی ہوئی تھی ایسے میںچین کے وزیراعظم چواین لائی نے صدر جنرل ایوب خان کو پیغام بھیجا تھا کہ ہم نے بھارتی فوج کو انگیج (Engage)کررکھا ہے تم فوج کشی کرکے کشمیر کو بھارتی قبضے سے چھڑالو۔اس پیغام کی سن گن برطانیہ اور امریکہ کولگ گئی ۔ان کے سفارتی نمائندوں نے صدر ایوب کوگھیر لیا اور انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ وہ فوجی آپریشن نہ کریں ہم بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرادیں گے۔صدر ایوب ان کے فریب میں آگئے اور بھارت کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہوگیا ،پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی طرف سے وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ اپنے اپنے وفود کی قیادت کررہے تھے ۔یہ لایعنی مذاکرات چھ ماہ تک جاری رہے اس دوران بھارت چین سرحد پر حالات معمول پر آگئے اور پنڈت نہرو نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ممتاز نومسلم دانشور علامہ محمد اسد نے اپنی یادداشتوں میں انکشاف کیاہے کہ جنگ بندی کے بعد پاک فوج کے چند افسروں نے پونچھ کے راستے بھارت کو کشمیر سے بیدخل کرنے کی پلاننگ کی تھی اس سیکٹر میںبھارت کی پوزیشن بہت کمزور تھی اور وہ پاک فوج کی یلغار کا سامنا نہیں کرسکتا تھا لیکن قبل اس کے کہ فوج پیش قدمی کرتی بھارت کو اپنے انٹیلی جنس ذرائع سے پاک فوج کی خفیہ نقل و حرکت کا پتہ چل گیا اس نے حملے کو رکوانے کے لئے برطانیہ سے رابطہ کیا ۔برطانیہ نے سرظفر اللہ خان کے ذریعے وزیر اعظم لیاقت علی خان پر دبائو ڈالا ۔واضح رہے کہ سرظفر اللہ لیاقت کابینہ میں وزیر خارجہ تھے ۔علامہ اسد نے لکھا ہے کہ اس حملے کے منصوبہ ساز میجر جنرل حمید تھے وہ لیاقت علی خان کے حکم سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ فوج چھوڑ کر گھر چلے گئے۔میں نے فوجی طاقت کے ذریعہ کشمیر بازیاب کرانے کے تین تاریخی مواقع کا ذکر کیاہے جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے آئے جب کشمیر کو بزور قوت آزاد کرایا جاسکتا تھا لیکن پاکستان کی عسکری قیادت ہمت نہ کرسکی اور وہ مواقع ضائع ہوگئے۔ البتہ جنرل ضیاء الحق سے امید تھی کہ وہ یہ کام کرگزریںگے اس پر انہوں نے کام بھی شروع کیا تھا کہ امریکا نے انہیں طیارے کے حادثے میں مروادیا۔ ایک اور موقع اس وقت آیا جب کشمیر میں جہاد کو فروغ حاصل ہوا ۔افغانستان سے سوویت یونین کی بصد رسوائی پسپائی کے بعد مجاہدین کشمیر کے حوصلے بلند تھے کہ وہ بھارت کو بھی اس طرح مقبوضہ کشمیر سے نکالنے میںکامیاب ہوجائیں گے لیکن امریکہ میںنائن الیون برپا ہوگیا اور سار منظر نامہ ہی بدل کررہ گیا۔ تاہم یہ غنیمت ہے کہ جہاد کشمیر سے پاکستان کی لاتعلقی کے باوجود مقبوضہ کشمیر میںجہاد اب بھی کسی نہ کسی صورت میںجاری ہے اور کشمیری عوام بھارت کے مقابلے میںڈٹے ہوئے ہیں۔اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حالات کسی وقت بھی پلٹا کھاسکتے ہیں۔ قرآن کا یہی پیغام ہے کہ ہمیں کسی حال میںبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔سید علی گیلانی ؒ بھی اپنی جد وجہد سے یہی پیغام دے گئے ہیں ،انہیں کشمیر کی آزادی کا ایسا ہی یقین تھا جیسے سورج کے مشرق سے نکلنے کا۔اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
س:پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کے لیے تیار ہے،موجودہ حالات میں کیا کشمیر کے سلگتے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابھی بھی کوئی امکان نظر آرہا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے سو سے زائد ادوار گذرچکے ہیں جن سے کوئی نتیجہ آج تک سامنے نہیں آیا؟
ج:آپ نے پوچھا ہے کہ کیا مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جاسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی توقع رکھنا محض حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکڑوں بار مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن ان میں کشمیر تو کیا کشمیر کا کاف بھی زیر بحث نہیں آیا ۔ بھارت ابتداہی میں یہ کہہ دیتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اس پر بات نہیںہوسکتی البتہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی پر بات ہونی چاہیے۔اس طرح کشمیر کو چھوڑ کردیگر موضوعات پر مذاکرات چلتے رہتے ہیں لیکن اس کا بھی کبھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اس لیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بے اعتمادی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے جب تک یہ وجہ دور نہیں ہوتی بے اعتمادی برقرار رہے گی۔ یاد رکھیے مسئلہ کشمیر کبھی مذاکرات سے حل نہیں ہوگا یہ صرف اور صرف طاقت سے حل ہوسکتا ہے ۔ اگر پاکستان کے بازئووں میںطاقت ہے اور وہ بھارت سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے تو مسئلہ کشمیر آج حل ہوسکتا ہے۔

س:او آئی سی ( OIC) آج تک کشمیر مسئلے پر صرف قرادادیں اور اعلامیے پاس کر تی رہی ہیں،کیا اس سے بڑھ کر او آئی سی کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟
ج:او آئی سی کے بارے میں اتنا عرض کردوں کہ جس طرح تمام مسلمان ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں اسی طرح ان کی یہ تنظیم بھی امریکہ کے اثر میں ہے اور وہی اس کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ او آئی سی کو امریکہ نے جتنی آزادی دے رکھی ہے اتنی آزادی یہ تنظیم خوب بروئے کار لارہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی حدود کیا ہیں اور وہ ان مسائل میں کس حد تک اپنی آزادی برت سکتی ہے۔ اس لیے کشمیر کے معاملے میں اس سے کسی مئوثر کردارکی توقع رکھنا ایک لایعنی بات ہے۔ ہاں اگر یہ صحیح معنوں میں ایک آزاد و خودمختار تنظیم ہوتی تو یہ بھارت کا سفارتی و اقتصادی بائیکاٹ کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی تھی۔ فلسطین کے معاملے میںبھی یہ تنظیم شدید منافقت کاشکار ہے،اس کے متعدد رکن ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں یا خفیہ طور پر رابطے میں ہیں حتیٰ کہ سعودی عرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ وہ بس زبانی فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کرتے ہین ورنہ ان کے دل یہودیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ بھارت نے سفارتی سطح پر عرب ملکوں میں بڑا کام کیا ہے اس نے وہاں زیادہ ترمسلمان سفیر تعینات کیے ہیں جو عربی جانتے ہیں اور عرب عوام کے ساتھ رابطے میںرہتے ہیں۔وہ انہیں یہ بتاتے رہتے ہیں کہ بھارت میںمسلمانوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے اور وہ اپنے مذہب کے مطابق سکون کی زندگی گزاررہے ہیں اسی طرح کشمیری مسلمان بھی بھارت کے ساتھ خوش ہیں۔یہ پاکستان ہے جس نے کشمیر کا مسئلہ شروع کررکھا ہے اور دنیا کو گمراہ کررہا ہے۔ان ملکوں میں ہندئووں کے ساتھ بھارتی مسلمانوںکی بڑی تعداد کام کررہی ہے وہ بھی اپنے ملک کی مثبت تصویر پیش کر تے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ان ملکوں میں پاکستانی سفیر تعینات کیے جاتے ان میںاکثر کو عربی نہیںآتی۔وہ عرب عوام سے کیا وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں سے بھی رابطہ نہیںرکھتے ۔اس طرح پاکستان نے خود عرب ملکوں میں اپنا کیس ہار دیا ہے۔ عرب عوام کو مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہی عدم دلچسپی عرب حکومتوں کوبھی ہے۔
٭کشمیر الیوم کے قارئین کیلئے آپ کا پیغام
ج:کشمیر الیوم ایک نظریاتی پرچہ ہے ۔میرا کشمیر الیوم کے قارئین کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ اس کے نظریے کے ساتھ جڑے رہیں اور اپنے دل میں امید کا نغمہ گنگناتے رہیں کہ
یہ نغمہ فصل ِگل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہوکہ خزاںلاالہ الاللہ
٭ ٭ ٭
معرکہ کربلا آج بھی برپا ہے!
مشہور شاعر فرزدق کوفہ سے آتے ہوئے راستے میں حضرت حسین ؓ سے ملا۔ اس نے کہا:حضرت! کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ اور تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ـ نواسہ رسولﷺ نے کلمہ حق بلند کرنے کےلئے تلواروں کی پرواہ نہیں کی۔ بہت بڑی قربانی دے کر ثابت کردیا کہ نااہل کی حکومت تسلیم نہیںکی جاسکتی۔اہل حق کی تعریف آج بھی کی جاتی ہے، مگر حمایت یزیدوں کے ساتھ ہے!
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ زیاد کی جفا رہی
جو رہا تو نام حسین ؓ کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا!
(حافظ محمد ادریس دامت برکاتہم)