
بلال احمد خان فاروقی
جنوری 5، پاکستان اور کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے جب اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل غیر جانبدارانہ اور آزادانہ استصواب رائے ہے جس میں کشمیر کی عوام کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔(بحوالہ دستاویز نمبر 5/1196)۔ ہم ویسے تو بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ کشمیری تقسیم ہند کے وقت سے آزادی کیلئے جد ہ جہد کر رہے ہیں لیکن کشمیر کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری ایک دو صدیوں سے نہیں بلکہ ہزاروں بر س سے غیر ملکیوں کے زیر تسلط ہیں اور حق خود ارادی کیلئے ترس رہے ہیں۔قبل از مسیح دور میں کشمیر ”اشوکا“ سلطنت کے زیر انتظام تھا۔ اس وقت یہاں پر رہنے والوں کا مذہب ہندو، اور پھر بدھ مت تھا۔ نویں صدی میں یہ لوگ ”شیو“ کے پیروکار بن گئے۔تیرہ سے پندرہ عیسوی صدی کے درمیانی برسوں میں وسطی ایشیا اور ایران سے آنیوالے بزرگان دین کے زیر اثر کشمیر کی اکثر آبادی مسلمان ہو گئی۔ 1339 میں ”شاہ میر“ کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران بنے،جن کے بارے میں تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ ترک یا فارس نسل کے تھے۔ بہر حال اس خاندان نے دو سو برس سے زیادہ کشمیرپر حکمرانی کی۔ 1586 میں مغل شہنشاہ اکبر نے کشمیر پر قبضے کی کوشش کی۔ اس وقت کے کشمیر کے حکمران،”یوسف شاہ چک“ کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اکبر جنگ تو نہ جیت سکا، لیکن مذاکرات کے بہانے یوسف شاہ چک کو اپنا مہمان بنایا اور قید کر لیا۔اسطرح کشمیر مغل سلطنت کے زیر نگیں آ گیا۔ مغل سلطنت کے کمزور ہونے کے بعد 1751 میں کشمیر پر افغانوں (درانی خاندان)نے قبضہ کر لیا جو 1819 تک قائم رہا جب کشمیر کی حکمرانی سکھوں نے چھین لی۔ 1846 میں ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ نے سکھوں کو شکست دیدی۔ اس جنگ میں ایک ڈوگرہ ”گلاب سنگھ“ نے انگریزوں کا ساتھ دیا، جس کے انعام کے طور پر انگریزوں نے کشمیر کی وادی بمعہ لاکھوں انسانوں کے گلاب سنگھ کو 75 لاکھ روپے میں فروخت کر دی۔ ادا کئے گئے پیسے پورے کرنے کیلئے ڈوگرہ راج نے کشمیری مسلمانوں پر نئے نئے ٹیکس لگائے اور انھیں مجبور کیا کہ وہ آئندہ ہونے والی تمام جنگوں میں انگریز کی جانب سے حصہ لیں۔ ان میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی شامل تھیں۔کشمیر کی مسلمان آبادی نے اس غیر قانونی ”فروخت“ کیخلاف پہلے دن سے احتجاج شروع کر دیا جسے کچلنے کیلئے اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ ”گلینسی کمیشن“ کی رپوٹ (شائع شدہ اپریل 1932) میں تسلیم کیا گیا کہ اس وادی کی اکثریت آبادی یعنی مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ 1932 میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس نے ”جموں کشمیر مسلم کانفرنس“ کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کیلئے ایک پلیٹ فارم سے جدو جہد کی جا سکے۔ 1939 میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کا نام ”نیشنل کانفرنس“ رکھا دیا۔ 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان پیش کی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ پاکستان کا وجود کشمیر کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ 1941 میں چوہدری غلام عباس نے نیشنل کانفرنس سے الگ ہو کر مسلم کانفرنس دوبارہ بحال کی اور پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی۔ جولائی 1946 راجہ ہری سنگھ نے وعدہ کیا کہ کشمیر کے لوگ (مسلمان) اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ جنوری 1947 میں ہونیوالے الیکشن میں کشمیری عوام نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مسلم کانفرنس کو 21 میں سے 19 نشستیں دیں۔ 19 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس کا کنونشن ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا جائے۔ مسلم اکثریت اور مندرجہ بالا قرارداد کے باوجود کشمیر کے غیر مسلم راجہ نے کشمیری عوام کی امنگوں کا احترام نہیں کیا۔ تنگ آ کر کشمیری عوام نے آخر کار 23 اگست 1947 کو سردار عبدالقیوم کی سربراہی میں آزادی کشمیر کی مسلح جد و جہد کا آغاز کیا۔ 30 ستمبر 1947 کو نہرو نے کہا کہ کشمیر اور دیگر ریاستوں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کرنے کا حق دیا جانا چاہئیے۔ لیکن نہرو کا یہ اعلان ایک اور جھوٹا وعدہ اور ڈھکوسلا تھا اور 26 اکتوبر 1947کو مہاراجہ کشمیر نے رات کی تاریکی میں بھارت کے ساتھ الحاق کا غیر قانونی معاہدہ کر لیا۔ اور اگلے ہی روز بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی، اور ایسی داخل ہوئی کہ اب تک موجود ہے۔ 31 دسمبر کو بھارت خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لے گیا جسکے نتیجے میں اقوام متحدہ میں قراردادیں (نمبر 38,39,47)منظور کی گئیں جن میں کہا گیاہے کہ کشمیر ی عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے۔
آپریشن جبرالٹر اور 1965 کی پاک بھارت جنگ۔ 1966 معاہدہ تاشقند، اور 1972 میں شملہ معاہدہ۔ بار بار کشمیریوں کو حق خود ارادی دینے کے وعدے کرتے کرتے اندرا گاندھی نے فروری 1975 میں شیخ عبداللہ کو وزیر اعلیٰ کشمیر کا عہدہ دے دیا جس کے بدلے میں اس نے کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ تسلیم کرتے ہوئے ذاتی مفاد اور عہدے کیلئے لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں اور آزادی کا سودا کر لیا۔ 1987-90 کے دوران کشمیریوں نے اپنے خون سے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونکی۔ جون 2010 میں طفیل احمد کی شہادت کے بعد کئی ماہ تک کشمیر میں احتجاج جاری رہا جس میں کشمیر کا بچہ بچہ شریک تھا۔ 8جولائی 2016 برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک سینکڑوں کشمیری بار بار اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا سے پوچھ رہے ہیں کہ تمام دنیا کے ہر انسان کو آزاد رہنے کا حق ہے، تو کشمیر یوں کو آزاری کیوں نہیں ملتی؟ لیکن مغربی طاقتیں اور دیگر اقوام عالم بھارت سے منسلک اپنے معاشی اور سیاسی مفادات اور اسلام دشمنی کی بنا پر ان تمام بھارتی مظالم کی جانب سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی رہی سہی علامتی حیثیت بھی ختم کر نے کا اعلان کر دیا جس کے بعد سے کشمیر میں مکمل ”لاک ڈاؤن“ ہے۔ مکمل کرفیو۔ فون انٹر نیٹ سب بند۔ کوئی نہیں جانتا کہ کشمیریوں کا کیا حا ل ہے؟ کتنی قتل و غارت ہوئی ہے؟ کتنے کشمیری روز شہید کیے جا رہے ہیں؟ اور اس سب سوالات کے جواب میں ہم ”گفتارکے غازی“ اقوام متحدہ میں تقریر یا ہر برس یوم یک جہتی کشمیر منا لینے کو کشمیریوں کے زخموں کا مرہم سمجھ کر خوش بیٹھے ہیں۔ کیا ٹوئیٹر، سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر پیغامات سے ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے؟ ہم کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ تو کہتے ہیں لیکن جب ہماری شہہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے تو ہم اپنے آپکو کیسے آزادی کہ سکتے ہیں اور کیسے آزادی مناتے ہیں؟ میں جنگ کا نہیں کہتا لیکن جنگ کے خوف کو امن کی خواہش کا نام دے کر کسی بھی طرح کا کوئی بھی ”عملی اقدام“ نہ کرنے کو ہم کیا کہیں؟
بلال احمد خان فاروقی صدر جموں کشمیرانٹرنیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ آزاد کشمیر شاخ
٭٭٭