جنگ، بحران اور صحافت: ایک فکری سفر کی روداد

شیخ محمد امین

جب دنیا کے کسی کونے میں گولہ باری ہوتی ہے، ٹینک چلتے ہیں، بارود پھٹتا ہے اور انسان بستیاں چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں تب صرف فوجی، سیاستدان یا امدادی کارکن ہی میدان میں نہیں ہوتے؛ ایک اور کردار بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر منظرِ عام پر آتا ہےجسے عرف عام میں صحافی کہتے ہیں۔ ایسا صحافی جو صرف خبر کی تلاش میں نہیں، بلکہ تاریخ کی آنکھ اور انسانیت کی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ یہی موضوع تھا بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (ICRC) اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی دو روزہ ورکشاپ کا، جو “ہنگامی حالات اور مسلح تصادم میں صحافت کا کردار” کے عنوان سے منعقد ہوئی۔

یہ ورکشاپ، محض ایک تربیتی نشست نہ تھی بلکہ ایک فکری و اخلاقی تجربہ تھی، جس نے صحافت کو نئی آنکھ سے دیکھنے اور برتنے کی دعوت دی۔ جہاں ایک طرف یہ احساس ہوا کہ صحافی ہونا صرف لفظوں کا کھلاڑی بننا نہیں بلکہ ضمیر، حساسیت، قربانی اور انسان دوستی کے اصولوں پر کاربند ہونا بھی ہے؛ وہیں دوسری طرف یہ بھی سمجھ میں آیا کہ ایسے نازک حالات میں رپورٹنگ کا مطلب صرف “کون جیتا، کون ہارا” بتانا نہیں، بلکہ وہ دکھ سنانا بھی ہے جسے اکثر دنیا نظر انداز کر دیتی ہے۔ورکشاپ کے مختلف سیشنز میں نامور ماہرینِ تعلیم، ابلاغ اور بین الاقوامی امور نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر ندیم فرحت گیلانی، ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی، ڈاکٹر یاسر ریاض، ڈاکٹر ثاقب جواد اور دیگر ماہرین شامل تھے۔ ان تمام افراد نے اپنے خطاب میں محض اعداد و شمار اور معلومات فراہم نہیں کیں، بلکہ صحافت کے اخلاقی اور انسانی پہلوؤں پر نہایت بصیرت افروز گفتگو کی۔

ڈاکٹر گیلانی نے ابلاغ کی اخلاقیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صحافت وہ ہنر ہے جس کا اولین مقصد “خبر دینا نہیں، حق ادا کرنا” ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی نے انسان دوستی کے اصولوں کو بنیاد بنا کر یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر ایک صحافی، فریقین کے بیانیے سے بلند ہو کر متاثرین کی زبان بن جائے تو وہ دنیا کے لیے ایک آئینہ بن سکتا ہے۔ڈاکٹر یاسر ریاض نے صحافت اور بین الاقوامی انسانی قانون کے درمیان تعلق واضح کیا، جبکہ ڈاکٹر ثاقب جواد نے ڈیجیٹل صحافت اور غلط معلومات (disinformation) کے پھیلاؤ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جنگی حالات میں “جھوٹ” صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک ہتھیار بن جاتا ہے، جو انسانوں کی زندگیاں اور صورتحال کو بدل دیتا ہے۔
ورکشاپ کے انتظامات مثالی تھے۔ جناب باصل قریشی اور ان کی ٹیم کی سنجیدہ کاوش، وقت کی پابندی، پروفیشنل ماحول، اور مہمان نوازی ہر مرحلے پر نمایاں تھی۔ ہر سیشن نہ صرف علمی لحاظ سے بھرپور تھا بلکہ اس میں شرکاء کو سوالات، مشاہدات اور تجربات بانٹنے کی آزادی بھی حاصل تھی۔ ایسی ورکشاپس صرف علمی نشست نہیں ہوتیں بلکہ شعور کی تعمیر اور ضمیر کی بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔اس ورکشاپ کی بدولت ہمیں بین الاقوامی ریڈ کراس تنظیم کے کردار اور مشن کے بارے میں بھی گہرائی سے جاننے کا موقع ملا۔ یہ ادارہ نہایت خاموشی سے دنیا کے شورش زدہ علاقوں میں انسانیت کے لیے کام کر رہا ہے۔ وہ قیدیوں سے لے کر مہاجرین تک، اور زخمیوں سے لے کر یتیم بچوں تک ہر طبقے کی مدد میں مصروف ہے، بغیر کسی نسلی، مذہبی یا سیاسی تفریق کے۔اگرچہ یہ سچ بھی اپنی جگہ ہے کہ عالمی ادارے اکثر طاقتور ریاستوں کی حکمتِ عملی کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کا غیر جانبدارانہ کردار متاثر ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود، ICRC جیسے ادارے کسی حد تک انسان دوست فریم ورک میں کام کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اور یہی بات انہیں قابلِ قدر بناتی ہے۔
ورکشاپ کے دوران یہ احساس بھی شدت سے ابھرا کہ اگر جناب منصور جعفر (ماہر امور مشرق وسطیٰ)، ڈاکٹر شاہد مسعود، جناب حامد میر، اور جناب خالد منصور جیسے تجربہ کار صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بھی ان نشستوں میں شامل کیا جائے تو نوجوان صحافیوں کو بے پناہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میدانِ جنگ میں جا کر رپورٹنگ کی ہے، عالمی طاقتوں کی چالوں کو سمجھا ہے، اور انسانی دکھ کو اپنی تحریروں میں سمویا ہے۔ان شخصیات نے فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق جیسے حساس خطوں پر رپورٹنگ، تجزیہ اور کتاب نویسی کے ذریعے جو خزانہ تیار کیا ہے، وہ نئی نسل کے لیے بیش قیمت اثاثہ ہے۔ ایسے افراد کی شرکت ان ورکشاپس کو نہ صرف زمینی حقیقتوں سے جوڑے گی بلکہ صحافت کی روحانی اور اخلاقی بنیادوں کو بھی مضبوط کرے گی۔