مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر عالمی سیاست کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ عسکری تصادم، اور پھر اس میں امریکہ کی شمولیت نے خطے کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا۔ تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے :آیا یہ سیز فائر پائیدار امن کا پیش خیمہ ہے یا محض آئندہ تصادم سے پہلے کی خاموشی؟13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کے بعد خطے کی فضاء یکایک تبدیل ہو گئی۔ ان حملوں میں ایرانی سائنسدانوں اور اعلیٰ فوجی حکام کی ہلاکت نے تہران کو فوری ردعمل پر مجبور کر دیا۔ ایران نے محدود وقت میں جوابی کارروائی کرکے اسرائیل کے کئی عسکری اور معاشی مراکز کو نشانہ بنایا، جن میں حیفہ کی آئل ریفائنری، بن گورین ایئرپورٹ اور اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کا اہم کمپلیکس شامل تھے۔ اس کارروائی نے نہ صرف اسرائیلی دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیے بلکہ اسرائیلی شہریوں میں بھی شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
امریکہ کی جانب سے ابتدا ءمیں جنگ سے لاتعلقی ظاہر کی گئی، مگر جب ایرانی میزائلوں نے خلیج میں واقع دوحہ کے امریکی ایئر بیس کو نشانہ بنایا، تو معاملہ یکسر بدل گیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو ابتداء میں ایران کو مکمل ’’سپردگی‘‘ کا الٹی میٹم دے رہے تھے، چند ہی روز میں قطر کے امیر سے درخواست کرتے پائے گئے کہ وہ تہران کو جنگ بندی پر آمادہ کریں۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ اس جنگ کو پھیلانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ادھر اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو کی حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کی برسوں پرانی خواہش کہ امریکہ ایران پر براہ راست حملہ کرے، بالآخر پوری تو ہوئی، مگر اس کے بدلے اسرائیل کو داخلی عدم استحکام، دفاعی نظام کی ناکامی اور علاقائی تنہائی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی میں بھی اختلافات کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پارٹی رہنما مارجری ٹیلر گرین جیسے افراد نے کھل کر اسرائیل کی “پرائی جنگ” میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت بھی جنگ کے خلاف ہے، جیسا کہ حالیہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ صرف16 فیصد امریکی اس مداخلت کے حامی تھے۔اس پس منظر میں سیزفائر کا اعلان بظاہر خوش آئند ہے، لیکن اگر اس کے اسباب اور سیاق و سباق کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ یہ صرف ایک عارضی وقفہ ہے، نہ کہ مکمل امن کا آغاز۔ اس سیز فائر نے اگرچہ جنگی شعلوں کو وقتی طور پر بجھا دیا ہے، لیکن اصل تضادات، تنازعات اور طاقت کے توازن کی جنگ جوں کی توں برقرار ہے۔ایران نے اس بحران میں نہ صرف عسکری تحمل و مہارت کا مظاہرہ کیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی اپنی خودمختاری اور جوابی صلاحیت کو منوایا۔ اسرائیل اور امریکہ کو یہ پیغام واضح طور پر ملا ہے کہ تہران کو “نرم ہدف” سمجھنا ایک مہلک غلطی ہو سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس تازہ ترین بحران نے عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کو یہ سبق دیا ہے کہ یکطرفہ عسکری کارروائیاں اب آسان نہیں رہیں۔ کسی ایک فریق کی بالادستی کا خواب اب حقیقت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے عالمی ادارے، علاقائی قوتیں، اور فریقین دانشمندی، مکالمے اور سفارتکاری کا راستہ اپنائیں۔ ورنہ اگلا تصادم شاید سیزفائر کا موقع بھی نہ دے۔
برہان مظفر وانیؒ، ایک پیغام، ایک مشن ۔۔8جولائی اور تحریکِ آزادی کشمیر
8 جولائی 2016 کا دن تحریکِ آزادی کشمیر کے سفر میں ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔ اس روز نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی ؒکی شہادت نے پوری وادی کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ برہان کوئی عام مجاہد نہ تھابلکہ وہ کشمیر کے مظلوم عوام کا ترجمان، اور بھارت کے جبر کے خلاف پرعزم نسل کا استعارہ تھا۔برہان نے اس شعور اور جذبے کو جنم دیا جو دہائیوں کی جدوجہد، قربانیوں اور قیادت کا ثمر تھا۔ اُس کے فکری خدوخال کی تشکیل میں امام سید علی گیلانیؒ جیسی عظیم شخصیات کا گہرا اثر تھا۔ امام گیلانی ؒنے جس نظریاتی، دینی اور سیاسی استقامت کا پرچم بلند رکھا، برہان وانی اسی قافلے کا سپاہی تھا۔ برہان نے اپنی زندگی اور شہادت کے ذریعے دراصل سید گیلانی ؒ کے اُس مؤقف کی تائید کی جس میں آزادی کو دنیوی مصلحتوں پر ترجیح دی گئی۔اسی طرح سید صلاح الدین احمدجنہوں نے عسکری میدان میں مزاحمت کا پرچم بلند رکھا، برہان کی عسکری تربیت اور تحریک میں ایک مرکزی حوالہ تھے۔ برہان، حزب المجاہدین کے اس کارواں کا روشن چہرہ تھا جس کی قیادت سید صلاح الدین برسوں سے کر رہے ہیں۔ برہان کی شہادت دراصل اُس جذبۂ حریت کا تسلسل تھی جسے مجاہدین کشمیرنے میدانِ جہاد میں زندہ رکھا۔8 جولائی محض ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک قافلے اور ایک تسلسل کی علامت ہے،جہاں برہان وانیؒ کا خون، امام سید علی گیلانیؒ کی فکر اور سید صلاح الدین احمدکی مزاحمت ایک ساتھ بولتی ہے۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ برہانؒ ایک فرد نہیں، تحریک کا روشن چہرہ تھا، جو گیلانی کی فکر سے جڑا ہواتھا اور یہی رشتہ کشمیر کی آزادی کا ضامن ہے۔