فرید احمد پراچہ
وہ اسلامی معیشت پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے، وہ اسلامی فلسفہ کے بہترین مفکرتھے
وہ جماعت اسلامی پاکستان کے ہی نہیں عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے بہترین مربی ورہنما تھے
پروفیسر صاحب کی یادداشت کمال کی تھی۔ وہ آخر دم تک یادداشت کی بلندیوں پر تھے
سوشلزم، قادیانیت، فتنہ انکار سنت سیکولرزم اور جاگیردارانہ طرز سیاست کے خلاف نظریاتی جنگ کے ہر اول دستے میں شامل رہے
انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، تذکرہ زندان کے نام سے ان کی کتاب آج بھی پڑھنے والوں کو رو داد زنداں سناتی ہے
تحریک اسلامی کے ممتاز ادیب، دانش ور اور رہنما چودھری غلام جیلانی مرحوم نے سید مودودیؒ کے ابتدائی ساتھیوں کے بارے میں ”موسم بہارکے پہلے پھول“کی اصطلاح استعمال کی تھی وہ خود بھی ان ہی پھولوں میں سے ایک تھے۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ان پھولوں کو دیکھنے، ان کی تازگی و لطافت سے مشام جاں کو معطر کرنے اور قلب و روح کی تابندگی کا سامان کا مہیا کرنے کا موقع ملتا رہا۔ نام لکھنا شروع کروں تو تعداد ہزاروں تک چلی جائے گی۔ کردار کے روشن چراغوں کا تذکرہ کروں تو ایک ایک چراغ کا اجالا پکارے گا کہ ْ۔۔ ہما رے بعد اندھیرا نہیں اجالاہے
لیکن ارشاد ربانی: کل من علیھا فان کے مطابق قضا و قدر کا پیغام سب کے لیے آتا رہا اور موسم بہار کے یہ پہلے پھول آخری دم تک مرجھائے بغیر زمانے کو تازگی و تابندگی دیتے رہے اور بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ نظر دوڑاتا ہوں تو شاید پروفیسر خورشید احمدؒ اس بزم چراغاں کے آخری چراغ تھے۔ ان سے ملتے، ان کی باتیں سنتے، ان سے استفادہ کرتے، ان کی فکر سے روشنی حاصل کرتے اور بطور مربی، محسن، استاد، ان کی خوشہ چینی کرتے، اب تو عمر بیت گئی ہے میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور یہ شاید 1963ء کی بات ہے جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔اور اس پر بھی بیت چلے ہیں 63سال ۔ اس دوران وہ ہمارے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مثالی ناظم اعلیٰ کے طور پر نمایاں ہوئے۔اپنے ابتدائی دور طالب علمی میں سٹوڈنٹس وائس، ہم قدم اور چراغِ راہ کی تحریروں میں پڑھا۔ پھر ان کی کتابوں کی سطر سطر میں تلاش کیا۔ وہ ترجمان القرآن کے اشارات میں بھی ملتے رہے۔


وہ عالمی ترجمان القرآن کے مدیر تھے، وہ عالمی شہرت کے بہترین ماہر معیشت تھے، وہ اسلامی معیشت پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے، وہ اسلامی فلسفہ کے بہترین مفکرتھے، وہ ستر سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جو دنیا کی متعدد یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے ایسے نائب امیر رہے ہیں کہ جنھوں نے کم و بیش ہر امیر جماعت کے ساتھ کام کیا اور ان کو اپنی عظیم الشان معاونت سے نوازا۔ وہ سینیٹ آف پاکستان کے معزز رکن رہے ہیں، وہ پاکستان کی صف اول کے سیاست دان تھے اور ایسے سیاست دان کہ ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں 160سے زائد بین الاقوامی سیمینارز میں حصہ لے چکے ہیں، انھیں دنیا کی تین بڑی یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی اسناد عطا کی ہیں، وہ دو عالمی شہرت کے حامل اداروں اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر یو کے اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد کے بانی چیئرمین ہیں، وہ 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و پلاننگ اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین رہے، انھیں شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ عطا کیا گیا، وہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے وائس پریزیڈنٹ رہے، انھیں سوڈان کی حکومت نے اسلامی قوانین سازی کمیٹی کا رکن نامزد کیا، اسی طرح انھیں پہلا اسلامی ترقیاتی ایوارڈ دیا گیا، انھیں جماعت اسلامی میں رہنمائی کا مرکزی منصب حاصل رہا اور جس کا انتظام و احترام ہر امیر جماعت اور ہر منتخب مرکزی مجلس شوریٰ کرتی رہی ہے، وہ جماعت اسلامی پاکستان کے ہی نہیں عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے بہترین مربی ورہنما تھے۔ ان کی تقاریر تربیت گاہوں، کانفرنسوں، سیمینارز، مذاکروں اور عالمی سطح کی مجالس میں سننے کا بارہا اتفاق ہوتا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے استدلال کا ایک دریا ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے جس میں مدوجز ربھی ہے اور اتارچڑھاؤ بھی، قرآن و حدیث کے حوالے بھی ہیں اور دورِ حاضر کے مفکرین کے اعتراضات کے علمی جوابات بھی، ہم ان کے تیز رفتار لب و لہجہ سے کچھ دیر بعد ہی آشنا ہو پائے ہم جو ٹھہرے ہوئے لہجوں کے شناسا تھے۔ ابھی ایک جملہ کو سمجھتے کہ تقریر کئی جملے آگے بڑھ چکی ہوتی۔ تاہم بعد میں ہم نے بھی ان کے اس تیز رفتار لہجے کے بہاؤ کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس سے لذت قلب و نظرکا سامان حاصل کیا۔ ان کی زندگی دعوت و عزیمت کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی تھی یعنی
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی
وہ ہمارے درمیان ایک بہترین تحریکی زندگی گزار کر گئے ہیں، دعوت و محبت والی، تزکیہ و طہارت قلب والی، انفرادی روابط اور اجتماعی تحریک والی، پارلیمانی سیاست اور علم و دانش والی، شرق و غرب اور عرب و عجم سے دعوتی قربتوں والی۔واقعی بقول اقبالؒ
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
وہ ابھی یہاں اور ابھی وہاں، ابھی لاہور اور ابھی لندن و لیسٹر، ابھی اسلام آباد اور ابھی ارض مقدس اور ان کی آمدورفت بے مقصد نہ تھی، ان کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے روابط تھے، ان کے انقرہ و استنبول اور کوالالمپور و جکارتہ کے اسلامی تحریکی رہنماؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ حماس کی قیادت کے غم خوار بھی تھے اور کنار نیل والے تحریکی کارواں کے ساتھ مغرب کی وادیوں میں عملی و علمی روابط بھی رکھتے تھے۔ گویا کہ
دنیا رہی خوابیدہ خورشید نے شب بھر میں
پچھم سے شفق لاکر پورب میں بجھا دی ہے
پروفیسر خورشید صاحب سے ہم جیسے طالب علموں کو ٹائم مینجمنٹ سیکھنے کے اسباق ہی اسباق ملتے تھے۔ انھوں نے اپنی شعوری زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ انھیں معلوم تھا کہ عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ جس کے دوران وہ اپنے لیے کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب کے اعزازات اور خدمات کی یہ مختصرسی جھلک ہے۔ اگر ان کی داستانِ حیات دیکھی جائے تو وہ دعوت و عزیمت کی ایک خوب صورت تاریخ ہے۔

23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے پروفیسر خورشید احمد اپنے دور طالب علمی میں ایک لائق، ہونہار طالب علم تھے۔ 1949 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے۔ 1953 ء میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، 1956 ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، ماہنامہ چراغ راہ کے مدیر رہے، سوشلزم، قادیانیت، فتنہ انکار سنت سیکولرزم اور جاگیردارانہ طرز سیاست کے خلاف نظریاتی جنگ کے ہر اول دستے میں شامل رہے۔انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، تذکرہ زندان – کے نام سے ان کی کتاب آج بھی پڑھنے والوں کو رو داد زنداں سناتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے ہمیشہ مرکزی مجلس شوری میں جچی تلی رائے دی۔ مرکزی مجلس شوریٰ میں ہمیشہ فیصلے کثرت رائے سے ہوئے اور اسے اختلاف کرنیوالے اراکین شوریٰ نے بھی بصمیم قلب تسلیم کیا تاہم جب کبھی یہ مرحلہ آیا کہ کسی محترم امیر جماعت کی انتہائی اخلاص پر مبنی رائے اور جماعتی مصالح اور جماعت کے ماضی، حال اور مستقبل کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو جماعت کی سینئر قیادت کے رہنماؤں پروفیسر عبدالغفور احمدؒ، محترم چودھری رحمت الٰہیؒ کے ساتھ ساتھ جس محترم شخصیت نے سب سے موثر کردار ادا کیا وہ تھے پروفیسر خورشید احمدؒ۔ ان کی گفتگو میں استدلال کی قوت بھی ہوتی اور اخلاص کی شیرینی بھی! اس میں احترام کی لطافت بھی ہوتی اور سب سے بڑھ کر گفتگو کا سلیقہ بھی، ان کی گفتگو ’محبت فاتح عالم‘ کا بہترین نمونہ ہوتی۔
2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ایک ایسا فیصلہ تھا جو بظاہر ایک بہت مشکل فیصلہ تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں ہماری 28سیٹیں تھیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی 42 کی نشستوں کو ملاہم اپنی تاریخ کی بلند ترین پارلیمانی پوزیشن پر تھے۔ ایسے میں عدلیہ بحالی کے موضوع پر بائیکاٹ یقینا ایک اصولی اور جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ لیکن اس کی قیمت بہت بڑی تھی۔جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ پوری شوریٰ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ فیصلہ پر کمال یکسوئی سے عمل درآمد ہوا۔ کاغذات نامزدگی واپس لیے گئے۔ ہر امیدوار نے اپنی انتخابی مہم روک دی، دو افرادکے علاوہ سب نے مکمل پابندی کی۔ ان دو افرادکو جماعت سے اخراج کر دیا گیا۔ جب مکمل عمل درآمد ہوگیا تو میں نے محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ انھوں نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کا یہ وقت عنایت فرمایا۔ یہ ان کی خصوصی محبت اور حوصلہ افزائی تھی۔ وہ کارکنوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ کوئی اور نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا کہ اب فیصلہ زیربحث نہیں کہ وہ توہو گیا، اوراس پر عمل درآمد بھی ہو گیا۔ میں تو آپ سے اس استدلال اور حکمت کو سمجھنا چاہتا ہوں کہ جس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا ہے۔ چھ ماہ بعد دوبارہ ملکی انتخابات کیوں ہوں گے؟ سول سوسائٹی کون سی ہے؟ کہ جس کی وجہ سے اب ہواؤں کا رخ ہمارے حق میں ہونے والاہے؟ ان کی شفقت و مہربانی ہے کہ انہوں نے ممکنہ حد تک مجھ جیسے کم فہم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر آخر میں انھوں نے انتہائی محبت سے کہا: ”فرید میاں! یہ ان کا مخصوص محبت بھرا طرز تخاطب تھا۔ فرید میاں! ہو سکتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہوں، ہاں اگر چھ ماہ بعد انتخابات نہ ہوئے اور ہمارے تجزیے درست ثابت نہ ہوئے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کھل کر اعتراف کروں گا۔ چنانچہ یہی ہوا انتخابات ہو گئے۔ چھ ماہ بعد ہونے والے متوقع دوسرے انتخابات بھی نہ ہوئے۔ بائیکاٹ کے مضمرات سامنے آنا شروع ہو گئے تب محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرکز جماعت میں منعقد ہونے والے سیاسی امور کمیٹی کے اجلاس میں حسب وعدہ کھل کر یہ اعتراف فرمایا کہ اس وقت ہمارا تجزیہ درست نہ تھا اور یہ کہ نقصانات میری توقعات سے بھی گہرے ہوئے ہیں۔ یقینا وہ اسی طرح کی عظمتوں کے مالک تھے۔
نومبر 2014ء میں جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام مینار پاکستان لاہور پر طے کیا گیا تھا اس سلسلہ میں یو کے کے احباب تک اجتماع عام کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ یہ میرا یو کے کا کافی عرصہ بعد دورہ تھا۔ دورہ کا ایک بڑا مقصد محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب سے ملاقات بھی تھا۔ میں ان سے وقت طے کر کے لیسٹر میں ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ ان کا گھر سادگی اور نفاست کا مرقع تھا۔ میری معذرت کے باوجود وہ خود چائے لے آئے۔ میں نے ان کے ساتھ مل کر چائے پی۔ وہ محترم امیرجماعت اور ذمہ داران جماعت کی صحت کے احوال دریافت فرماتے رہے۔ میں جتنی دیر بھی ان کے ہمراہ رہا ان کی گفتگو کا بڑا حصہ جماعت اس کے احوال سے متعلق رہا ان کے پاس اگرچہ تمام تر معلومات پہلے سے تھیں، لیکن وہ اپنے مہمان کو بھی یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ اسے پوری اہمیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے ملاقات کے آخر میں اجتماع عام کے لیے محترم امیر جماعت تک پہنچانے اور مرکزی بیت المال میں جمع کرانے کے لیے اپنی اور اپنی اہلیہ محترمہ کی طرف سے اجتماع عام فنڈ کے لیے خصوصی اعانت میرے سپرد کی۔ پھر وہ میرے منع کرنے کے باوجود دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔محترم پروفیسر صاحب کی یادداشت کمال کی تھی۔ وہ آخر دم تک یادداشت کی بلندیوں پر تھے۔ کبھی کبھار فون پر ان سے گفتگو کی سعادت ملتی رہی۔ تو وہ سب کے بارے میں دریافت کرتے۔ان کے پاس پیغامات بھی لکھے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بامقصد،با سعادت بہترین زندگی گزار کر گئے ہیں۔جس کا لمحہ لمحہ جاودانی ہے۔اور اس کا پل پل ان کے لئے توشہ آخرت ہے۔ان کے بے شمار صدقات جاریہ ہیں۔دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو زبان و قلم سے بولے لکھے اور راہ خدا میں خرچ کئے گئے ایک ایک روپے کا بہترین اجر عطا کرے اور ان کے قائم کردہ اداروں،ان کی کتابوں ان کے عزیز اقارب،ان کی اولاد صالحہ اور ان کے شاگردوں و کارکنان کو ان کے لئے توشہ آخرت اورذریعہ بلندئ درجات بنائے۔ آمین