
امام مودودی ؒ کے زیر سایہ کچھ مدت تک کام کرنے کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتا ہوں
میراسید مودودی سے تعلق اس زمانے میں قائم ہوا، جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا
مولانا کہتے تھے شیطان یہ چاہتا ہے علماء آپس میں لڑ جائیں اور اس کا کام آسان ہو جائے
تحریکیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابقون الاولون کے معیار پر سو فیصد تو پورانہیں اترتیں
خامیاں تو ہو سکتی ہیں اور ہیں۔ کمزوریاں ہیں اس کا انکار کرنا درست نہیں لیکن ہم اس راستے کو بالکل ہی بھول گئے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے
مرشدی مولانا مودودی ؒ کے ارد گرد جو لوگ تھے وہ سارے کے سارے قیمتی ہیرے تھے
جناب حافظ ادریس صاحب دامت برکاتہم17 اکتوبر 1945ء کو چک میانہ ضلع گجرات میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ممتاز عالم دین، محقق، مصنف، کالم نگار،دانشور اور جماعت اسلامی پاکستان کے معروف رہنما ہیں۔انہیں سید مودودیؒ کے ساتھ کام کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ہے۔ انہی کے حکم پر حافظ صاحب جنوری 1974ء میں افریقہ کے ملک کینیا میں اسلامک فاونڈیشن نیروبی میں بطور ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ نومبر 1985ء تک وہ اسی ذمہ داری پر فائز رہے۔ بعد ازاں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی، امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب اور جماعت کے مرکزی نائب امیر کی ذمہ داریاں بھی بحسن خوبی انجام دے چکے ہیں۔ آپ نے دین، سیاست، علم و ادب کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔ آپ کی چالیس کے قریب تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کے سفر نامے،افسانے اور دیگر موضوعات پر کتابیں ادب میں مقام بنا چکے ہیں۔اس وقت ادارہ معارف اسلامی(اسلامک ریسرچ اکیڈمی) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام انجام دے رہے ہیں۔سید مودودی ؒ نے 1962میں کراچی میں ادارہ معارف اسلامی(اسلامک ریسرچ اکیڈمی) کے نام سے یہ ادارہ قائم کیا۔ اس کے بعد1979ء میں اسی نام سے ایک ادارہ لاہور میں بھی تشکیل دیا گیا۔اس کے پہلے ڈائریکٹر مولانا خلیل احمد حامدی ؒ تھے۔ ان کے بعد حافظ محمد ادریس اس منصب پر فائز ہوئے۔یہ تحقیقی اور علمی ادارہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفاتر سے ملحقہ ایک عمارت میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔حافظ ادریس صاحب انتہائی ملنسار،خوش گفتار اور صاحب کردار انسان ہیں۔ان سے گفتگو کرکے سید مودودیؒ کے دور کی یاد تازہ ہوتی ہے اور اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسے کیسے ہیرے امام مودودی ؒ نے تراشے تھے۔ستاروں کے اس جھرمٹ میں حافظ ادریس صاحب ایک روشن ستارے کی مانند اس وقت بھی روشنی بکھیر رہے ہیں۔5جنوری2023کو منصورہ لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔ان سے ہونے والی گفتگو من و عن قارئین کی نذر ہے۔(شیخ محمد امین)

سوال: حافظ صاحب آپ کے خاندان نے بھارت کے کسی شہر سے ہجرت کی ہے یا آپ یہیں پنجاب کے پشتنی باشندے ہیں۔جماعت اسلامی میں کیسے شامل ہوئے۔۔
جواب: جی میں مقامی ہوں۔ میرے والد گرامی فیض محی الدین صاحبؒ مقامی جماعت کے امیر بھی تھے۔ہمارا تعلق ضلع گجرات سے ہے۔ہمارا آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ ہماری اپنی زمینیں ہیں۔ والد صاحب اسی سے پیشے سے منسلک تھے۔ میرے چھوٹے بھائی بھی اسی زمین کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور اللہ کا کرم ہے کہ وہ بھی ارکان جماعت ہیں۔ اور مقامی جماعت کے امیر رہے ہیں۔ اس وقت میرا بھانجا اس علاقے کا امیر ہے۔الحمدللہ ہماری چار نسلیں جماعت سے وابستہ رہی ہیں۔ میرے والد صاحب بھی رکن تھے، پھر میں اور میرے بھائی بھی رکن ہیں، ہماری ہمشیرہ بھی رکن تھیں۔پھر میرے دو بیٹے دونوں رکن ہیں۔ایک اللہ کو پیار اہوگیا ڈاکٹر ہارون ادریس۔۔ کرونا کی وجہ سے اس دنیا فانی سے کوچ کر کے ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔بہت ہی ذہین اور قابل تھے یوں سمجھ لیجئے ہمارے خاندان کا ایک ہیرا تھا،جرمنی سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی اور میرا دوسرا بیٹابھی رکن جماعت ہے۔اللہ کا فضل یہ ہے کہ اس کے دونوں بیٹے طلحہ ادریس اور داؤد ادریس بھی رکن جماعت ہیں۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورا خاندان جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور اسی رنگ میں ڈھلا ہوا ہے۔الحمد للہ

سوال:سید مودودیؒ سے آپ کا تعلق کیسے قائم ہوا۔۔۔
جواب :میراسید مودودی ؒکے ساتھ تعلق اس زمانے میں قائم ہوا،جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ان کو پہلی بار 1959 میں دیکھا اور ان سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوئی۔چونکہ میں تو ایک دیہاتی طالب علم تھا۔ لیکن سید مودودی ؒ کی شفقت اور محبت والے انداز گفتگو نے مجھے اس پہلی ہی ملاقات نے مسحور کردیا، مجھے جس انداز سے ملے،حال احوال پوچھا،حالانکہ میں تو کچھ بھی نہیں تھا، تو اس سے ان کی شخصیت کا میرے دل پر ایک ایسا نقش ثبت ہوا، جو اب تک الحمد للہ اسی انداز میں قائم ہے۔ مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے اور میں اسے یاد کر کہ اس وقت بھی ایک مسرت انگیز کیفیت محسوس کررہا ہوں۔ میں اسلامیہ کالج سے انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں چلا گیا۔ جہاں 1967ء میں بی اے کیا۔ جامعہ پنجاب سے 1969ء میں پہلا ایم اے اسلامک سٹیڈیز میں کیا۔ بی اے اور ایم اے دونوں میں اول پوزیشن لے کر گولڈ میڈیلسٹ رہا۔۔۔1968،1970 میں جمعیت کا ناظم بنا۔ یہاں پھر متواتر سیدی سے ان کی عصری نشستوں میں ملاقات ہوا کرتی تھی، ہم کئی دوست وہاں جاتے تھے، لوگ مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے،ہم بھی کبھی کبھار سوال کرتے تھے، اور سید علیہ رحمہ پورے دلائل اور حقائق کے ساتھ جوابات دیتے تھے۔ وہاں ہفتہ وار درس قرآن بھی ہوا کرتا تھا اس میں بھی ہم شریک ہوتے تھے،ہم ہاسٹل سے شرکت کے لیے آجاتے تھے۔

سوال:آپ جماعت کی کن کن ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ کیا محسوس کررہے ہیں؟
جواب:سید مودودی ؒکے ارشاد پر جنوری 1974ء میں افریقہ کے ملک کینیا میں اسلامک فاونڈیشن نیروبی میں بطور ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے جانا پڑا۔ نیروبی سے نومبر 1985ء میں واپسی ہوئی۔ اس وقت سے اب تک جماعت اسلامی کی مختلف ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوں۔ شروع میں جماعت کا مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھا۔ 1990ء میں امیر صوبہ پنجاب بنایا گیا۔ 2003ء میں مرکز میں نائب امیر کی ذمہ داری سونپی گئی۔آج کل ادارہ معارف اسلامی(اسلامک ریسرچ اکیڈمی) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام انجام دے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: تعلیم سے فراغت کے بعد سرکاری نوکری کرنے کا دل میں خیال نہیں آیا۔۔۔؟
جواب:سید مودودی ؒ سے دوران طالب علمی کافی قربت بڑھ چکی تھی، اس لئے ان کی ہر بات میرے لئے ایک تابعدار فرزند کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے مجھے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا کہ میں تفہیم القرآن کی جو جلد پنجم چھپی ہے اس کا انڈکس تیار کروانے میں اپناکردار ادا کروں۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے تو فرمایا کہ میں نے اس سلسلے میں دو تین لوگوں کی ذمہ داری لگائی ہے ان کے کاموںکی نگرانی کرنی ہے تو میں نے عرض کیا ٹھیک ہے۔ اس کام کے کچھ مدت بعد انہوں نے کہا اپنا پاسپورٹ فلاں شخص کو دے دیں لیکن جو کام میں آپ کو تفویض کرنے جارہا ہوں یہ کام آپ کے والدین کی اجازت سے مشروط ہے۔ چونکہ پورا گھرانہ والد صاحب کی کاوشوں اور محنت کی وجہ سے جماعت سے وابستہ تھا،اس لئے انہوں نے مولانا ؒ کے حکم کی تعمیل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح سید مودودیؒ کے ارشاد پر جنوری 1974ء میں افریقہ کے ملک کینیا میں اسلامک فاونڈیشن نیروبی میں بطور ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے جانا پڑا۔ مولاناؒ نے افریقی ممالک میں سے مراکش،تنزانیہ وغیرہ کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن وہاں کے حالات کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے۔ میں 12برس تک وہاں رہا۔ اس دوران عموماً سال میں ایک یا دو مرتبہ مجھے پاکستان آنے کا موقع ملتا تھا۔ 1978ء تک ہر مرتبہ واپسی پر میں مولانا محترم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ وہاں سے رہنمائی کے لیے کبھی کبھار خطوط بھی ارسال کیے جاتے تھے۔ مولانا مرحوم، افریقہ کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتے تھے کہ حیرانی ہوتی، حالانکہ مولانا نے کبھی افریقہ کا دورہ تک نہیں کیا تھا۔ میں نے حبشہ کے ظالم شہنشاہ ہیل سلاسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد اس کے مظالم کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا: ’’ہیل سلاسی بڑا ظالم اور متعصب عیسائی تھا۔ اس کے دل میں اسلام سے شدید بغض و عناد تھا، مگر نئے آنے والے کمیونسٹ فوجی افسران، مسلمانوں پر اس سے بھی زیادہ ظلم ڈھائیں گے، کیونکہ روس نے جہاں کہیں اپنے حامیوں کو کامیاب کرایا ہے، خوف و ہراس کی بدترین فضا پیدا کی ہے۔ اس کے باوجود ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اریٹیریا کے مسلمانوں کی تحریک اب مضبوط ہو جائے گی، کیونکہ ہیل سلاسی پورے ملک میں اتحاد کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے پایا جانے والا نام نہاد تقدس موجودہ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوگا۔‘‘ یہ بات مولانا مودودیؒ نے اکتوبر 1975ء میں فرمائی تھی۔ کس قدر درست تجزیہ اور کتنی سچی پیش بینی تھی۔ 1993ء میں مسلم علاقہ ایریٹیریا حبشہ کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔
سوال:سید مودودی ؒ کا ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والوں اور ان کے نظریات کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟
جواب: مولانا کے جو مخالفین تھے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شروع دن سے جو مخالف تھے، مولانا نے ان کے خلاف کبھی بھی ہتک آمیز بات نہیں کی۔ ان کی الزام تراشیوں کو ہمیشہ سنی ان سنی کردیتے۔ کبھی ساتھی، کارکن، احباب سوال بھی کرتے، کہ مولانا یہ لوگ حد سے گزر رہے ہیں۔آپ ان کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ تو مولانا کہتے تھے شیطان یہ چاہتا ہے یہ آپس میں لڑ جائیں اور اس کا کام آسان ہو جائے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ یہ علمائے دین نہیں جانتے یا ان کو اس بات کا احساس نہیں لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے میں ان کے ساتھ لڑائی نہیں لڑوں گایہ میرے اوپر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں شاید اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیاں مجھے دینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اگر یہ میری نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کررہے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہے۔

سوال۔۔۔۔کئی جید علماء و دانشور جن میں مولانا علی میاں ؒ شامل ہیں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست سے دور رہنا چائیے تھا۔ان کا سید ؒ کے ساتھ صرف اس نقطے پر اختلاف تھا؟آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: ان کی جو سوچ، رائے یا اختلاف ہے وہ میرے نزدیک منفی نہیں ہے۔ اختلاف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر اعتراض نہ تھا نہ ہے۔کیونکہ میری رائے کے مطابق الیکشن سے نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ فائدہ ہی پہنچا ہے۔ الیکشن عوام الناس کو اپنے ساتھ ملانے کی کاوش ہے ہم کامیاب نہیں بھی ہوں تو بھی جدوجہد کا یہ ایک آئینی راستہ ہے۔ ہم کوئی انڈر گراؤنڈ کام کرنا نہیں چاہتے۔ اور الگ تھلگ رہ کر بھی بیٹھ نہیں سکتے۔ ہمیں سارے معاملے سے کنسرن ہے۔ہمارے لوگ اسمبلیوں میں بہت تھوڑے ہی سہی لیکن ان تھوڑے لوگوں نے 1973 کے دستور کو نافذ کرنے اور اسے تیار کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ دستور پاکستان ایک نعمت ہے اگر اس پر عمل درآمد ہو۔ اس کے اندر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، قرآن وسنت کے تحت پاکستان کی قانوں سازی ہوگی یہ دستورکے اندر لکھا گیا ہے۔ اس وقت اسمبلی میں ہمارے صرف 4 افراد تھے جن میں ڈاکٹر نذیر احمدبھی تھے جنہیں شہید کردیا گیا۔ باقی تین پروفیسر غفور احمدؒ، محمود اعظم فاروقیؒ اور صاحبزادہ صفی اللہؒ تھے۔پروفیسر غفوراحمدؒ نے اس دستور کو بنانے میں اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ اس وقت کے سب رہنماوں نے سراہا۔ آپ حیران ہونگے کہ بھٹو صاحب جیسا سیکولر آدمی جو اس ملک کو سیکولر سوشلسٹ ریاست بنانا چاہتا تھا نے بھی اس دستور کو تسلیم کیا حالانکہ اس کے پاس اکثریت تھی اپوزیشن کے پاس زیادہ افراد نہیں تھے۔ لیکن یہ ان کی ذہانت تھی ان کی دانش تھی اور ان کی مسلسل محنت تھی جس کے نتیجے میں انہوں نے یہ چیزیں منوا لیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں اسمبلیوں میں جانا ہمارا نہ جانے سے بہتر ہے۔ دوسری بات اسمبلیوں کے اندر جو ہمارے لوگ گئے ہیں ان پر کرپشن اور بد دیانتی کا کوئی الزام نہیں لگا اگر یہ کامیابی نہیں تو پھر اس کو اور کونسا نام دیں گے۔۔الیکشن صرف اقتدار میں آنے کیلئے ہی نہیں بلکہ اس عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانا بھی ہمارا مقصود ہے۔ اصل ہدف دین کی دعوت اور غلبہ اسلام ہے۔۔۔

سوال: کئی نامی گرامی ہستیاں جماعت اسلامی میں آئیں اور رہیں اور کچھ الگ بھی ہوگئیں جن میں مولاناامین احسن اصلاحی ؒ، مولانامنظور احمد نعمانیؒ، مولاناابوالحسن علی ندوی ؒ، مولاناوحید الدین خانؒ، ڈاکٹر اسرار ؒاور جناب عبدالغفار حسن ؒ شامل ہیں۔الگ ہونے والے بزرگوں کا پھر سید اور جماعت کے ساتھ کیسا رویہ رہا۔؟
جواب:جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے تھے ان میں تدبر القرآن کے مصنف مولانا امین احسن اصلاحیؒ بڑی شخصیت تھے لیکن ان کے علٰیحدہ ہو جانے کے بعد بھی سید مودودی ؒ اور ہمارے دیگر رہنماوں اور اکابرین کے ان کے ساتھ گہرے تعلقات رہے حتی کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کا نماز جنازہ قاضی حسین احمد رحم اللہ نے پڑھایا۔ دیگر بزرگان عبدالغفار حسنؒ، مولانا منظوراحمد نعمانیؒ، اور ڈاکٹر اسرار صاحب کے نکلنے کے بعد مولانا نے ان کے خلاف کوئی منفی بات نہیں کی اور نہ ہی ان اصحاب نے کبھی سید ؒ کی کردار کشی کی۔ جماعت اسلامی سے تو نکل گئے لیکن باہر نکل کر جماعت اسلامی کے خلاف کوئی محاذ نہیں بنایا۔ ڈاکٹر اسرار ؒنے تنطیم اسلامی کی بنیاد رکھی،ان کے کافی تعداد میں تقاریر وائیرل ہوئیں اور مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ وہ بھی دین کو دین کی شکل میں ہی پیش کرتے رہے۔ ہاں جہاں تک مولاناوحید الدین خان ؒکا تعلق ہے ان کا مائینڈ سیٹ مکمل تبدیل ہو چکا تھا۔کشمیر کی جدو جہد کی حمایت کبھی نہیں کی۔ بھارتی حکومت کی مکمل حمایت کرے رہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ان کو ملک کاسب سے بڑا ایوارڈ بھی دیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ وہ بیک وقت عالم، مصنف اورمفکر تھے لیکن بد قسمتی سے وہ پٹڑی سے اتر گئے تھے۔ اختلاف کرنا بری بات نہیں ہے لیکن اختلاف کے بعد مرحوم نے جو راستہ اختیار کیا وہ امت مسلمہ کے حق میں زہر قاتل تھا۔ بہر کیف االلہ ان کی مغفرت فرمائے۔مولاناسید ابوالحسن ندوی ؒ۔۔۔۔کچھ عرصے کیلئے جماعت میں آئے تھے۔۔۔لیکن وہ جماعت کی قیادت میں شامل نہیں تھے۔البتہ ان کے خیالات بہت اچھے ہیں۔کتابیں بہت اعلیٰ اور زبردست علمی و تحقیقی بنیادوں پر لکھی گئی ہیں۔ جو علم و ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔۔ان کی فکر مولانا مودودیؒ سے مطابقت رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کے مسائل پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے، بالکل سید مودودی ؒ کی طرح ہی مسائل اور ان کے حل کی نشاندہی کی ہے۔پھر عرب دنیا کے اندر ان کا آنا جانابھی تھا۔وہاں ان کا بڑا مقام بھی تھا۔عرب دنیا میں انہوں نے مولاناؒ کے بارے میں ہمیشہ اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔مولانا کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی غلط بات نہیں کی۔ بعض معاملات میں ان کا مولانا سے اختلاف رہا لیکن انہوں نے مولانا کی شخصیت کو کبھی مجروح نہیں کیا،بلکہ اپنی کتاب سینوں کے داغ” میں اختلافات کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں یہ الفاظ بھی تحریر فرمائے کہ مولانا مودودیؒ امام امت ہیں اور وقت آئیگا امت اسے تسلیم کرے گی۔ مولانا سید ابوالحسن ندوی ؒ نے عزت و احترام کے ساتھ ہمیشہ کھل کے اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن مولانا پر کبھی کیچڑ نہیں اچھالا۔۔۔

سوال: حافظ صاحب! سید مودودی رحمہ اللہ کے دور کی بات واقعی الگ ہے لیکن بعد میں دعوت دین اور غلبہ اسلام کیلئے نظریاتی کارکن کی ایک کھیپ تیار کرنے کے بجائے، نعرہ بازوں اور مروجہ سیاسی انداز فکر رکھنے وا لے افراد کا ہی غلبہ نظر آرہا ہے۔ اس کی وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب: تحریکیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابقون الاولون کے معیار پر سو فیصد توپورا نہیں اترتیں۔ سابقون الاولون کا میعار اور بعد میں شامل ہونے والوں کا میعار ایک نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام کو ہی دیکھ لیجئے جو شروع کے لوگ تھے اورجو بعد میں تھے۔۔ایسا ھی جماعتوں کے اندر بھی ہوتا ہے لیکن الحمداللہ ہمارا اب بھی ایک مضبوط تربیتی نظام ہے۔اس وقت بھی آپ دیکھ لیں۔ مختلف اطراف سے آئے ہوئے لوگ یہاں تربیت گاہ میں موجود ہیں۔ یہ لوگ ضلع دیر بالا کے مختلف علاقوں سے یہ طویل سفر اور اتنے زیادہ ذاتی وسائل خرچ کر کے یہاں پر آئے ہیں۔ درس و تدریس، خطابات، مذاکرے، مطالعہ کتب جیسے پروگرامات میں شامل ہورہے ہیں۔۔ ھمارا تربیت کا نظام الحمداللہ برقرار ہے اور لٹریچر کا نظام بھی intact ہے۔ رکنیت کے لئے جو مرکز کی طرف سے معیار مقرر کیا گیا ہے اس پر بھی کسی حد تک عمل درآمد ہوتا ہے، ارکان کیلئے سٹڈی سرکلز قائم کئے گئے ہیں،باقاعدہ ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔ خامیاں ہوسکتی ہیں۔۔۔اور ہیں۔۔۔ کمزوریاں ہیں اس کا انکار کرنا درست نہیں لیکن ہم اس راستے کو بالکل بھول گئے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں۔ افراط و تفریط۔۔۔ دونوں میں نہیں جانا چاہیے۔۔معیار کو جتنا اونچا ہونا چاہیے اگرچہ اتنا نہیں ہے۔۔۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم نے اس راستے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ یا کوئی اور سوچ اختیار کرلی ہے۔
سوال: آپ سید مودودی ؒ کی زیر قیادت جماعت اسلامی اور آج کی جماعت اسلامی میں کوئی فرق محسوس کر رہے ہیں۔انہوں نے تو ہیرے تراشے تھے!!!اور ہم نے۔۔۔؟؟
جواب: ہمارے مرشد مولانا مودودی ؒ کے اردگرد جو لوگ تھے وہ سارے کے سارے قیمتی ہیرے تھے جن کا آپ نے نام لیا، میاں طفیل ؒ تھے، نعیم صدیقیؒ تھے، اسد گیلانیؒ، چوہدری غلام جیلانی ؒ تھے، ماہرالقادری ؒتھے۔ مولانا خلیل حامدی ؒ،اور خرم مراد تھے ؒ۔پروفیسر خورشید صاحب ہیں اللہ ان کو زندگی دے۔ صحت کے ساتھ رکھے۔ان لوگوں جیسے لوگ اب ہمارے درمیان نہیں۔اس کا مجھے بھی شدت سے احساس ہے۔ لیکن ہماری ہر لمحہ یہ کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو تیار کیا جائے۔ ادارہ معارف اسلامی کا وجود میں میں آنا اسی کوشش کا ایک اظہار ہے۔ اس ادارے کے اہتمام سے ہم مختلف کلاسز اور تربیت گاہوں کا اہتمام کرتے ہیں جس میں لکھنے پڑھنے کے حوالے سے نوجوانوں کو تیار کیاجاتا ہے، کئی برسوں سے ہم یہاں ایک سہہ ماہی تربیتی پروگرام بھی منعقد کرتے ہیں جس میں پڑھے لکھے جوانوں کو تحقیق اور تحقیقاتی علمی کاوشوں کی تیاری کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دیگر جو دینی مدارس ہیں ان کے اندر بھی بچوں کو علمی و نظریاتی بنیادوں پر حقائق سمجھنے اور سمجھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔خلاء تو ہے اس میں کوئی شک نہیں بہرحال کوشش ہماری جاری ہے۔
سوال:حافظ صاحب آپ نے سید ؒکی قیادت میں کام کیا ہے۔انہیں بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔فرعونی و طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ان کی شخصیت کا قارئین کشمیر الیوم کیلئے مختصر اور جامع تعارف کرائیں۔
جواب:سید مودودی ؒکے زیر سایہ کچھ مدت تک کام کرنے کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتا ہوں۔ بلا شبہ وہ عظیم انسان تھے۔ ان کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے۔ مرشد مرحوم کے کارنامے ہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ انؒ کی تمام تصانیف، موثر، دل و دماغ کو اپیل کرنے والی اور ایک مخلص داعی حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح ان کی کتب کے مطالعے کی بدولت خود بے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔۔۔شجر ہائے
سایہ دار تھے۔ ملت اسلامیہ کا عظیم ترین سرمایہ تھے۔ ان کی پوری زندگی سراپا جہاد تھی۔ باطل کے ایوانوں میں ان کی فکر نے ہمیشہ زلزلے برپا کیے۔ قادیانی فتنہ ہو یا عیسائی مشنری یلغار، فتنہ انکارِ حدیث ہو یا سیکولر نظریات کا طوفان، ہر ایک کے سامنے انہوں نے بند باندھ دیے۔ وہ 1979 میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے مگر ان کی حسین یادیں مجھ سمیت اب بھی دنیا بھر میں ان کے مداحوں کے دلوں میں رچی بسی ہیں۔
حافظ صاحب کشمیرالیوم کے لیے کوئی پیغام۔۔؟
کشمیر الیوم باقاعدگی کے ساتھ نکل رہا ہے اور مجھے مل بھی رہا ہے الحمدللہ۔اس کے مضامین میں دیکھتا ہوں اچھا دعوتی مواد اس میں ہوتا ہے۔میں اس میں لکھنے والوں کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔اس کے قارئین کے لیے میرا یہی پیغام ہے اس کو پڑھا کریں اور اس کے بعد اس کو آگے بڑھائیں۔اس کی سرکولیشن میں اضافہ کرنے کے کوشش کریں۔جو لوگ اس کو چلارہے ہیں ان کو بھی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ موجودہ حالات میں جہاں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا نے کتاب اور رسائل و جرائد کی اہمیت کو کافی حد تک غیر موزون کردیا ہے۔ان حالات میں بھی کشمیرالیوم کا ادارہ اپنا چراغ جلا رہا ہے اور بڑی پامردی سے جلارہا ہے، اس پر ادارہ بہت ہی خراج تحسین کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمت دے۔
٭٭٭