راجہ تنویر
حضرت خالد بن ولید ؓ اسلامی تاریخ کے سب سے بہترین سپہ سالار تھے۔مکہ کے ایک قبیلے بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ ؓ نے ایک ایسے ماحول میں ہوش سنبھالا جہاں گھوڑا سواری بہت عام تھی۔غزوہ احد میں مسلمانوں کے خلاف پانسہ پلٹنے میں آپ کا انتہائی اہم کردار تھا۔ آپ احد کے میدان میں کفار کی طرف سے جنگ میں شریک تھے۔ آپ ایمان نہیں لائے تھے اور کفار کے اضافی گھوڑ سوار کے سربراہ تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہاڑی درہ پر پچاس تیر اندازوں کو متعین کیا اور حکم دیا کہ یہاں سے کسی صورت میں نہیں ہٹنا چاہیے کوئے اور چیلیں ہماری بوٹیاں نوچ کر ہی کیوں نہ کھاجائیں،جنگ کا کوئی بھی نتیجہ ہو یہ درہ نہیں چھوڑنا۔شروع میں جنگ میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور دشمن پسپا ہونے لگا تو مال غنیمت جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ان پچاس تیر اندازوں میں سے بیشتر نے حکم ادولی کی اور پہاڑی درہ چھوڑ دیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ کی عقابی نگاہوں نے مسلمانوں کی یہ کمزوری دیکھ لی اور موقعہ کی مناسبت سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا۔جس سے مسلمانوں کے لشکر میں افراتفری پھیل گئی آپ کی اس جوابی کارروائی پر مسلمانوں کو شدید نقصان ہوا۔
آپؓ کے حیرت انگیز جنگی کارناموں کے پیچھے آپؐ کی دعا تھی۔ ساٹھ صحابہ کے ساتھ ساٹھ ہزار کافروں کو شکست دی۔حج کے موقع پر آپ ؐ نے اپنے بال مبارک کٹوائے تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیے اس پر آپ ؐ نے وجہ پوچھی تو آپ ؓ نے بتایا کہ ان بال مبارک کی وجہ سے مجھے جنگ میں شکست نہیں ہوتی، تو آپؐ نے فرمایا اس کے ساتھ میری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہیں۔ غزوہ احد کے بعد ۸ ہجری خالد بن ولیدؓ،حضرت عمرو بن العاصؓ ؓاور حضرت عثمان بن طلحہؓ یہ تمام صحابہ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔حضرت خالد بن ولید ؓ نے آپ ؐ سے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں مجھ سے جو گناہ سرزد ہوئے ان کی معافی چاہتا ہوں اس پر آپؐ نے فرمایا آپ ؓ کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردئیے۔اس پر آپ ؓ نے عہد کیا کہ آپ ؓ کی تلوار کے ساتھ ہم رکابی میں ساتھ رہے گی اور وہ آپ ؐ کے ساتھ ملکر جہاد کریں گے۔۲ معرکے آپ ؐ کے حکم اور اجازت سے لڑے ان میں ایک جنگ موتہ بھی تھی۔جنگ موتہ کے بارے میں ایک بات یہ بھی اہم ہے حضرت زید بن حارثؓ نے اس جنگ کی قیادت کی۔آپ ؐ نے فرمایا اگر زید ؓ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفرؓ علم سنبھالیں گے اگر وہ شہید ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن رواؓ پرچم اٹھا لیں اور وہ شہید ہوجائیں تو مسلمان جس کو چاہیں اپنا امیر بنالیں۔پھر ایسا ہی ہوا حضرت خالد بن ولید ؓ نے مسلمانوں کے لشکر کی قیادت سنبھالی،انتہائی خراب صورتحال ہونے کے باوجود مسلمانوں کو دشمن کے نرغے سے باہر نکال لائے۔جنگ موتہ پر پہلی بار آپؓ مسلمانوں کے سپہ سالار بنے،خلافت راشدہ کے دورمیں آپؓ کو اپنی تلوار کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فتنہ ارتداد کو دبانے کے لیے آپ ؓ کو منتخب کیا۔آپ ؐ کے وصال کے بعد بہت سے قبائل ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے۔ان تمام کی سرکوبی کے لیے جس سپہ سالار کو منتخب کیا گیا تھا وہ بھی حضرت خالد بن ولید ؓ ہی تھے۔آپ ؐ کی نگاہ کے بعد جو کامیابیاں آپ ؓ کو ہوئیں ان کی مثال بہت کم ملتی ہیں۔آپ ؓ کو اپنے آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ آپ ؓ نے ایران کے بادشاہ کو جو خط لکھا تھا کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ دو یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔تمہیں پتہ نہیں کہ تم کن سے ٹکراؤ گے جو لوگ میرے ساتھ ہیں انہیں موت سے اسی طرح محبت ہے جیسے تمہیں اپنی زندگی سے ہے۔میدان جنگ میں آپؓ کا جنگی نعرہ تھا میں غیرت مند جنگجو ہوں میں اللہ کی تلوار ہوں میں خالد بن ولید ہوں۔آپ ؓ کی جھڑپ ہوتی تو انتہائی خونریز ہوتی۔ایک جنگ میں دشمن نے مسلمانوں کو دھوکے سے شہید کردیا تو آپ ؓ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ جتنے بھی دشمن پکڑیں گے تو اسی جگہ پر لاکر ایک ایک کر کے ماریں گے۔بعد میں دشمن کو دور دور سے پکڑ کر اسی مقام پر لاکر مار دیا گیا۔ کیونکہ آپ ؓ نے اللہ سے وعدہ کیا تھا اس جنگ میں ستر کافروں کو واصل جہنم کیا۔خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو اٹھارہ ہزار کا لشکر دے کر عراق روانہ کیا انہوں نے آتش پرست ایرانیوں،حیرہ اور الجزیرہ میں ان کے زیر نگین عرب حاکموں کو شکست دی۔دریا ئے فرات کے مغرب میں ایرانی فوجوں کا صفایا کیا اور پندرہ معرکے سرکئے۔ان کی عسکری صلاحیتوں کو ضرورت شام میں پڑ گئی۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں لکھا کہ وہ اپنی آدھی فوج لے کر شام پہنچیں اور آدھی مثنیٰ بن حارثہ ؓ کے پاس عراق میں چھوڑ جائیں۔صفر تیرہ ہجری اپریل 634 ء ان کے پیچھے مثنیٰ بن حارثہ ؓ نے اواخر ربیع الاول،تیرہ ہجری 634 ء میں بابل کے مقام پر دس ہزار ایرانیوں کو شکست دی۔تیرہ ہجری اکیس جمادی الاخرہ تیئس اگست 634ء کو ابوبکر صدیقؓ نے رحلت فرمائی اور امیرالمومنین عمر بن خطاب ؓ نے خلافت سنبھالی انہوں نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو معزول کرکے ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو اسلامی عساکر کا امیر مقرر کیا۔محاصرہ دمشق کے دوران حضرت خالد بن ولید ؓ شہر کے مشرق میں تھے۔عمروبن عاص ؓ اور شرجیل ؓ شمال میں تھے ابو عبیدہ ؓ مغرب میں یزید بن ابی سفیان ؓ جنوب میں تھے۔انہوں نے جب محاصرہ سخت کردیا اور محصور رومی لشکر کے قائدنطاس نطورس کو کمک پہنچنے کی کوئی امید نہ رہی تو اس نے ابو عبیدہ ؓ سے صلح کی درخواست کی ادھر دمشق کے رومی گورنر نے حضرت خالد بن ولید ؓ سے امان طلب کی جو انہوں نے دے دی اس دوران میں زطاس کے نومولود بیٹے کے جشن ولادت کی وجہ سے اس کا لشکر غفلت میں پڑگیا جس سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو مشرقی دروازہ فتح کرنے کا موقعہ مل گیا۔ادھر مغربی دروازے کے رومیوں نے ابو عبیدہ ؓ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے یوں اتوار پندرہ رجب چودہ ہجری تین ستمبر635 ء کو دمشق کا سقوط عمل میں آیا۔اکیس ہجری میں شام کے شہر حمس میں وفات پائی اس وقت حضرت عمر ؓ خلیفہ تھے۔۔آپؓ نے خلیفہ وقت کو اپنی جائیدادکی تقسیم کی وصیت کی۔آپ ؓ کو اس بات پر سخت افسوس تھا کہ میدان جہاد کے بجائے بستر پر موت آئی۔آپ ؓ کے وجود کا کوئی حصہ نہیں تھا جہاں پر زخم نہ آیا ہو۔ آپ ؓ کی اہلیہ نے آپ ؓ کو تسلی دی کہ اللہ کے رسول ؐ نے آپ ؓ کو سیف اللہ کا لقب دیا اور اللہ کی تلوار کی دشمن کبھی کاٹ نہیں سکتا اس پر آپ ؓ کو اطمینان ہوا۔جہاد سے ہی کفر کا غلبہ ٹوٹے گا۔اللہ سے دعا ہے دنیا بھر کے مجاہدین کو حضرت خالد بن ولید ؓ کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق دے اور خصوصاََ مجاہدین کشمیر کو جہاد کے میدانوں میں ثابت قدم رکھے۔آمین