حضرت قاری سیف الدین

عبد الرشید شاہ

ان کی زندگی کا ہر گوشہ تحریکِ اسلامی کے لیے وقف تھا

ان کی گفتگو میں نہ صرف علمی گہرائی بلکہ زبان میں سادگی، فکر میں پاکیزگی، اور لہجے میں اثر ہوتا تھا

رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے، بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے، حقِ خودارادیت کی وکالت کرتے رہے

انہوں نے کبھی قومی مفاد پر جماعتی یا ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دی شدید ریاستی دباؤ کے باوجود جماعتی نظم و ضبط کو قائم رکھا

کشمیری قوم کے حقِ خودارادیت کے لیے بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں

قاری سیف الدین ؒجماعت اسلامی جموں و کشمیر کے اُن مخلص اور صاحبِ بصیرت رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے دین، سیاست اور تحریکی عمل کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا۔ وہ ایک صاحبِ علم، ممتاز خطیب، قیم جماعت اسلامی، اور جموں و کشمیر اسمبلی کے باوقار رکن بھی رہے۔ ان کی زندگی کا ہر گوشہ تحریکِ اسلامی کے لیے وقف تھا۔قاری سیف الدین کی تقاریر میں قرآن فہمی، جذبۂ دعوت، اور تحریکِ حریت کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ ان کی گفتگو میں نہ صرف علمی گہرائی ہوتی بلکہ زبان میں سادگی، فکر میں پاکیزگی، اور لہجے میں اثر ہوتا تھا۔ وہ سادہ زبان میں عام کشمیری عوام تک دین کا پیغام پہنچاتے، اور قرآن و سنت کی روشنی میں انہیں اپنے مقام و کردار سے آگاہ کرتے۔ان کی تقاریر کا ایک خاص پہلو ’’قرآنی شعور کی بیداری‘‘ تھا۔ وہ اکثر فرمایا کرتے:
’’یہ قوم جب تک قرآن سے رشتہ مضبوط نہیں کرے گی، نہ دنیا میں عزت ملے گی، نہ آخرت میں فلاح‘‘۔تحریکِ آزادی پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی زبان میں نرمی ضرور ہوتی، لیکن پیغام میں غیرت، حمیت، اور دعوتِ شہادت جھلکتی تھی۔قاری سیف الدین جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے، اور وہاں انہوں نے اسلامی اقدار اور کشمیری عوام کے تشخص کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا۔ ان کا پارلیمانی کردار دیگر روایتی سیاست دانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اسمبلی کو محض سیاسی بحث کا مرکز نہیں سمجھتے تھے بلکہ اُسے عوامی خدمت اور دینی پیغام رسانی کا ایک ذریعہ تصور کرتے۔وہ جماعت اسلامی گروپ کے گروپ لیڈر بھی رہے ۔گروپ میں قائد تحریک حریت امام گیلانی ،شہید عبد الرزاق میر اور علی محمد ڈار شامل تھے ۔اسمبلی میں وہ ہمیشہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے،کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی وکالت کرتے،تعلیمی اصلاحات اور اسلامی نصاب کی بات کرتے،کرپشن، ناانصافی اور اقربا پروری کے خلاف دوٹوک مؤقف اپناتے۔

ان کی تقاریر اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہیں جن میں انہوں نے بارہا بھارتی آئین کو مسترد کرتے ہوئے ،اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ۔ انہوں نے کبھی قومی مفاد پر جماعتی یا ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دی ۔قاری سیف الدین نے جماعت اسلامی میں بطور قیم (General Secretary) بھی طویل مدت تک خدمات انجام دیں۔ اس حیثیت سےانہوں نے کارکنان کی تربیت کے لیے وسیع لائحہ عمل تیار کیا،دعوتی، تعلیمی اور فلاحی منصوبوں کو مربوط کیا،جماعت کی پالیسیوں کو عوام تک مؤثر انداز میں پہنچایا،شدید ریاستی دباؤ کے باوجود جماعتی نظم و ضبط کو قائم رکھا۔ان کے دور میں جماعت نے کئی نوجوان اسکالرز، دینی رہنما، اور سماجی کارکن پیدا کیے جنہوں نے آگے چل کر تحریک کو مضبوطی بخشی۔قاری سیف الدین نے کشمیری قوم کے حقِ خودارادیت کے لیے بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔جیل کی صعوبتوں کو کا ذکر تفصیل سے اپنی کتاب متاع زندا ن میں کیا ہے ۔وہ بانی امیرجماعت اسلامی جناب سعد الدین ؒ کے قریبی ساتھی تھے اور عملاََ جماعت کے بانیوں میں ہی شمار کئے جاتے ہیں ۔امام گیلانی ؒ ان کے ہمیشہ مداح رہے ہیں ۔ ان پر بارہا کالے قوانین کے تحت مقدمات قائم کیے گئے، مگر انہوں نے کبھی عدالتی یا ریاستی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ ان کی استقامت کارکنان کے لیے مشعلِ راہ بنی۔قاری سیف الدین کی شخصیت ایک مکمل اسلامی رہنما کی تھی۔ انہوں نے دعوت، سیاست، تعلیم، تنظیم اور جدوجہدِ آزادی کو یکجا کرکے یہ مثال قائم کی کہ دین اور سیاست کو جدا کرنا ممکن نہیں۔ ان کا طرزِ گفتار، اندازِ قیادت، اور تحریکی استقامت آج بھی تحریکِ اسلامی کے لیے مینارۂ نور ہے۔28جون 2008 کو وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔ان کی وفات محض ایک فرد کی جدائی نہیں بلکہ ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ تاہم ان کے افکار، ان کی جدوجہد، اور ان کی دی ہوئی تربیت آج بھی جماعت اسلامی اور کشمیری قوم کی راہوں کو روشن کر رہی ہے۔