
شیخ محمد امین
بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
دو سال پہلے 24اگست2021برادرم نجم الدین خانؒ ہم سے جدا ہوئے ۔شخص ہی ایسا تھا کہ بار بار یاد آتے ہیں ۔جب اپنی سرزمین میں تھے تو اطلاع ملی کہ بھائی قیوم شہادت سے سرفراز ہوئے ۔انا للہ وان الیہ راجعون پڑھ کر ،ان کی بلندی درجات کی دعا کی ۔میدان عمل میں اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا ،کہ جو راستہ ہم نے چنا ہے ،اس میں ایساہی کچھ ہوگا اور ہوتا رہے گا۔صبر کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور آخری سانس تک باطل قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے ۔فوج ،پولیس اور کوکہ پرے فورس ہر طرف آپ کی تلاش کو نکلے ،آپ کو ڈھونڈتے رہے ،ان کے والدین پر دباو ڈالتے رہے کہ معذور شخص ہے ،اسے کہہ دیں ،سرینڈر کریں ،ہم بخشیں گے ،معاف کریں گے لیکن اس مرد حر نے کہا کہ جب امام شیخ احمد یاسین ؒ وھیل چئیر پر بیٹھ کر اسرئیلی قابض فورسز کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے ،میں تو چل پھر سکتا ہوں ۔۔میں پیٹھ دکھاکر ،اپنے اسلاف کی توہین کرنے پر کیوں آئوں۔۔قائد تحریک حریت جو ان کے چاچا بھی تھے ۔۔جناب اشرف صحرائی ؒ نے انہیں بھر پوراصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ گرفتاری سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں ،بہتر ہے کہ ہجرت کے سفر پر روانہ ہوجائیں ۔ اسی دوران تنظیم کی طرف سے بھی ہجرت کا حکم ملا ۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ،اپنے وطن عزیز کے دوسرے حصے آزاد کشمیر تشریف لائے ۔ہجرت کی فضیلت اپنی جگہ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ۔اپنے والدین،بھائیوں ،بہنوں ،رشتہ داروں اوردوستوں سے دور اجنبیوں کے ساتھ زندگی گذارنے کی تلخیاں وہی جانتے ہیں جو ایسی زندگی گزاررہے ہیں ۔دور کنارے پر بیٹھا ہواشخص نہیں جانتا کہ دریا کی لہروں کی لپیٹ میں گھرا شخص کس طرح کی تکلیف اور آزمائش سے دوچار ہے ۔بہرحال حضرت نجم الدین خان ؒ نے ان لہروں کے درمیان ہی اب زندگی گزارنے کا فیصلہ کیاتھا۔


یہاں اسے مسئلہ کشمیر کے دوسرے اور انتہائی اہم فریق کے حکمرانوں کو نزدیک سے سمجھنے کا موقع ملا۔اپنی جہادی اور سیاسی قیادت کی صلاحیتوں کو دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندگی کی آخری سانس تک بے سکون رہے ۔۔ شاعر انقلاب حفیظ میرٹھیؒ کے اس شعر کی عملی تفسیر کا روپ دھار گئے کہ ۔۔سکوں مجھ کو نہیں درکار آقا۔۔بڑھا دیجئے مری بے تابیء دل۔ کشمیر ،تحریک آزادی کشمیر ،پاکستان کی کشمیر پالیسی ،ہم اور ہماری قیادت کا کردار ،مہاجرین کشمیر کے مسائل۔۔پر بغیر کسی لاگ لپٹ کے بات کرتے تھے۔نرم لہجے میں بھی اور انتہائی گرم لہجے میں بھی ۔۔۔وہ آخر دم تک ہر طاقتور شخص سے سوالات پوچھتے رہے ۔جب کارگل آپریشن ناکام ہوا تو انہوں نے اپنی قیادت سے سوالات پوچھے ،کیا ہوا ،کیسے ہوا ،کیوں ہوا۔طاقتور لوگوں سے بھی سخت سوالات کئے ۔جناب مشرف صاحب نے اقوام متحدہ کی قرادادوں اور حق خودارادیت کے اصولوں سے ہٹ کر ،چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تو نجم الدین خان ؒ ان قلیل اور گنے چنے رہنماوںمیں شا مل تھے جنہوں نے ہر فورم اور ہر جگہ کھل کے اور کھول کے اس کی مخالفت کی ۔ ہجرت کے تلخ ایام کے دوران نہوں نے اپنے والد صاحب قمر الدین خان ؒ کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں شدید تعذیب کا نشانہ بنتے سنا ۔اتنا تشد د ہوا تھا کہ والد صاحب کے حواس متاثر ہوئے اور وہ اسی حالت میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ان کے چچیرے بھائی جنید صحرائی ؒ شہادت کا جام پی گئے ۔ابھی یہ تکلیف بہت ہی صبر کے ساتھ سہہ ہی رہے تھے کہ جموں جیل سے ان کے مربی ،استاد ،چاچا اشرف صحرائی ؒ کی شہادت کی خبر بھی سننی پڑی ۔صبر کا یہ مجسمہ ۔۔۔صبر ہی کرتا رہا لیکن جب ان قربانیوں کے ساتھ نہ صرف غیر بلکہ اپنوں کا کھلواڑ ہوتے دیکھتا تو برداشت کیسے کرتا۔بول اٹھتا تھا ۔بولتا تھا ۔کبھی کبھار گستاخی کی حد تک بھی جاتا تھا۔۔۔۔۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ وہ شخص خود بھی عملی انسان تھا اور باعمل اور سرفروش خاندان سے تعلق بھی رکھتاتھا۔

مساکین و غرباء کی بے کسی و بے بسی پر صرف افسوس اور زبانی ہمدردی تک محدود نہیں رہا ۔ان کیلئے فلاح عام سوسائٹی کے نام پر ایک ادارہ بھی قائم کیا ،جہاں سے کسی نہ کسی حد تک ان کی مدد بھی ہو جاتی تھی۔ 24اگست 2021کو یہ شخص جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ “ایک شخص ۔۔ایک کارواں”ہم سے جدا ہوا۔ان کی جدائی پر حزب سربراہ سید صلاح الدین نے کہا کہ “ان کی وفات سے تحریک آزادی کشمیرایک قائد سے محروم ہوگئی “حزب نائب امیر سیف اللہ خالد نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ “دشمن کے ساتھ بے تیغ لڑنے کا ہنر ان کی خدا داد صلاحیت تھی ،لاگ لپٹی کے بغیر بے باک بات کرنا ان کی صفت حمیدہ تھی ،دلیل کے ساتھ گفتگو کرنا ان کا خاصہ تھا۔تحریک آزادی کیلئے عشق و مستی میں جنونی کیفیت سے گذرنے والی شخصیت کا نام نجم الدین خان تھا”حزب المجاہدین رہنما امتیاز عالم نے ان کے انتقال کے موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا ،کہا کہ ایسے لوگ ہی تحریکوں کا اثاثہ ہوتے ہیں ،خوش آمدی اور درباری لوگ کیا جانیں کہ کون چلا گیا ۔ ” بردرم امتیاز عالم بھی نجم الدین خان ؒ کی طرح دشمن کے ساتھ بے تیغ لڑنے کا ہنر بھی جانتا تھا ،وہ بھی نجم صاحب ؒ کی طرح بے سکوں اوربے قرار تھا۔۔۔ٓاسے دشمن کے ایجنٹوں نے ۔۔۔۔۔قتل کیا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں واضح حکم ہے کہ ا للہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل ہوتے ہیں ،انہیں مردہ مت کہو ،وہ زندہ ہیں لیکن آپ کو اس کا شعور نہیں ۔۔۔اللہ تعلی دونوں قائدین کے درجات بلند اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت عطا فرمائے ۔آمین

نعت شریف
میسر ہو اگر ایمانِ کامل
کہاں کی الجھنیں کیسے مسائل
نہیں جن میں تمہارا عکس شامل
وہ نقشے ہیں مٹا دینے کے قابل
ثبوتِ عظمتِ انسانیت ہیں
محمد مصطفی(ﷺ) انسانِ کامل
تمہارا ہر قدم شمعِ ہدایت
تمہارا نقشِ پا تصویرِ منزل
ہزار آزادیوں سے لاکھ بہتر
تمہارے عشق کے طوق و سلاسل
تمہارے قولِ فیصل سے ہوئی ہے
نمایاں خیر و شر کی حدِ فاصل
سکوں مجھ کو نہیں درکار آقا
بڑھا دیجئے مری بے تابی دل
اجازت ہو تو شاہا پیش کردوں
مرے پہلو میں ہے ٹوٹا ہوا دل
حفیظؔ اُس عشقِ احمد کی بدولت
مجھے ہے دولتِ کونین حاصل
حضرت حفیظ میرٹھی ؒ