حضرت پرو فیسر خورشید احمد

ظہور صوفی

پرو فیسر خورشید احمد۔۔۔تحریکِ اسلامی کا درخشاں ستارہ اور کشمیریوں کا سچا محسن

سید مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے فکری اور نظریاتی وارث سمجھے جاتے تھے

اسلامی معیشت کے بانیوں میں شمارپروفیسر صاحب کا سب سے نمایاں علمی کارنامہ اسلامی معیشت کے میدان میں ہے

وہ ان ابتدائی افراد میں شامل تھے جنہوں نے اسلامی اکنامکس کو ایک مربوط، سائنسی اور قابلِ عمل شعبہ بنایا

پروفیسر خورشید احمد کا دل کشمیری عوام کے درد سے معمور تھا۔ وہ بھارتی ظلم و ستم کاشکار مظلوم کشمیریوں کی آواز بنے

پروفیسر صاحب نہ صرف علم کے سمندر تھے بلکہ ان کی شخصیت میں روحانیت، عاجزی اور خلوص کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا تھا

‎لیسٹر میں پروفیسر خورشید احمد مرحوم کا جنازہ ایک ایسا روحانی، ایمانی اور دل کو چھو لینے والا منظر تھا جسے دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل ان کے عشق سے لبریز نظر آ رہا تھا۔ ان کے برادرِ مکرم ڈاکٹر انیس احم جو خاص طور پر پاکستان سے تشریف لائے تھے نے نمازِ جنازہ کی امامت فرمائی۔ انتہائی قلیل وقت میں اطلاع کے باوجود، برطانیہ کے کونے کونے سے تحریکِ اسلامی، علم و دین، اور فکری جدوجہد سے وابستہ افراد کی اتنی بڑی تعداد کا جمع ہونا اس بات کی روشن دلیل تھا کہ پروفیسر خورشید احمد مرحوم نہ صرف ایک بلند پایہ دانشور تھے بلکہ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔

‎پروفیسر خورشید احمد 1932 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے ذہین، سنجیدہ اور دین سے محبت رکھنے والے طالبعلم کے طور پر جانے گئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے معاشیات میں ماسٹرز اور پھر بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ علم و فہم میں غیر معمولی مہارت کے باعث وہ جلد ہی بین الاقوامی سطح پر ایک ممتاز اسلامی ماہرِ معاشیات کے طور پر ابھرے۔ پروفیسر خورشید احمد نے بہت کم عمری میں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کی۔ ان کی تحریکی زندگی کا آغاز اسی وقت سے ہوا اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے اس کارواں کے ایک مضبوط ستون بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر تحریکِ اسلامی کو علمی، فکری اور نظریاتی بنیادیں فراہم کیں‎وہ سید مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے فکری اور نظریاتی وارث سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے اسلامی معیشت، اسلامی ریاست، تعلیم، سیاست، اور تہذیبی کشمکش جیسے اہم موضوعات پر گراں قدر علمی کام کیا۔ ان کا اندازِ فکر گہرائی اور وسعت کا حسین امتزاج تھا۔اسلامی معیشت کے بانیوں میں شمارپروفیسر صاحب کا سب سے نمایاں علمی کارنامہ اسلامی معیشت کے میدان میں ہے۔ وہ ان ابتدائی افراد میں شامل تھے جنہوں نے اسلامی اکنامکس کو ایک مربوط، سائنسی اور قابلِ عمل شعبہ بنایا۔ انہوں نے معاشی انصاف، زکوٰۃ، سود کی حرمت، اور سرمایہ داری کے خلاف اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایسے نظریات پیش کیے جو آج بھی پوری دنیا میں اسلامی بینکاری کے نظام کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تحریر کیے، جو نہ صرف دینی حلقوں میں بلکہ مغربی علمی دنیا میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھےگئے۔ انہیں بین الاقوامی سطح پر مختلف یونیورسٹیوں، کانفرنسز، اور تھنک ٹینکس میں مدعو کیا جاتا رہا، جہاں انہوں نے اسلام کی فکری برتری کو مدلل انداز میں پیش کیا۔‎پروفیسر خورشید احمد کا دل کشمیری عوام کے درد سے معمور تھا۔ وہ بھارتی ظلم و ستم کاشکار مظلوم کشمیریوں کی آواز بنے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔‎انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو محض ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے امت مسلمہ کا ایک اخلاقی، انسانی اور دینی مسئلہ قرار دیا۔ وہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے حامی اور علمبردار کے طور پر متحرک رہے۔ ان کی کوششوں کے باعث مسئلہ کشمیر کئی بار بین الاقوامی ایجنڈا پر زیرِ بحث آیا۔‎انہوں نے کشمیری نوجوانوں کی تربیت، تعلیم اور رہنمائی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ تحریکِ حریت کے رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور ان کے لیے ہر ممکن اخلاقی، علمی اور سفارتی مدد فراہم کرتے تھے۔‎پروفیسر خورشید احمد کئی دہائیوں تک مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ہزاروں طلبہ کو نہ صرف معیشت سکھائی بلکہ انہیں ایک نظریاتی انسان بنانے کی بھی کوشش کی۔ ان کے لیکچرز، گفتگو اور مشورے نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ تھے۔‎انہوں نے اسلام آباد میں ’’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘ کی بنیاد رکھی، جو آج بھی فکری اور تحقیقی میدان میں ایک فعال ادارہ ہے۔‎پروفیسر صاحب نہ صرف علم کے سمندر تھے بلکہ ان کی شخصیت میں روحانیت، عاجزی اور خلوص کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا تھا۔ وہ بزرگوں کا ادب، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی، اور نظریاتی گفتگو کا سلیقہ رکھتے تھے۔ ان سے ملنے والا ہر شخص خود کو علم، محبت اور اعتماد سے مالا مال محسوس کرتا تھا۔‎پروفیسر خورشید احمد جنوبی ایشیا کی تحریکِ اسلامی کی ’’سلسلۃ الذہب‘‘ کی آخری چمکتی کڑیوں میں سے تھے۔ اب یہ گوہر نایاب بھی اپنے خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہو چکا۔ہمیں چاہیے کہ ان کے علمی، فکری اور تحریکی ورثے کو سنبھالیں، ان کے مشن کو آگے بڑھائیں، اور کشمیری بھائیوں کے لیے اسی جذبے سے کام کرتے رہیں جس کے وہ علمبردار تھے۔بارگاہِ الٰہی میں دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت نصیب فرمائے اور ان کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔