شہزاد منیر احمد
حقیقت یا افسانہ، Mythology or Reality. کہا جاتا ہے دونوں کو پیروکار مل جاتے ہیں۔ 12 خدائوں میں بٹا ہوا یونان دیکھ کر شیطان کی ڈھارس بندھی تھی کہ اب وہ اپنے مشن میں ناکام نہیں ہوگا۔ کیونکہ اب اس کی مزاحمت کرنے والے وہ بندے نہیں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ نے اسے متنبہ کیا تھا کہ جو میرے بندے ہوںگے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ شیطان اب خوش تھا کہ انسان یونانی جعلی خداؤں کے آگے جھک سکتے ہیں ان میں سے اسے وافر تعداد میں مرید مل جائیں گے۔
یونانی خدائوں کے بادشاہ ZEUS کو شیطان نے دعوت طعام دی تو وہ بڑا خوش ہوا ۔شیطانی بندوبست میں تقریب طعام کو دیکھ کر اس کے درباری بہت خوش ہوئے اور ZEUS کے پیروکار شیطان کے مداح بن گئے۔ گویا شیطان کا حربہ بڑا ہی موثر ثابت ہوا تھا۔شیطان لعین نے تھوڑے دنوں بعد ZEUS کے پیرو کار، عقل کے اندھوں میں کل وقتی اتالیق مقرر کیا جس کا نام اس نے ” عشق ”رکھا۔ اس گروہ کی نگرانی شیطان خود کرتا۔ ان لوگوں نے اللہ کی عطا کردہ عقل سلیم فضول کہہ کر ترک کیا اور ”عشق” کا پرچار کرنے لگے۔ تھوڑے ہی عرصے میں شیطانی فلسفہ عشق دور و نزدیک چار سو پھیل گیا۔ یونانی فلا سفر سقراط نے ان عاشقوں کو ترک عقل اور عشق کے نام پر کج روی کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کی کوشش تو کی مگر وہ ناکام رہا۔ لذت دہن اور ہوس دنیا کے رسیا عاشقوں نے ایکا کر کے یونانی حکمرانوں کے ہاتھوں، ریاست یونان کی تہذیب و تمدن کی بحالی کے نام پر ریاستی مصنفین کی معاونت سے سقراط کو زہر کا پیالہ پلا کر چھوڑا۔
شیطان کے انہیں عاشقوں کے چیلے آج بھی آہنی گنگرو باندھے، لوہے کی من من کی زنجیروں میں جھکڑے ناچتے، دھمالیں ڈالتے عشق کے نام پر جہالت پھیلاتے پھرتے ہیں۔ عقل سلیم اگر انہیں عقل کے ناخن لینے کی تعلیم و تربیت کے لیے قدم بڑھائے بھی تو انہیں، ” (مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے)” کہہ کر منع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ معاشرتی زندگی میں مذہب انسان کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ قوم کا اجتماعی مسئلہ ہوتا ہے۔ قومی تہذیب و تمدن کے اس تنار درخت کی ساری شاخیں مذہب و عقائد سے پھوٹتی ہیں۔
اب ہر مسلمان حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کے پائے کا تو ذکر ا للہ اور محبت رسول اللہ نہیں رکھتا۔ اور ہر عورت حضرت آسیہ رضی اللّٰہ عنہا کا ساحسن شکر و صبر کی حامل نہیں ہو سکتی، کہ وہ دینی استقامت دکھا سکے۔ اور ان عاشقوں سے کہے کہ دین اسلام میں عشق کے دعوے کی نہیں اعمال صالح کی اہمیت ہے۔ عشق کا جذبہ حصول علم و ہنر اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے، اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کار آمد ثابت ہوتا ہے۔
عبادات میں اطیعوا اللہ و اطیعو الرسول کی اہمیت ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی مینارہ نور ھدایت ہے۔ ان جیسا مجاہد قائد اور سپہ سالار دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ جس شہر (مکہ) سے محمد ابن عبداللہ ﷺنے کسمپرسی کی حالت میں رات کے اندھیرے میں ایک ساتھی کے ہمراہ ہجرت کی اسی شہر میں صرف آٹھ سال کی عبادت و محنت اور اسلامی تربیت سے انہوں نے ایسے ایسے جری کردارمجاہدوں کا لشکر تیار کرلیا کہ بڑے بڑے عسکری علوم کے ماہرین بھی ان کے سامنے نہیں ٹھہرتے تھے۔ محمد ابن عبداللہ، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہزاروں جانثاروں کے ساتھ دن کے اجالے میں بے مثال شان و وقار سے مکہ کو فتح کیا، اوربے مثل فاتح کی حیثیت سے مکہ شہر میں داخل ہوئے اور ریاست مدینہ کی بنیا رکھی۔ فاتح مکہ کی جنگی حکمتِ عملی اس قدر مضبوط بنیادوں اور لائحہ عمل پر مشتمل ہوتی کہ اقوام اغیار کے سپہ سالار حیران رہ جاتے۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے ہر وار کو بہتر حکمت عملی سے بے اثر بنایا اور میدان جنگ میں کامیابیاں سمیٹیں۔
مشرقی افق سے ابھرتے نور ھدایت کا پیغام تھا،اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لاؤ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔رسول اللہﷺ کے صحابی معاذ بن جبل کو ان کی یہ وصیت اس میں شامل ہوئی ” رب آ عنی علی ذکرک و شکرک و حسن عبادتک” ترجمہ، اے اللّٰہ میری مدد فرمائیں کہ میں ذکر اللہ اور شکر اللہ کروں اور تیری بہتر عبادت کروں۔
دھمال ڈالنے کے شوقین من چلوں نے اپنی طرف سے کہیں ”جھولے لال قلندر” اور کہیں” بری بری، میری کھوٹی قسمت کروو ہری کے ترانے شامل کر کے خوب دھمالیں ڈالیں اور ایک نئی ثقافت ایجاد و رائج کر دی۔۔ وہ یہ بھول گئے کہ عشق کے نام پر توحید ورسالت سے یہ انحراف ایک عجب طرح کی رہبانیت کا سفر ہے۔ اس نور ھدایت کے بہتے سارے دھارے خشک ہو جائیں گے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ہم اپنے مرکز، اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول سے کٹ کر اپنی ممتاز شناخت کھو دیں گے۔
اطیعواللہ و اطیعوا الرسول کی پابندی معاشرے میں
پر امن معاشرتی زندگی کی ضمانت ہے۔ مالی امور اور معیشت کے ماہرین نے اس محکم ضمانت پر اب اعتراض یہ لگایا ہے کہ عورت پر پردہ کی پابندی ہماری ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔مکمل نسوانی آزادی اور سودی لین دین کی چھوٹ کے بغیر معیشت کا اگے چلنا مشکل ہے۔ واہ!.یہ فلسفہ بلا شبہ اللہ کے احکامات کو نعوذباللہ غلط قرار دینے کے مترادف ہے۔ اہل دانش و تدبر انہیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ حکیم الامت علامہ اقبال کی تحقیق کو ہر گز ناقص نہیں سمجھتے۔ تم کہہ دو ” کہ قوم رسول ہاشمی اپنی ترتیب و ترکیب میں خاص نہیں ہے بلکہ اقوام اغیار کی طرح ہی ایک قوم ہے۔۔ حکیم الامت علامہ اقبال کی تحقیق پر اسلام آباد کے بابووں کا بے بنیاد فتویٰ” حاوی نظر آتا ہے۔
پہلے پہل پیٹی بھائی کی اصطلاح پولیس کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ پھر وردی والے بھی دامے درمے اور قدمے سخنے شامل ہوتے گئے۔اب اللہ کے فضل سے اس میں جاگیردار، بیوریوکریسی، سیاستدان کیا، ہر طبقہ معاشرت شامل ہو چکا ہے۔ ” کھان پین نوں وکھو وکھ، لڑن بھڑن نو اکٹھے” سرکاری اہلکار تو شائد کہیں دوسرے ملازم کے خلاف زبان کھول ہی دے مگر جاگیردار اس ضمن میں مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
صدر مملکت جناب آصف زرداری نے ملک کی غربت،دم توڑتی جمہوریت اور ڈوبتی ہوئی معیشت کا ذمہ دار اسلام آباد میں بیٹھے کم عقل اور سوچ سے عاری ” بابووں” کو قرار دیا ہے۔ سندھ سے ان کے پیٹی بھائی نے اس کی مکمل اتباع و معاونت میں مشہور سیاستدان، جی ایم سید کے پوتے، سید محمود جلال شاہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سندھ میں جاگیرداری کے باعث عوام کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ حالات کی خرابی کی ذمہ دار بری حکمرانی ہے۔



یہ سوال محمود شاہ صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ حکومت میں عشروں سے کون شامل رہے ہیں۔ اس غریب نمائندے کا نام بتا دیں جو جاگردار نہیں ہے۔ لیکن شاہ صاحب جواب دینے کے پابند نہیں کیونکہ:-
جاگیردار جتنا خود سر، خودمختار، آزاد اور طاقتور پاکستان میں ہے، ویسی آزادی دنیا بھر میں کہیں کسی لارڈ، گورنر اور سٹیٹ اونر کو بھی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں جاگیرداری کو ختم کرنا تو درکنار اس کے تو دائرہ اختیارات کو بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ اج تک ان پر زرعی ٹیکس تک نہیں لگایا جا سکا۔ چونکہ ان جاگیرداروں کو 3 جون 1946 کو پتہ چل گیا تھا کہ ہندوستان میں جاگیرداری ختم کی جانے والی ہے۔وہ فورا آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ پاکستان بنا تو یہاں ان جاگیرداروں کے وارے نیارے ہو گئے۔
اندازہ کریں کہ پہلے انتخابات کی کل 197 سیٹیوں میں سے 189 پر تو لوگ انتخاب لڑ کر پارلیمنٹ پہنچے جب کہ باقی بلا مقابلہ منتخب ہوئے اور وہ سب کے سب جاگیر دار تھے۔ اللہ نے سب انسانوں کو ایک جیسے عناصر کے آمیزے سے بنایا ھے مگر وہ اپنے فکر و عمل میں ایک جیسے نہیں۔ اور نا ہی کوئی انسان اس تخلیق میں کوئی کمی بیشی کر سکتا ھے۔ اس حقیقت کی حکمت صرف اللہ خالق کائنات ہی جانتا ہے۔ انسانی رویہ اس کے عقیدے سے پھوٹتا ہے۔ اور عقیدے کسی کے ذہن میں زبردستی ٹھونسے نہیں جا سکتے۔ فرمان الٰہیہ یاد رکھیں۔ ” لا اکرہ فی الدین” یعنی نا تو دین میں جبر ہے اور نا ہی تنگ نظری۔ ہر فرد اپنے عقیدے اور دین پرستی میں آزاد ہے۔
عالم اور مقتدر افراد اپنے تئیں کچھ بھی دعویٰ کر سکتے ہیں۔ سائنس دان اور محققین حیران کن کارنامے انجام دیتے رہے ہیں اور وہ آج بھی ایسے معجزاتی کام کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ از راہِ مزاح و مذاق کہہ سکتے ہیں کہ معاشرتی زندگی کی چابی ان کے ہاتھ میں ہے جس سے وہ انہیں زندگی کی راحتیں اور موت کے منظر دکھا سکتا ہے۔ ہمیں ان کا یہ دعوے تسلیم کرنا پڑے گا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان ان سائنسدانوں کے ہاتھوں مرا۔وہی جاپان انہی سائنسدانوں کی ایجادات و دریافتوں سے معاشرتی و معاشی زندگی پانے والا ہمارے سامنے ہے۔ سائنسدان زندگی تخلیق نہیں کر سکتا، البتہ زندگی لینے کا آلہ اس نے ایجاد کر رکھا ہے۔ اس کا معاصر عالم (سیاستدان و بیوریوکریٹ) بھی معاشرتی زندگی کو موت سے بد تر بھی بنا دیتا ہے ۔اور اگر چاہے تو معاشرے کو خوشیوں کا گہوارہ بھی بنا سکتا ۔ لیکن سیاستدان اپنی فطری کمزوریوں کے باعث یہ اعزاز حاصل نہیں کر پاتا۔
فلسطین کی آزادی اور کشمیر میں حق خودارادیت کے مسائل عالمی سطح کی کوششوں سے بھی حل نہیں ہو پا رہے۔ کیوں؟
امریکہ اور سوشلسٹ روس کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں مذکورہ بالا عالمی مسائل، فلسطین کی آزادی اور کشمیری عوام کی حق خودارادیت پر پھر بھی اقوام متحدہ میں کسی حدتک تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ لیکن اس سرد جنگ کے اختتام کے بعد امریکہ کے واحد سپرپاور بن جانے کے بعد ان مسائلِ کو حل کرنا اقوام متحدہ کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے چلا گیا ہے۔ جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جنگ کوئی سیاسی جنگ نہیں بلکہ یہ اسلامی اور غیر اسلامی دو تہذیبوں کے درمیان کی جنگ رہ گئی ہے۔ اسرائیل کے حالیہ فضائی حملوں سے فلسطین (غزہ) کے ہزاروں بے گناہ و معصوم بچوں ، عورتوں مردوں جوان بوڑھوں کے شہید کر دینے کے بعد تو اقوام متحدہ کی بے بسی بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے میں نا ہی کچھ کر سکی ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں البتہ کشمیری اپنے 95 ہزار سے زیادہ شہیدوں کی قربانی کے بعد بھی اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں معصوم شہریوں پر بھارتی افواج کی طرف سے ڈھائے گئے ظلم و ستم اور اذیتوںکے گرائے پہاڑ پر معروف شاعر ناصر کاظمی نے یہ اشعار لکھے ہیں۔
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
کیا کہوں کس طرح سر بازار
عصمتوں کے دئیے بجھائے گئے
وقت کے ساتھ، ہم بھی اے ناصر
خار و خس کی طرح بہائے گئے۔
مظلوم و محکوم کشمیریوں کو یقین ہے کہ ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ کشمیر جلد یا بدیر آزاد ہوگا اور یقیناَ ہوگا۔
جنگ آزادی کشمیر کا تذکرہ ہو تو کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کے ذکر کے بغیر بات ادھوری رہتی ہے۔
شیخ عبداللہ سری نگر کشمیر کے علاقہ صورہ میں 5 دسمبر 1905 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ ابرھیم، شیخ عبداللہ کی ولادت سے پندرہ دن پہلے فوت ہو ئے تھے۔ شیخ عبداللہ نے ابتدائی تعلیم و قرآن ناظرہ گھر پر پڑھا۔ 1911 میں پرائمری سکول میں داخل ہونے۔ 1922 میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔1924 میں کالج سے ایف ایس سی کیا, علی گڑھ سے MSc کیمسٹری کیا اور واپس کشمیر لوٹ ائے۔شیخ عبداللہ جن دنوں لاہور میں زیر تعلیم رہے اس وقت تک علامہ محمد اقبالؒ بر صغیر کے مسلمانوں کے ہر دلعزیز رہنما کے طور پر عالمی شہرت پا چکے تھے۔ بالخصوص نوجوانوں میں وہ بہت پسندیدہ شخصیت جانے جاتے تھے۔
شیخ عبداللہ بھی کشمیری ہونے کے ناطے شیخ محمد اقبال ؒسے ملنے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں میں، قرآن مجید کی آیات اور علامہ اقبال کے اشعارِ کو مجمعوں میں خوبصورت انداز میں پیش کر کے شہرت پائی تھی۔ شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب میں اس امر کا ذکر اپنی خود نوشت ” آتش چنار” میں بھی جابجا علامہ اقبال سے اپنی وابستگی اور عقیدت اور کلام اقبال کے ذریعے سوئی ہوئی کشمیری قوم کو خواب غفلت سے جگانے کا تذکرہ کیا ہے۔
1938 میں علامہ اقبالؒ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ شیخ عبداللہ کو علامہ اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کشمیر مسلم کانفرنس میں کشمیر کی غیر مسلم آبادی کو نظر انداز نہ کریں۔ بلکہ ان سے اچھے تعلقات استوار کر کے انہیں اپنی تحریک کا حصہ بنائیں تاکہ کشمیری عوام متحد ہو کر ہندوؤں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدو جہد کر سکیں۔یہ ایک مدبر انہ اور بڑا صائب مشورہ تھا۔لیکن شیخ عبداللہ نے اسے اپنی۔پسند کے معنی پہنا کر کشمیر مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس کا نام دے کر الزام علامہ اقبال پرعائد کیا۔ یہ شیخ عبداللہ کی چالاکی تھی، سیاسی حکمت عملی تھی یا نا عاقبت اندیشی، جو کچھ بھی تھا اس کے منفی نتائج شیخ عبداللہ نے بھی بھگتے اور نقصان کشمیری قوم کا بھی ہوا۔
حالانکہ 1925 میں ہندووں کی طرف سے ہندوستان میں ہندو راج قائم کرنے کامنصوبہ اخبار ” وکیل” امرتسر میں 9 دسمبر 1925 کے پرچے میں چھپ چکا تھا۔ منصوبہ کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے۔
1۔۔قرآن مجید کو الہامی کتاب نہ سمجھا جائے۔
2۔۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر نہ مانا جائے۔
3۔۔حج کا خیال دل سے نکال دیا جائے۔
4۔۔سعدی اور رومی۔کی جگہ کبیر اور تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے۔
5۔۔اسلامی تہواروں کی جگہ ہندو تہوار منائے جائیں۔
6۔۔اسلامی نام ترک کر کے ہندو نام رکھے جائیں۔
7۔۔عربی کی بجائے ہندی عبارت کی جائے۔
مذکورہ بالا حقائق اور ہندوؤں کے منصوبے کو جاننے کے باوجود۔۔۔افسوس ۔۔۔ شیخ عبداللہ نے 1939 میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں

شہزاد منیر احمد