ان کے باپ نے کہا ’’میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو گے کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘۔ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اس نے کہا ’’یکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘‘۔پھر اس نے کہا’’میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے‘‘ ۔اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں(متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں بس یعقوب علیہ السلام کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔ یہ لوگ یوسف علیہ السلام کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا)۔ اب تو ان باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں ۔ جب یوسف علیہ السلام ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ’’ اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو ‘‘۔انہوں نے پلٹ کر پوچھا ’’تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟‘‘سرکاری ملازموں نے کہا ’’بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا ‘‘(اور ان کے جمعدار نے کہا)’’ جو شخص لا کر دے گا اس کے لیے ایک بارِشتر انعام ہے، اس کا ذمّہ میں لیتا ہوں‘‘۔ان بھائیوں نے کہا’’ خدا کی قسم ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں۔
سورہ یوسف آ یت66نمبر تا73 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسرے انبیاء ؑ پر فضیلت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے دوسرے انبیا ؑ پرچھ چیزوں سے فضیلت عطا کی گئی ہے: مجھے جوامع الکلم (بات مختصر، مفہوم زیادہ) عطا کیے گئے ہیں، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، مال غنیمت میرے لیے حلال کیا گیا ہے، میرے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور پاک قرار دی گئی ہے مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے، اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘ (رواہ مسلم)
وہ چیز حرام نہیں جسے اللہ نے حلال کردیا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوٹے نہ تھے کہ خیبر کا قلعہ فتح ہو گیا اس روز ہم لوگ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم لہسن پر گرے۔ لوگ بھوکے تھے۔ خوب کھایا، پھر مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اس ناپاک درخت میں سے کھائے وہ مسجد میں ہمارے پاس نہ پھٹکے۔‘‘ لوگ بولے: لہسن حرام ہو گیا، حرام ہو گیا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! میں وہ چیز حرام نہیں کرتا جس کو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کیا ہے لیکن لہسن کی بو مجھے بری معلوم ہوتی ہے۔ ( مسلم )
قبروں کو مسجدیں نہ بنائیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تباہ کرے یہودیوں کو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ (مسلم)