شہزاد منیر احمد
علامہ اقبال ایک ایسی ہمہ صفت شخصیت ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں خود کو ایک مثال بنا کے پیش کیا۔ مثلاََوہ ایک فرمان بردار بیٹے، ذہین طالب علم، مثالی شاگرد، ذمہ دار لڑکا، صحت مند جوان، جری پہلوان، قرآن کا قاری، پابند صوم و صلوٰۃ، محبوب طالب علم شاعر۔ اسلامی ثقافت کا مظہر اور عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ان کو اہل علم و دانش فلسفی شاعر اور حکیم الامت کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ صدیوں پرانی کہاوت ہے ” پوت اور کپوت پالنے ہی سے پہچانے جاتے ہیں ” علامہ اقبال کو خدا کاخوف اور محمد مصطفیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنے والے شیخ نُور محمد جیسے پارسا مزاج باپ کی شفقت پدری نے اور سادہ دل باوضو رہنے والی ماں کی تربیت نے بڑا حساس اور سوچنے والا بچہ بنا دیا تھا۔ ان کی والدہ کہتی تھیں کہ اقبال بچپن سے ہی بڑا خاموش اور فرمان بردار بچہ تھا۔ کبھی ضد نہیں کرتا تھا۔ جس بات سے ایک دفعہ اسے منع کر دیتے تو وہ اسے پھر کبھی نہیں دہراتا تھا۔
کہتے ہیں چھوٹی عمر میں اقبال ایک دفعہ گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کے والد آ کر ساتھ کھڑے ہو گئے اور اقبال کے زیر تلاوتِ قرآنی آیت کا ترجمہ پوچھا تو اقبال نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ شیخ نُور محمد نے انہیں سمجھایا کہ بیٹا قرآن پاک کو آہستہ آہستہ اور سمجھ کر اس طرح پڑھنا چاہیے جیسے یہ مجھ پر ہی نازل ہوا ہے۔ اقبال نے اپنے نیک خو اور راست گو باپ کی نصیحت کو ایسا پلے باندھا اور قرآن پاک کو یوں ہی پڑھا اور سمجھا جیسے یہ ان پر ہی اترا ہو۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ علامہ اقبال کو جاننے سمجھنے والے پکار اٹھے کہ
”یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن“

اقبال تھوڑے بڑے ہوئے تو انہیں شیخ نور محمد نے مولوی میر حسن کی شاگردی میں بٹھا دیا۔ ان کی تعلیم و تربیت کا یہ خاصہ تھا کہ جو کوئی ان سے فارسی یا عربی سیکھتا اس کی طبیعت میں اس زبان کا صحیح ذوق پیدا کر دیتے۔ اقبال کی طبیعت میں علم و ادب سے مناسبت قدرتی طور پر تھی۔ فارسی اور عربی کی تحصیل جو مولوی میر حسن سے پائی تو معاملہ سونے پر سہاگا ہو گیا۔اقبال ابھی سکول ہی میں پڑھتے تھے کہ شعر کہنے لگ گئے۔ سیالکوٹ میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا۔اقبال نے اس میں شرکت کرنا شروع کی تو اس کی دھوم مچ گئی۔ اس زمانے میں جناب داغ دہلوی کا نظام دکن کا استاد ہونے کی بنا پر شاعری میں طوطی بولتا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی چند غزلیں لکھیں اور داغ دہلوی کو بذریعہ ڈاک بھیجوا دیں جو اصلاح کے بعد واپس اقبال کو ملیں اور باقاعدہ شائع ہوئیں۔ یوں اقبال اپنا کلام جناب داغ دہلوی کو بھیجواتے رہے۔ تھوڑے عرصے بعد ہی داغ دہلوی صاحب نے ان کے اندر کے بڑے شاعر کو بھانپ کر لکھا کہ آپ کا کلام چونکہ شاعری کے سارے آداب و رسوم پر پورا اترتا ہے اس لیے اصلاح کے لیے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ یوں اچھی شاعری کی یہ سند بھی اقبال کو نوجوانی ہی میں مل گئی۔
اُدھر جب علامہ اقبال کو حکومت نے سر کا خطاب دیا تو علامہ اقبال نے یہ شرط رکھی کہ۔مجھے یہ خطاب اس صورت میں قبول ہوگا اگر میرے استاد مولوی میر حسن کو بھی کوئی خطاب دیا جائے۔مولوی میر حسن کی اہلیت کے بارے یہ کیا کم ACHIEVEMENT ہے کہ ان کا شاگرد علامہ اقبال سر کے خطاب کے لیے منتخب ہوا ہے۔ یوں مولوی میر حسن صاحب کو” شمس العلماء ” کا خطاب دیا گیا۔
ایک مؤدب اور کامیاب شاگرد اپنے استاد کی عزت و مرتبت اور شہرت کا سبب بنا۔اقبال جب ابھی نوجوان اور سکول میں پڑھتے تھے تو اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ پہلوانی کے اکھاڑے میں جاتے، بیٹھکیں لگاتے، ڈنڈ پیلتے اور لڑکوں سے باقاعدہ پنجہ آزمائی بھی کرتے تھے۔ ان ساری سرگرمیوں، کھیل کود شاعری، نعت خوانی میں حصہ لینے کے باوجود وہ اپنے تعلیمی معیار پر بھی بھرپور لگن اور وقاور سے توجہ دیتے تھے۔
علامہ اقبال ہندوستان میں شاعری کے نظریات اور معیار سے ذاتی حیثیت سے نا خوش تھے۔ ان کے قریب اس ہنر و فن سے وابستہ لوگ اپنے قارئین اور سامعین میں زندگی کا وہ جوش جذبہ بیدار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو مرغی جیسے پرندے کو بھی شاہین سا غیور و خوددار اور خود کفیل شہباز بنا دے۔
ان کا یہ شعر ہند کی شاعری پر بہتر تبصرہ ہے۔
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ، بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اقبال کی شہرت ان کی حکیمانہ شاعری ہے۔ان کی شاعری پڑھ کر مردہ دلوں میں جان آ جاتی ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں اقبال میسر ہے۔ہماری بد قسمتی کہ ہم نے اقبال کی قدر نہیں کی۔
کیا خوب شعر لکھا ہے اقبال نے۔
نہ ایشیا میں نہ یورپ میں، سوز و ساز حیات
خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت
دلو ں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا
قریب آ گئی شاید، جہان پیر کی موت
سیالکوٹ میں تعلیم پانے کے بعد مذید اعلیٰ تعلیم کے لیے اقبال لاہور منتقل ہو گئے۔ انہیں فلسفہ کی تعلیم کا شوق تھا۔اقبال صاحب کی خوش قسمتی کہ وہاں پروفیسر ٹامس آرنلڈ جیسی غیر معمولی قابلیتوں کے حامل شخصیت کی صحبت نصیب آئی۔ انہوں نے اقبال میں علمی جستجو اور غیر معمولی ذوق و شوق دیکھا تو تعلق اور مظبوط ہو گیا۔ پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے اپنے ذوق اور اپنے طرزِ عمل سے اقبال کو حصہ دیا۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم کالج میں پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے مولانا شبلی مرحوم کے علمی ذوق کو پختہ کیا تھا۔ پروفیسر ٹامس آرنلڈ اور اقبال میں علمی دوستی اقبال کو آپنے استاد کے پیچھے لندن لے گئی۔ اقبال جب بیرسٹر بنے تو ڈاکٹر علامہ اقبال کے سارے استاد خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ خوش کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی۔مولوی میر حسن خوش کہ ان کے ہاتھوں لگا پودا ایک چھتنار درخت بن گیا۔ داغ دہلوی اس پر نازاں کہ وہ ڈاکٹر سر علامہ اقبال حکیم الامت شاعر مشرق کے استاد رہے ہیں۔
شاگرد ہو تو ایسا ہو۔
علامہ اقبال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے عاشق تھے۔ مجذوب عشق اقبال کی یہ رباعی ان کے عشق رسول پر کلاسک ثبوت ہے۔وہ لکھتے ہیں
تو غنی از ھر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ھائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گْزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
بیرسٹر علامہ اقبال کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ پیشہ ور وکیل بھی تھے۔ وہ تقریباً 26 سال وکالت سے منسلک رہے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ بادی النظر میں مظلوم لوگوں کے کیسسز لیتے تھے۔ ان کی وکالت پر جناب ظفر علی راجا نے ” قانون دان اقبال” لکھی ہے، جس میں انہوں نے اقبال کے ان مشہور مقدمات کا ذکر کیا ہے جو اس وقت کے بڑے اہم کیسسز تھے۔

علامہ اقبال کو اللہ الرحمٰن نے ایسے زرخیز دل و دماغ عطا کر رکھا تھے کہ وہ ارض و سما اور اس میں موجود ہر چیز پر غور و خوض فرماتے۔ وہ اپنے اس عمل و تفکر کا ماخذ قرآن پاک کی ان آیات الہیہ کو بتاتے جن میں قرآن پڑھنے والے قاری اور مسلمانوں کو غور و فکر کی خصوصی ھدایت کی گئی ہے۔ مثلاََ سورت الانبیاء کی آیت نمبر 10، ” لقد انزلنا الیکم کتابم فیہ ذکروکم افلا تعقلون”۔
ایک دفعہ علامہ صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے علم و عمل، فلسفہ حیات،۔ خودی، خود داری، خودگیری، انسانی عظمت و جہالت اور جلالت، اور خدا دانی کا محور و مرکز کیا ہے۔ علامہ صاحب نے بڑا سادہ اور مختصر جواب دیا، قرآن کریم کی سورۃ الحشر کی آیت نمبر 19 ”ترجمہ:- تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جو اللہ کو بھول گئے، تو پھر اللہ نے انہیں ان کو اپنے آپ ہی سے بے خبر کر دیا۔وہی لوگ ہیں نافرمان ‘
روحانی اعتبار سے ایمان اور ایمان کامل کے بارے علامہ اقبال کے قریب حضرت ابراھیم علیہ السلام کی شخصیت بڑی آئیڈیل ہے۔ اس بارے وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم سوچتے ہیں کہ ‘یقین کامل ” کیا ہے تو اس کا بڑا آسان اور مثبت جواب پیغمبر برحق حضرت ابراھیم علیہ السلام ‘خلیل اللہ”کے عمل میں مل جاتا ہے کہ بے دھڑک آتش نمرود میں پکارتے ہیں
” حسبنا اللہ و نعم الوکیل”
علامہ اقبال کے قریب انسان کی اہم تر اور بہترین مال و متاع یقین کامل ہے جو اسے زندگی کے کسی مرحلے میں بھی کمزور ہونے دیتی ہے نہ ہی ناکام ہونے دیتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:-
یقین مثل خلیل آتش نشینی۔۔۔یقین اللہ مستی خودگزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
علامہ اقبال کی شاعری کا خاصہ یہ ہے قاری کے اندر فکر و خیال کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔اس اضطراب میں قاری اپنی انسانی حیثیت کا تعین کرتا ہے کہ اتنی بڑی کائنات میں مجھے کیوں پیدا کیا گیا اور میرا وجود کیا مقام رکھتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری گویا ان کے قاری کو زمانہ عدم کے اس اجتماع میں لے جاتا ہے جہان اللہ الرحمٰن نے بنی آدم کی روحوں سے وہ عہد (عہد الست)لیا تھا کہ بولو کیا میں تمہارا رب نہیں۔؟ اور بیک زبان جواب آیا تھا’ ہاں اے رب العالمین بلا شک تو ہمارا اللہ ہے”قاری کو اس کے اصل مقام و منزلت کی یاد دہانی کرانا ہی علامہ اقبال کی شاعری کا مقصود ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو ہے، وہ یہ کہ وہ محبت کے جذبوں کو مونث اور مذکر میں تقسیم نہیں کرتے۔ جیسا انہوں نے ایک شعر میں کہا ہے۔
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
انسانی محبت کو اقبال فطری وصف جانتے ہیں۔ اللہ نے عورت اور مرد کے آپس میں اجنبی ہونے کے باوجود ان میں محبت، پیار ایثار اور قربانی کا عنصر پیدا کر رکھا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کھل اٹھتے ہیں اور راحت پاتے ہیں۔محبت میں پھیکا پن تب آتا ہے جب خباثت و ہوس اس میں شامل ہو تی ہے۔
اقبال دان اور اقبال خواں ان کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا وہ دور جو علامہ اقبال نے سکول سے لیکر انگلستان جانے سے پہلے تک شعر کہے۔ دوسرا دور وہ عرصہ ہے(1905 سے لے کر 1908) جو علامہ صاحب یورپ میں بسلسلہ تعلیم مقیم رہے۔ تیسرا یورپ سے واپسی کے بعد کا دور ہے۔ مغربی تہذیب اور معاشرتی رویوں کے بارے علامہ اقبال کا علم سنی سنائی کہانیوں پر مشتمل نہ تھا اور نہ ہی اگلوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے مطالعہ تک محدود تھا۔ وہ یورپ میں قیام کے دوران ان کے علمی و ادبی حلقوں میں شامل ہوتے، ان کے نامور لکھاریوں اور دانشوروں سے باقاعدہ مکالمہ کرتے اور نتیجہ اخذ کرتے تھے۔ کئی سیمینارز، مجالسِ مذاکرہ، اور سمپوزیم میں شامل ہوتے تھے۔ وہ برطانوی اور یورپین پارلیمنٹس میں ان کی باقاعدہ کاروائیوں کا مشاہدہ کرنے جاتے تھے۔ ان کے دینی حلقوں اور مذہبی اکابرین سے ملاقات کرتے اور تبادلہ خیال کرتے تھے۔یورپ میں قیام کے دوران علامہ اقبال نے وہاں کے کلچر کو بڑی گہری نظر سے دیکھا، ان کی ثقافتی اقدار کی پامالی کی وجہ اور مستقبل پر اثرات کا جائزہ لیا۔ وہاں کے نظام ریاست اور بین الاقوامی تعلقات کے رجحان کا بغور جائزہ لیا۔ان کی بے مزہ تہذیب و تمدن اور مذہب بیزاری کو خوب سمجھا۔ ان کے علم و ادب اور پھیکے سماجی رویوں اور بے سرور تعلقات کو پرکھا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں ” تہذیب مغرب” کا تذکرہ بکثرت ملتا ہے جس کا موازنہ اسلامی ثقافت و اقدار سے کرتے ہوئے وہ گویا فخر محسوس کرتے کرتے ہیں۔ گو کہ یورپ میں قیام کے دوران ان کی نظموں کی تعداد تو تھوڑی ہے مگر ان میں ایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے۔
یورپ میں قیام کے دوران علامہ اقبال کی شخصیت میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے شاعری ترک کرنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا مگر پھر اپنے محترم استاد جناب سر ٹامس آرنلڈ کے کہنے پر فیصلہ بدلا۔ آرنلڈ صاحب نے بتایا تھا کہ آپ کا شاعری کا شغل ترک کرنا ” جائز نہیں ”۔ شاعری آپ کی ذات کے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔دوسری تبدیلی علامہ اقبال کے مزاج میں یہ آئی انہوں نے اردو زبان میں شاعری کے ساتھ فارسی زبان میں بھی لکھنا شروع کیا۔ بیرسٹر شیخ عبدلقادر، علامہ صاحب کے دوست اور اسی زمانے میں لندن میں ہی زیر تعلیم تھے وہ کہتے ہیں کہ علامہ صاحب ایک دوست کا ہاں مدعو تھے۔ وہاں موجود دوستوں نے ان سے کچھ اشعار سنانے کے لیے کہا۔محفل جمی تو فارسی اشعارِ کی فرمائش ہوئی۔ علامہ صاحب نے اعتراف کیا کہ سوائے چند اشعار کے کبھی انہوں نے فارسی میں نہیں لکھا۔ یہ فرمائش گویا قبولیت کی گھڑی تھی۔ صبح جب اٹھے تو علامہ صاحب نے مجھے فارسی میں لکھی دو تازہ غزلیں سنائیں۔ اصل میں جوں جوں علامہ صاحب کا مطالعہ علم فلسفہ گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہیں احساس ہوا کہ اردو زبان کے الفاظ فارسی کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔
1908 کے بعد انہوں نے فارسی زبان میں لکھا اور تین کتابیں ء، اسرار خودی،رموز خودی اور پیام مشرق لکھیں۔ ان کتابوں کے چھپنے سے علامہ اقبال کا نام ہندوستان سے باہر کی دنیا میں بھی مشہور ہو گیا۔ علامہ اقبال کو ہندوستان سے باہر یورپ اور امریکہ میں پڑھا جانے لگا۔ یورپی بلند نام و بلند مرتبہ شاعر گوئٹے کے سلام مغرب کا جواب لکھا۔جس میں نہایت خوبصورت انداز میں اپنے حکیمانہ خیالات کا اظہار کیا۔ جس کی وجہ سے اقبال کو” ترجمان حقیقت,” پکارا جانے لگا۔
علامہ اقبال نے یورپی راہب حکیم نطشہ کے فلسفہ حیات پر بھی بڑا جامع تبصرہ کیا۔لکھتے ہیں۔
حریف نکتہ توحید ہو نہ سکا حکیم
نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے
خدنگ سینہ گردوں ہے اس کا فکر بلند
کمند اس کا تخیل ہے مہر و مہ کے لیے
اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی ۔۔ترس رہی ہے مگر لذت گناہ کے لیے۔
علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے انوکھا اور خوبصورت پہلو، میری دانست میں یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی کے ہر پہلو، روحانی، اخلاقی، معاشرتی سماجی پر ہر شعبہ زندگی پر نظمیں لکھی ہیں جو قارئینِ کے لیے علامہ اقبال کی طرف سے بہت بڑی سوغات ہے، بالخصوص نوجوانوں کے لیے۔
ان کا قاری ان کا کلام پڑھتے ہوئے تھکتا نہیں۔