خط بنام امام سید علی گیلانی

ڈاکٹر قاسم بن حسن

جناب امام گیلا نیؒ!!!

السلام علیکم و ر حمت اللہ وبرکاتہ

آپ کی رحلت کو ایک سال ہونے کو ہے آپ تھے تو کشمیرہر لمحہ آزادی ‘حریت’اورجدوجہد کا استعارہ تھا ۔آپ کی وفات کے بعد آج آر پار ایک سناٹا ہے۔ آپ کی وادی آج بھی ایک قید خانہ ہے جہاں کے جلاد کشمیر کے بے گناہ لوگوں کو اپنے جور وستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔یاسین ملک تا حال قید میں ہے اور دیگر کشمیری رہنما بھی جیلوں میں قید ہیں یا نظر بند ہیں۔ کشمیر اور اہل کشمیر سب تباہ حال ہیں مگر دنیا کو تو کیا پروا ہے،خود ہم آزادکشمیر اور اہل پاکستان بھی ان کو بھول رہے ہیں۔ ہاں کشمیر کے نام پر اور اس کے مسئلے کے حوالے سے ہمارے نمبر بن رہے ہوں ہماری آمدنی میں اضافہ ہوتا ہو، تو ہم اس کے لیے فعال ہوجاتے ہیں اور الحمد للہ آج بھی فعال ہیں ۔ تحریک آزادی کے حوالے سے ہماری کوئی صلاحیت ہو یا نہ ہو لیکن اپنے کشمیر فنڈز میں اضافہ کے لئے ہم کبھی عرب ممالک کبھی ترکی اور کبھی یورپی ممالک اور امریکہ کا دورہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔اور یہ دورے جاری ہیں ۔۔۔الحمد للہ

آزادکشمیر حکومت تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ ہے، اپنی اس ذمہ داری کا قوم اور حکومت کو شدت سے احساس ہے ۔۔الحمد للہ اس ذمہ داری کوکما حقہ نبھانے کی ہر ممکنہ کوشش ہورہی ہے ۔۔۔۔ اگرچہ آزاد کشمیر کا انتظام ایک اچھا ڈپٹی کمشنر چلا سکتا ہے لیکن کشمیر کی آزادی کی تحریک کی خاطر ہم نے اتنی بڑی کابینہ بنا رکھی ہے اور بڑی ہیوی جیوڈیشری بھی ہم نے تحریک آزادی کی ضرورت کے تحت ہی بنا رکھی ہے۔ آپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے دفاتر دیکھیں۔۔ امریکہ اور برطانیہ کے ججوں کے دفاتر سے زیادہ شاندار فرنیچر اور سہولیات انہیں فراہم ہیں۔ ان کے علاوہ مراعات اور بعد از سروس مراعات کا پیکجز دیکھیں امریکی ججوں سے کسی طور کم نہیں۔ کروڑوں کی گاڑی ۔۔جانے والے جج کو چند روپیوں میں اس لیے دی جاتی ہے کہ اس نے کشمیرکو آزاد کروانے کا کام دوران سروس بہت خوب کیا ہے ۔

جناب سیدؒ ۔۔۔ہم اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ تحریک آزادی کے لیے تعلیم بہت خطرناک ہے لہٰذا گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ زیادہ اور بچے کم ہیں۔ اساتذہ دن رات کشمیر کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ گورنمنٹ سکولوں کو خالی کرنے میں ہماری اپنی فاونڈیشنیں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں ۔ کشمیر کی آزادی کے لیے سرکاری سکولوں اور کالجوں کو خالی کرنیکی محنت۔۔ کرنا اچھا لگتا ہے۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر اخلاق کشی اور جدیدیت کے مراکز تعلیم کے علاوہ سب کچھ کشمیر کی آزادی کے لیے ہی کررہے ہیں۔

جناب سیدؒ ۔۔۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ بھارت کے قبضے میں ہے ہمارا سارا دفاعی بجٹ کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ کی تیاری کے لیے وقف ہے لہٰذا اسی بجٹ سے ہم بے کار مورچے بنانے کی بجائے بہادر ریٹائرڈ فوجی آفیسروں کے لیے ڈی ایچ اے میں کوٹھیاں بنا رہے ہیں بیرون ملک اثاثے بنا رہے ہیں تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں کشمیر کی آزادی کیلئے یہ اثاثے استعمال ہوجائیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایٹم بموں کی صورت میں جو تحفہ دیا اس سے یہ تسلی ہو گئی ہے کہ اب پاک بھارت جنگ نہیں ہو گی لہذا ایمونیشن پر خرچ کرنے کے بجائے رقومات زیادہ سے زیادہ رفاء عامہ کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے پاکستان مظبوط ہوگا تو آزادی کا راستہ آسان ہوگا ۔۔۔۔

جناب سیدؒ ۔۔۔ مملکت پاکستان کا شکریہ ادا کرنے میں ہم بخل سے کام نہیں لے رہے ہیں کہ اب وہاں کے سیاست دان کھل کے اور پوری قوت سے پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں پندرہ سولہ جماعتوں کا اتحاد قوم کے ساتھ عملی مذاق کررہا ہے۔ عمران ان سے پہلے کافی مخول کر چکا ہے ۔ہنسی مذاق سے قومیں تازہ دم رہتی ہیں اس لئے اس مخول اور مذاق کا مفہوم اسی حیثیت میں سمجھیں میرے عظیم سید ؒ۔ ان سب کی کاوشیں کشمیر کی آزادی کی منزل کو تھوڑا اور زیادہ دور کر رہی ہیں کیونکہ اہل دانش کا خیال ہے کہ جلدی کیا ہے ۔دیر آید درست آید ۔

جناب سیدؒ

ہمارا دل کو فیوں کی طرح سیدنا عالی مقام علیہ السلام اور آپ جیسے سید زادوں کیلئے تڑپ رہا ہے لیکن کیا کریں دنیا میں زندہ رہنے کیلئے وقت کے یزیدوں کے ساتھ بھی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے ۔ساتھ دینا پڑتا ہے ۔بہرحال۔۔۔ اللہ تعلیٰ آپ کی تحریک کے ساتھ ہے ۔ان شا ء اللہ یہ تحریک ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی ۔ہم دعا ہی کرسکتے ہیں ۔۔جناب سید رحم اللہ

اللہ آپ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔۔۔ اللہ کے آخری نبیﷺ کو ہمارا سلام عرض کر یں اور یہ شعر ان کی خدمت میں پیش کریں

اے خاصا خاصان رسل وقت دعا ہے
امت کشمیر پہ عجب وقت آن پڑا ہے

آپ کا

ڈاکٹر قاسم بن حسن

جناب پروفیسر ڈاکٹر قاسم بن حسن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔معروف ادیب ،دانشور ،مصنف اور عالم دین ہیں ۔اسلامی جمیعت الطلبہ آزاد جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں