
دجال:۔۔۔۔ احادیث کی نظر سے
جیساکہ میں پہلے عرض کر چکا کہ یہود عملاً فتنہء دجال کے سرغنے، اس کے پیرو کار، اس کے اصل کارندے، حواری، اوراس حد تک سہولت کار ہیں کہ یہود اور فتنہء دجال تقریباََ ہم معنی ہو چکے ہیں۔ یہود عیسائیت سے بڑھ کر اسلام کے پرانے دشمن ہیں اور ازل ہی سے اسلام کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہیں اوراسلام کو نقصان پہنچانے میں کوئی نکتہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یورپ کی رینائسنس کے بعد عیسائیت نے ان کے وائرل ڈی این اے کو تقویت دینے میں ڈونر بیکٹیریا کا کام کیا ہے۔ اور ”الکفر ملت واحدہ ” کا مصداق بن کر مسلمانوں کے خلاف یہود کے ہتھیار بن گئے۔ بلا شبہ اسلام پر ایسا پُر فتن دور پہلے تاریخ نے نہیں دیکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں فتنہ دجال اور دیگر پر فتن ادوار کے حالات اور نشانیوں کے متعلق مستند احادیث کا اچھا خاصا ذخیرہ ملتا ہے۔ صحاح کی کتب میں اس پر پورے پورے ابواب باندھے گئے ہیں۔ یہ احادیث متعدد اصحاب رسول سے مروی ہیں۔ اور سند و متن اور درجات کے اعتبار سے متفرق بھی ہیں۔یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دجال اور اس کے فتنے کے سلسلہ میں واردکچھ احادیث کے متن میں بہت اختلافات ہیں۔ بعض علماء نے ان میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے حال نہیں بلکہ مستقبل کے متعلق پیش گوئی کی زبان میں سمجھائی گئی چند حقیقتیں تھی۔ اس لیے اشارات، کنایات، اور تمثیلات سے کام لیا گیا۔ اور ظاہر ہے اس صورت میں صحابہ کرام کے درمیان ان احادیث کے فہم میں تفاوت و فرق کا رونما ہونا عین فطری امر تھا اوربعض روایتوں میں علماء نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ شاید راوی کی غلطی ہو۔ان احادیث کے متن و مفہوم میں فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دجال اور فتنہ دجال کے معنیٰ اور مفہوم کو زیادہ وسیع کرنا مقصود ہو تاکہ امت کے علماء ہر دور کے فتنوں اور ہر طرح کے دجال کی پہچان کر سکیں۔ اور فتنہ دجال کی ہر چال کو وسیع و عریض انداز میں سمجھ سکیں۔ اور اس کے ان مختلف پہلوؤں کو نظر میں رکھ سکیں۔ جنہیں بہت سارے علماء نے اختیار کیا۔ جن میں جدید علماء شامل ہیں۔ میرے نزدیک بھی یہی آخری رائے زیادہ قرین قیاس ہے۔احادیث میں ان اختلافی روایات کے پیش نظر علماء کے ہاں دجال کے بارے میں درج ذیل بڑی بڑی آراء پیدا ہوئیں۔
بعض علماء کے نزدیک دجال ایک فرد ہے جو طبعی طور پر کسی ماں باپ کے گھر پیدا ہو گا۔ جس کی خاص شکل و ہیت ہو گی، انسانوں میں سے ہو گا، بشر ہوگا، قد و قامت رکھتا ہو گا اور مافوق العقل قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہو گا اور اکیلا ساری دنیا پر بھاری ہو گا۔ اس کی قوتیں جادو پر بھی مبنی ہو سکتی ہیں۔ اور یہ شخص حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں عام انسانوں کی طرح تلوار یا بھالے سے قتل ہو گا۔
یہ رائے بعض اصحاب، حضرت عبداللہ بن عباس، قتادہ، اور ابن کثیر رحمھم اللہ کی ہے۔
بعض علماء کے نزدیک دجال اپنے لغوی معانی میں جھوٹ، فریب، اور مکروچال پر مشتمل اسلام کے خلاف ہر ایک فتنے کا نام ہے۔ دجال کے لفظ کا اطلاق اس کی صفات کے اعتبار سے ہے۔ یہ ایک گروہ بھی ہو سکتا ہے جو اسلام کے خلاف پورے مادی وسائل کے ساتھ حملہ آور ہو گا۔ اس فتنے کے خلاف حق و باطل کی عالمی جنگیں ہوں گی۔ یہ فتنہ بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان کا سبب بنے گا۔ اور اسلام کے خلاف دیگر سب فتنوں سے بڑاایک فتنہ ہو گا۔ اور اس فتنے کا ایک بڑا سردار اور سرغنہ دجال اکبر ہو گا۔ اور اس فتنے یا اس فتنے کے سرغنے کی بیخ کنی حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کریں گے۔
یہ رائے حضرت علی، حضرات عبداللہ بن عمر رضوان اللہ علیھم اجمعین کے علاؤہ امام ابن تیمیہ، اور متعدد جدید جید علماء کی ہے۔ جس میں امام العثیمین، عبداللہ بن باز، شیخ مانع بن حماد الجہنی، اور علامہ قرضاوی کی ہے۔
تیسری طرح کے لوگ دجال کے ایک فرد ھونے کو محض ایک تمثیل (personification) خیال کرتے ہیں جسے اسلام دراصل اپنے خلاف تمام ممکنہ فتنوں سے مسلمانوں کو اشارتاََ آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ کسی علم غیب پر مشتمل پیش گوئیاں نہیں بلکہ ٹھوس انسانی فطری حالات، عہد رسالت سے دوری، شیطان اور اس کے حواریانِ جن و انس کی مسلسل اسلام دشمنی کا ممکنہ نتیجہ ہیں۔ بعض اصحاب رسول، حضرت حذیفہ بن یمان، بعض محدثین، امام غزالی، شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور مولانا وحیدالدین خان بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ یہ آراء جدید کچھ صاحب نظر علماء کی بھی ہے۔
دور جدید میں فتنہ دجال کی یہ تعبیر بڑے شد و مد کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ بعض جدید علماء کے نزدیک دجال کے بطور فرد آنے کے امکانات خاصے کم ہیں۔ ان کے ہاں دجال کی مافوق العقل قوتیں دراصل سائنسی ایجادات ہی کا نتیجہ ہوں گی۔ اور دجال کا دجل دراصل یہود کے مکرو فریب، جھوٹ اور حق پر باطل کی ملمع کاری ہی ہیں۔
کیمرہ، ہوش ربا ذرائع مواصلات، انٹرنیٹ، بارودی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار، برقی مواصلاتی شعاؤں کے کرشمات، بائیو ٹیکنالوجی کے حیران کن کرشمے۔ جس میں سپر ہیومین، کلوننگ،اور جین تھیراپی جیسی جدید سائنسی بوقلمونیوں کے نتائج شامل ھوں گے۔
ابو لبابہ منصور، مشہور کتاب ” دجال ” کے مصنف مولانا محمد عالم کی بھی یہی رائے ہیں۔
اگرچہ دجال کے ایک مجسم فرد واحد ہونے میں علماء میں رائے کا اختلاف ہے۔ بہرحال اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف سب سے بڑا فتنہ ہے۔ جس کی بنیاد شیطانی جال اور چال پر ہے۔ یہ دراصل جھوٹ، مکرو فریب، تکبر، نخوت، معصیت، مادیت پرستی، دجل، کفر، اور مکر و فریب کا راج ہے۔ جو ساری دنیا پر اپنے پنجے گاڑ کر حق کو مشکوک کر دے گا اور جھوٹ کو دنیا کی نظر میں سچ بنا کر پیش کرے گا۔ اس کا ہر عمل اسلام کے الٹ اور پیغمبروں کی تعلیمات کے برعکس ھو گا۔
ان علماء کے برعکس کچھ منکرین حدیث دجال کو محض ایک افسانہ قرار دیتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں۔
حدیث کا عام قاری جب ان روایات کو یکجا کر کہ ایک نظر میں مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے تخیل میں کسی ایک فرد کی واضح تصویر نہیں بنا سکتا اور پریشان ھو کر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ؛
1۔۔ دجال کوئی فرد واحد نہیں بلکہ اسلام سے متصادم چند دجالی صفات کا نام ہے جو کسی ایک فرد کی بجائے کسی گروہ کی بھی ہو سکتی ہیں۔
2۔۔وہ خیال کرتا ہے کہ اگر دجال کسی مجسم انسان کا نام ہے بھی، تو پھر احادیث کی روشنی میں یہ کوئی ایک فرد نہیں بلکہ متعدد زمانوں میں پائے جانے متعدد افراد ھو سکتے ہیں جن کی دجالی صفات مشترک ہوں گی جبکہ جسمانی ساخت مختلف ہو گی۔
3۔۔وہ یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ دجال ایک فتنے کی مجسم تمثیلی تشریح ہے۔ اور عقلی طور پر ان صفات کے ساتھ ایک فرد دنیا میں نہیں آ سکتا۔
4۔۔ وہ خیال کرتا ہے کہ دجال کی صفات یا تو مادی ترقی کا کرشمہ ہیں یا پھر جادوئی ہیں۔ورنہ اس پر لوگ کیسے ایمان لائیں گے؟
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم ذخیرہ حدیث میں سے ان چند روایات کا ذکر کریں گے جن کے متعلق اوپر گفتگو کی گئی ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ ان کے معانی یا مفہوم، یا روایتِ متن میں فرق یا پھر راوی کا کوئی سہو ہو سکتا ہے۔ ان روایات میں سے چند ایک آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
1۔۔دور دجال کے دنوں کی طوالت کے متعلق روایات کے الفاظ میں فرق ہی نہیں بلکہ تضاد ہے۔
ایک روایت یوں ہے۔ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ دجال کے دن لمبے ہوں گے، یہاں تک کہ ایک دن ایک برس کے برابرہوگا۔(صحیح مسلم2937)جبکہ صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت ایسے ہے۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس (دجال کے دور) کے دن چھوٹے ہوں گے یہاں تک کہ سال ایک مہینے کے برابرہوگا، اوردن جیسے ایک تنکے کا جلنا۔
2۔۔اورحضرات انس اورحذیفہ رضی اللہ عنہما کی احادیث میں ہے کہ وہ کافراورکذاب ہے اور مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا۔
جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ
حضرات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا وہ سرخ رنگ کا تھا، موٹا، گھنگھرالے بال والا، اور دائیں آنکھ کا کانا تھا۔ صحیح بخاری (7128)
3۔۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ دجال ایک جزیرے میں جکڑا ہوا ہے۔(صحیح مسلم2942)
اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن میں۔
4۔۔جامع ترمذی میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دجال کے باپ کے ہاں تیس بر س تک کوئی لڑکا پیدا نہ ہو گا پھرایک کانا لڑکا بڑے دانت والا پیداہوگا۔جبکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ابن صیاد کے بارے میں ہمیشہ ڈراکرتے تھے کہ کہیں وہ دجال نہ ہو۔اورعمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ وہی دجال ہے، (صحیح البخاری 7355 و صحیح مسلم2929)
یاد رہے کہ ابن صیاد مدینہ کا ایک یہودی کاہن جادو گر اور اسلام کا بدترین دشمن تھا۔ مگر کسی روایت سے ثابت نہیں کہ وہ ایک آنکھ سے کانا تھا۔ اور نہ ہی اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا تھا۔یہ مدینے کا باشندہ تھا جبکہ ایک روایت میں ہے دجال مدینے میں داخل نہ ہو سکے گا۔
5۔۔ ایک روایت میں ہے کہ دجال بائیں آنکھ (left eye) سے کانا ھو گا۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” دجا ل با ئیں آنکھ (left eye) سے کانا،(أَعْوَرُ عَیْنِ الْیُسْرَی) ہو گا اور بہت بالوں والا ہوگا،اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی، لیکن اس کی جہنم، دراصل جنت اور اس کی جنت، دراصل جہنم ہوگی”
جبکہ صحیحین ہی کی ایک دوسری مستند روایت کے مطابق دجال دائیں آنکھ (right eye) سے کانا ہو گا۔
حضرات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ وہ دائیں آنکھ کا کانا ہے، اوراس کی آنکھ گویا پھولے ہوئے انگورکی طرح ہے، یا اندھی ہے بغیرروشنی کے ہے۔(صحیح بخاری 7130، صحیح مسلم169 و کتاب الفتن100)
جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ اس کی آنکھ سرے سے مسخ شدہ (ممسوح) ہو گی (جیسے کہ یہاں آنکھ تھی ہی نہیں)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ ممسوح العین یعنی اندھا ہے، ایک آنکھ کا کانا ہے، اوراس کی دونوں آنکھ کے درمیان کافرلکھا ہوا ہے، جس کو پڑھا لکھا اورجاہل ہرمومن پڑھ لے گا۔ (صحیح مسلم2934) (صحیح مسلم2933) (بروایت حضرت انس)
جبکہ دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی اندھی آنکھ، مسخ شدہ نہیں بلکہ پھولے ہوئے انگور کی طرح ابھری ہوئی ہے۔ جیسا کہ اوپر حضرات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہم پڑھ آئے ہیں۔ جبکہ ایک تیسری حدیث میں ہے اس کی یہ اندھی آنکھ ابھری ہوئی نہیں اور نہ ہی گہری اور اندر گھسی ہوئی ہے۔ جیسا کہ سنن ابوداود میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اس کی آنکھ اندھی ہوگی، نہ اٹھی ہوئی،نہ اندر گھسی ہوئی۔
6۔۔حضرات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا وہ سرخ رنگ کا تھا، موٹا، گھنگھرالے بال والا، اور دائیں آنکھ کا کانا تھا۔ صحیح بخاری (7128)
اس حدیث میں دائیں آنکھ کا ذکر ہے۔ جبکہ حضرت حذیفہ بن یمان کی ایک حدیث جسے ہم اوپر پڑھ آئے ہیں۔ اس میں بائیں آنکھ کے اندھا ھونے کا ذکر ہے۔
7۔۔ایک روایت میں ہے دجال قرب قیامت میں آئے گا۔
جبکہ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ہم نے دجال کو اتنا بڑا آدمی دیکھا کہ ویسا کبھی نہ دیکھا تھا،(صحیح مسلم2942)
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بھی بیان ہوا کہ دجال بہت بڑے قدو قامت کا مالک ہے۔ اتنا کہ صحابہ نے اس سے پہلے اتنی قد و قامت کا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔
جبکہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دجال چھوٹے قد کا والا ٹھگنا ہے، اس کے دونوں پاوں میں فاصلہ بہت ہے۔
جبکہ ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے گدھے (سواری) کے دونوں کانوں کی بیچ میں سترہاتھ کا فاصلہ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کا گدھا اتنا بڑا ھو گا تو دجال کا اپنا قد بھی یقینا بہت بڑا ہوگا۔ جبکہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ اس کے بالکل برعکس ہیں۔
ان چند مثالوں کے مطالعے کے بعد اب آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے۔ دجال یا تو کوئی متعین فرد نہیں۔ یا یہ کئی ایک افراد ہیں، یا یہ تمثیلی اندازِتکلم ہے۔ جس سے دراصل فتنے کے متعلق اشارات میں بات سمجھانا مقصود ہے۔ یا پھر یہ جادو کا اثر ہے کہ دجال کی ہیت اور ساخت مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ یا ممکن ہے یہ سائنسی ایجادات کا کوئی کرشمہ ہو۔ یا پھر دجال کسی شیطانی گروہ کا نام ہے جو مختلف صفات کا حامل ہے اور احادیث میں اسے مختلف طریقوں سے personify کیا گیا ہے اور مقصد، فرد کہہ کر دراصل فتنے کی صفات بیان کرنا ہے۔
اگر یہ فتنے کی تمثیل ہے تو پھر ہر ہر بات کی مماثلت، فتنے کی کوئی صفت یا خاصیت ہے۔ آگے چل کر آئیندہ کی اقساط میں ہم ان شاء اللہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور علماء کی آراء اور دور جدید میں حقائق اور علامات کی روشنی میں دجال کا مزید تجزیہ آپ کے سامنے پیش کریں گے۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔