
ڈاکٹر عبدالرؤف
دجال:۔۔۔ احادیث کی نظر میں۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر اور علی بن محمد نے بیان کیا۔ وہ دونوں کہتے ہیں کہ ان سے وکیع نے اور وکیع سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجال کے با رے میں جتنے سوالات میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے،(ابن نمیر کی روا یت میں یہ الفا ظ ہیں ” أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّی ” یعنی مجھ سے زیا دہ سوال اور کسی نے نہیں کئے)، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس دجال کے با رے میں کیا پو چھنا چاہتے ہو؟” میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہو گا،آپ ﷺ نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔”
صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا: کہ اللہ پر یہ اس سے زیادہ آسان ہے۔ اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا گیا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر یہ بات دجال سے زیادہ آسان ہے۔ اس کے معانی کے بارے میں علماء کی کچھ آراء ہیں۔
1۔۔ جب اس نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے۔
2 ۔۔دجال ذلیل ہے، یہ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں دجال کی نشانیاں ہوں گی، تاکہ اس کی پہچان کی جا سکے۔ لیکن میرے نزدیک اگر اس حدیث کو دوسری احادیث کے ساتھ ملا کر اور اسلوب کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دجال مادی وسائل سے مالا مال ہو گا۔ لوگوں کو کھلائے پلائے گا، رزق کی اس کے پاس فراوانی ہو گی۔ وسائل بے پناہ ہوں گے۔ جس کے بارے میں چاہے گا اس کے رزق کو تنگ کر دے گا اور جس کو چاہے گا نواز دے گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاغوت، کفریہ طاقتوں، یورپی استعماری قوتوں،اور یہود و نصارٰی کے پاس وسائل بے تحاشا مقدار میں ہیں۔ دجال قرض اور امدادی کاموں کے ذریعے اور مادی وسائل کی جھنکار کا استعمال کر کے لوگوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔ لوگ بھوک مٹانے کے لیے اس کے زیر نگیں ہوں گے۔ فرعون کے خلاف جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اللہ کی طرف دعوت دی تو وہ کہنے لگے موسیٰ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو سچا ہے لیکن فرعون ہمارے وسائل پر قابض ہے وہ ہم پر عرصہ حیات تنگ کر دے گا۔
حدیث مبارکہ کے مطابق بھی دجال کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہریں ہونے کا یہی مطلب ہے۔
ترجمہ: فا طمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جا تے تھے، اس بات سے لوگوں کو کچھ تعجب ہوا، کچھ لو گ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہا تھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا:”اللہ کی قسم!میں منبر پر اس لئے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی با ت کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا خوف زدہ کر دینے والے کام کا فائدہ دے، بلکہ با ت یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی(جس سے مجھے اتنی مسرت ہو ئی کہ خو شی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کرسکا، میں چاہتا ہوں کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظا ہر کر دوں)
سنو! تمیم دا ری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ(ایک سمندری سفر میں) ہوا کا رخ ان کو ایک بے آباد جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لو گ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے،انہیں وہاں ایک کالے رنگ کا شخص نظر آیا جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا:تو کون ہے؟ اس نے کہا:میں جساسہ(دجال کا جاسوس) ہوں،ان لوگوں نے کہا: توہمیں دجال کے متعلق کچھ بتا،اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاوں گا، نہ ہی کچھ تم سے پوچھوں گا)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاو، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہش مند ہے کہ تم اسے خبر بتاو اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے،یہ سن کر وہ لو گ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھاکہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا ہے (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اوراپنا دکھ درد سنانے کے لئے بے چین ہے) تواس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ شام سے، اس نے پوچھا، عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پو چھ رہے ہو؟ پھراس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا)جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا ہے؟ انہوں نے کہا۔ وہ بھی ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں)کے چشمے کا کیاحال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لو گ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لئے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہروں) کے درمیان کھجورکے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پو چھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زوروشور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھرکہا ، اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاوں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاوں گا،کو ئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سو ائے طیبہ (مدینہ) کے،وہاں میرے جا نے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ” یہ سن کر مجھے بے حد خو شی ہو ئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ وکشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوا ر لئے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا” (اور دجال کو وہاں تک آنے سے روکے رکھے گا)
داود۔ /الملاحم ۵۱ (۶۲۳۴، ۷۲۳۴)، ترمذی۔ /الفتن ۶۶ (۳۵۲۲)، (تحفۃ الاشراف: ۴۲۰۸۱)
دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا مجھ سے امیوں(یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا، کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا، ہاں، لڑے، اس نے کہا، پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا۔۔ ؟۔۔۔ ہم نے اُسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد وپیش عربوں پرغالب آگئے ہیں اورانہوں نے اس رسول (ﷺ)کی اطاعت اختیارکرلی ہے، اس نے پوچھا کہ کیا یہ بات ہوچکی ہے؟ ہم نے کہا ۔۔۔۔ ہاں، یہ بات تو کب کی ہوچکی،اس نے کہا، سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتاہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اوروہ زمانہ بہت قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، میں مکہ اور مدینہ طیبہ کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاوں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پرچوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر ماری،اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا، شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور آپ نے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ بھی کیا۔
(صحیح مسلم /کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ۔۔ حدیث حضرت تمیم داری)
اس حدیث کا ظاہر تو یہ بتاتا ہے کہ دجال کسی جزیرے پر ہے اور بوڑھا ھے۔ جبکہ دوسری حدیث کے مطابق دجال جوان ہے۔ ممکن ہے راوی کو سہو ہوا ہو۔ یا اس نے اس نے یہ سب کچھ عالم رویا خواب میں دیکھا ہو۔ یا اس پر کشف کی کیفیت طاری ہوئی ہو اور تمثیلی انداز میں حقیقت منکشف ھوئی ہو۔ یا پھر اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد فتنہ دجال کی مختلف کیفیات بیان کرنا ہو۔ ہر دور میں دجال صفت ایک نظام دنیا میں رہا یہی وقت کا دجال ہوتا ہے۔اس حدیث سے ایک بات یہ بھی نکلتی ہے کہ ہر دور کے دجال میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنا دجل پھیلانے اور کامیاب کرنے کے لیے ارد گرد کے حالات و واقعات اور چیزوں پر گہری جاسوسی اور نظر رکھتا ہے۔ اس کا بعض چیزوں پر بس نہیں چلتا لیکن وہ مسلسل اس کوشش میں رہتا ہے کہ موقع میسر آتے ہی اپنے جھوٹ، دجل اور فریب کو پھیلائے، لوگوں میں اسلام کے خلاف شکوک اور ملک میں بے چینی پیدا کرے دروغ گوئی کے حصار میں رہے اور لوگوں کو مسلسل گمراہ کرتا رہے ۔دوسری بات یہ کہ یہ حدیث ایک لطیف اشارہ کرتی ہے کہ کبھی کسی دور میں بھی مسلمانوں کو دجال کے فتنے سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے اور حدیث میں بتائی گئی نشانیوں کی روشنی میں اپنے دور کے دجال کو پہچاننا چاہئے۔ اور دوسروں کو آگاہ کرنا چاہئے۔ بالخصوص ہر اس طاقت پر نظر رکھنی چاہئے جو جھوٹ اور فریب کا جال بنائے اور اس جھوٹ کے سہارے اقتدار تک پہنچ جائے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں