
ڈاکٹر عبدالروف
دجال: احادیث کی نظر میں
دجال اور بلاد شام
دور فتن اور خروج دجال کا بلاد شام سے تعلق واضح کرنے کے لیے ہم نے بچھلی قسط میں چند احادیث نقل کی تھیں اب کچھ مزید روایات بیان کرنے کے بعد ہم ان شا ء اللہ شام کے علاؤہ خوزستان، اور ایران کے علاقوں کا تعلق بھی واضح کریں گے۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ خلق وامر میں مبدا (ابتدائی مقام) و معاد (آخری مقام) مکہ اور شام ہیں،ارادہ تکوینی ہو یا شرعی ۔۔۔ دنیا و دین کی ابتدا مکہ سے ہوئی اور دنیا و دین کی انتہا شام میں ہو گی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دین کی ابتدا اور ظہور مکہ سے ہوا اور اس کا کمال و عروج شام میں مہدی کے ظہور سے حاصل ہو گا(مجموعہ الفتاویٰ۔۔مجمع الملک فہد 1995)
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’تمہارے دین اسلام کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں‘ ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا‘‘۔ ابن حوالہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے میں کوئی وصیت فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ تعالیٰ نے میرا اکرام کرتے ہوئے شام اور اہل شام کی ذمہ داری لے لی ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد)
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیاہے. (سنن ابی داؤد 4422 مؤسسہ الغراس الکویت 2002)
بعض احادیث نبویہ میں دورِ فتن میں سرزمین بلادِ شام میں قیام کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل ِروم کی طرف سے اہل شام پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔
حضرت ابو نضرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ انہوں نے فرمایا:
’’قریب ہے کہ اہل عراق کو ان کا قفیز (ناپنے کا ایک پیمانہ) اور درہم (چاندی کے سکے) کچھ فائدہ نہ دیں۔ ہم نے کہا: ایسا کہاں سے ہو گا؟ تو انہوں نے کہا: عجم سے ہو گا۔۔ وہ اسے روک دیں گے۔ پھرحضرت جابر ؓنے کہا: قریب ہے کہ ِاہل شام کو ان کا دینار (سونے کی کرنسی) اور مدی (ناپ تول کا ایک پیمانہ) کچھ فائدہ نہ دے۔ تو ہم نے کہا: یہ کیسے ہو گا؟ تو حضرت جابر ؓنے کہا: یہ ا ہل روم کی طرف سے ہو گا۔‘‘
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ یہ روایت بہت اہم ہے۔ اور آج کے دور میں معیشت کے نظاموں کے فسوں کی قلعی کھول دیتی ہے۔ دجال سونے چاندی کی کرنسی تبدیل کرے گا۔
یاد رہے کہ پیپر کرنسی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اسلام بارٹر ٹریڈ اور سونے چاندی کی کرنسی کو سپورٹ کرتا ہے۔کیونکہ پیپر کی رسیدوں پر مشتمل کرنسی کی کوئی حقیقی قیمت نہیں جبکہ اس کے برعکس سونا چاندی اور اشیاء اپنی ثمنرکھتے ہیں۔ اسی پیپر کرنسی نے سود، قمار اور غرر کے نت نئے راستے کھولے۔ دجال کے گماشتے کرنسی کے اسی فسوں میں جکڑ کر اسلامی ملکوں کو سودی قرضوں کے بوجھ تلے دباتے ہیں۔ اور پھر بڑھتے بڑھتے سود کے ذریعے دیوالیہ کرتے ہیں، اقتصادی پابندیوں میں جکڑتے ہیں تاکہ طاغوت کے سامنے کوئی سر نہ اٹھا سکے۔ اس حدیث مبارکہ میں دور فتن میں مغربی ممالک کی طرف سے اسلامی ممالک پر اقتصادی پابندیوں کے لگنے کا اشارہ ملتا ہے۔ جس کی زندہ مثال ہم کئی دہائیوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اس روایت کے مفہوم سے اہل فلسطین، افغانستان، عراق، شام،ترکی اور دنیا کے وہ سب اسلامی ممالک بھی مراد لیے جا سکتے ہیں کہ جنہیں امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے متعدد اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے اور موجودہ شام بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جسے حالیہ حالات کے سبب کئی لحاظ سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دجال کے خروج کے علاقے
جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ دجال کا ظہور عرب کے مشرقی اور شمالی علاقوں سے ہو گا بعض روایات میں یہ فتنہ مغرب سے بھی ابھرے گا اور اس کا نشانہ شام ہو گا۔ اور قرب قیامت میں بلاد شام ہی وہ علاقے ہیں جہاں دجال کو مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور مجاہدین کے لشکر شام میں موجودہوں گے۔ مغرب کے علاقوں کی طرف سے شام پر جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔ اور اس کی کرنسی کی قیمت کو بھی گرایا جائے گا۔ دجال کو کچھ مزاحمت کا سامنا عراق سے بھی کرنا پڑے گا۔
اب ہم فتنہ دجال سے متعلق چند مزید علاقوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد دجال کی دعوت اور اس کے دعوتی طریقہ کار کی طرف بڑھیں گے۔
خوز (خوزستان) و کرمان کے علاقے۔ اسفہان، یہودیہ
موجودہ خوز یا خوزستان ایران کے جنوب مشرق میں تقریبا ایک لاکھ اسی ہزار مربع کلومیٹر کا ایک صوبہ ہے جو تقریباً 22 لاکھ آبادی رکھتا ہے ۔تاریخ میں صوبہ خوزستان میدیا کے جنوب اور زیریں میزوپوٹیمیا کے مشرق میں ایک زرخیز علاقہ رہا ہے۔ خوزستان تیل کا بڑا مرکز ہے۔ یہاں کھجور اور کپاس کی کاشت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ حدیث میں فتن کے باب میں خوزستان کی بجائے خوز کے علاقوں کا ذکر ہے۔
جیسا کہ حدیث میں شام سے مراد موجودہ شام نہیں بلکہ بلاد شام ہے جو کہ بہت بڑے علاقے پر مشتمل رقبہ تھا۔ اسی طرح خوز کے علاقے بھی اپنے اندر اصطلاحی مفہوم سمیٹے ہوئے ہیں۔دجال کے فتنے کے ضمن میں خوزستان اور ایران کے دیگر علاقوں کے متعلق درج ذیل حدیث انتہائی اہم ہے۔
حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم لوگ ایرانیوں کے شہر خوز اور کرمان والوں سے جنگ نہ کر لو۔ جن کے چہرے سرخ ہوں گے۔ ناک چپٹی ہو گی۔ آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے اور ان کے جوتے بالوں والے ہوں گے‘‘۔ صحیح۔۔۔۔۔ متفق علیہ
یہ حدیث درجے میں صحیح ہے اور شیخین نے اسے بیان کیا ہے۔ یہ حدیث مبارکہ اپنے اندر معانی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔
اس حدیث سے درج ذیل معانی سمجھ آتے ہیں۔
۔.1۔ایران کے شہر خوز و کرمان سے مراد بلاد عجم (عجم کے ممالک) ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح شام و عراق سے مراد بلاد عرب (عرب کے ممالک) یا بلاد شام ہیں۔ گویا حدیث کا مفہوم بنے گا کہ دجال عجم کے ممالک سے اٹھے گااور عرب ممالک پر یلغار کرے گا۔ اور اس کا فتنہ پورے عرب و عجم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
۔.2۔۔ ایران، خوز و کرمان،اصفہان اور یہودیہ کو اگر جمع کیا جائے تو موجودہ نقشے کے مطابق یہ روس کا بڑا حصہ، اور وہ ریاستیں جو سوویت یونین سے الگ ہوئی۔ جن میں تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران، ہرات، افغانستان، پاکستان، بلخ، ہندوستان اور چین کے زیر قبضہ کچھ علاقے بنتے ہیں۔
۔.3۔۔ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے جسمانی خدو خال جو حدیث میں بتائے گئے ہیں یہ مختلف نسلوں اور تہذیبوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ مثلا سرخ چہرے ۔۔۔ یہ روس کے ٹھنڈے اور یخ بستہ علاقوں کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ جن کی جلدیں سفید اور چہرے سرخ ہیں۔
چپٹی ناک:
چین کے رہنے والے اور افغانستان کے لوگ کچھ ایرانی نسلیں
چھوٹی آنکھیں:
یہ چین کے لوگ اور تاجکستان ازبکستان کے لوگ اور ایران کے شمالی سرحدی بستیوں کے رہنے والے لوگ جن کے چہرے چپٹے اور آنکھیں چھوٹی ہیں۔
بالوں کے جوتوں سے مراد۔
گھاس کے جوتے ہوسکتے ہیں اور بالوں کے بنے گرم جوتے بھی۔ جیسے روس ترکمانستان، ازبکستان، وغیرہ کے کچھ علاقوں کے لوگوں کا گزر بسر ساری زندگی وہاں کے جانور پال کر ہوتا ہے۔ ممکن ہی اس سے مراد باریک فیشن پر مشتمل جوتے بھی ہوں جن میں پیر بالکل ننگا ہوتا ہے۔ جیسے آج کل عورتوں کے جوتوں کا رواج ہے۔کتاب تحفۃ الالمعی: (اردو شرع ترمذی از مفتی سعید احمد پالنپوری۔)
”دجال کا خروج سب سے پہلے شام اور عراق کے درمیان کی گھاٹی سے ہوگا، مگر اس وقت اس کی شہرت نہیں ہوگی، اس کے اعوان و انصار (مدد گار) یہودیہ گاؤں میں اس کے منتظر ہوں گے، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑاؤ خوز و کرمان میں کرے گا، پھر مسلمانوں کے خلاف اس کا خروج خراسان سے ہوگا۔”
البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں دیکھا جائے تو دجال اور اس کے فتنے کی خروج کی ترتیب یہ ہو گی کہ
۔.1۔سب سے پہلے یہ فتنہ عراق اور شام کے درمیانی علاقے سے سر اٹھائے گا۔ لیکن شام میں چونکہ ایمانی قوت والے لوگ موجودہوں گے اور حضرت مہدی بھی موجود ہوں گے تو پھر یہ مشرقی علاقوں کا رخ کرے گا۔
۔.2۔پھر یہ ایران کے شہر خراسان سے مدد حاصل کر کے ایران ہی کی ایک بستی یہودیہ کو اپنا مرکز بنائے گا۔ اور وہاں سے اسلام کے خلاف اپنے لشکر کے ساتھ خروج کرے گا۔
۔.3۔خوز اور کرمان کے علاقے اس کے لیے ساز گار ماحول فراہم کریں گے۔
۔.4۔مغرب سے مالی مدد حاصل کرے گا
5۔۔اور پھر اس کا اصل ہدف بلاد شام ہوں گے۔ حضرت مہدی، اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کی جنگ کا میدان شام بنے گا۔ یہ اپنی ساری دجالی قوت کو شام میں جمع کرے گا۔ اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی فوج کے سپہ سالار امام مہدی سے جنگ کرے گا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔
٭٭٭
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں