ڈاکٹر عبدالروف
دجال: احادیث کی نظر میں
دجال کی دعوت اور طریقہ کار
دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام آئے جن میں رسولوں کی تعداد تقریبا 310 سے زیادہ تھی
٭٭٭
دجال، انسان کے نفس بہیمیہ کے راستے اس کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔ یہ راستے دو ہیں۔۔۔ بے حیائی۔۔۔۔۔اور۔۔۔ لقمہ حرام
٭٭٭
دجال کے ساتھ عورتوں کا لشکر ہو گا جس سے وہ نوجوانوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا
٭٭٭
دجال کی سواری بھی سونے چاندی کی لید کرے گی۔ اس کے ساتھ روٹی (رزق و دولت) کا پہاڑ ہو گا
پچھلی قسط میں ہم نے دجال کے خروج کے علاقوں کا جائزہ لیا۔ اب ہم دیکھیں گے اس فتنے کے خدو خال کیا ہوں گے، انسانی معاشرے کے وہ کون سے پہلو ہیں جو دجال کا ہدف ہیں۔ دجال کن راستوں سے اسلام پر حملہ اور ہو گا۔ دجال کا ہدف چونکہ اسلام ہو گا اس لیے وہ اس کی بنیادوں پر حملہ اورہو گا۔ مثلا
2ْْْ۔۔۔عبادات: نماز، روزہ، حج، زکواۃ اور
3۔۔۔ معاملات: معیشت، سیاست اور معاشرت وغیرہ۔

دجال خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا، اور نبوت کا بھی دعویٰ کرے گا۔دجال کا کاری حملہ ایمانیات پر ہو گا۔ جب تک مومن کی جڑیں اللہ پر غیر متزلزل ایمان سے جڑی ہیں دجال کا بس نہیں چلے گا۔
دجال، انسان کے نفس بہیمیہ کے راستے اس کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔ یہ راستے دو ہیں۔۔۔بے حیائی۔۔۔۔۔اور۔۔۔ لقمہ حرام۔
یہ دو مراحل طے کر لینے کے بعد دجال کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں فتنہ دجال کے ضمن میں ان دو پہلوؤں کا خصوصیت سے ذکر ہے کہ دجال کے ساتھ عورتوں کا لشکر ہو گا جس سے وہ نوجوانوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا اور دجال کی سواری بھی سونے چاندی کی لید کرے گی۔ اس کے ساتھ روٹی (رزق و دولت) کا پہاڑ ہو گا۔
دجال کا مومن پر دوسرا حملہ عقیدہ رسالت پر ہو گا۔ کیونکہ عقیدہ رسالت ہی ہدایت کی بنیاد ہے۔ اگر مسلمانوں کے اس عقیدے کو مشکوک یا کمزور کر دیا جائے تو مومن کے دین کا تعلق اللہ سے کٹ جاتا ہے اور دین کا من جانب اللہ ہونا خدشات کا شکار ہو جاتا ہے۔
دجال کا دعوی نبوت:
حدیث مبارکہ میں ہے ۔۔۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔‘‘
(صحیح بخآری حدیث نمبر 3609۔۔۔ کتاب المناقب)
دجال کے دور میں دو طرح کی جنگیں ہوں گی۔ ان جنگوں میں قتل و غارت گری بہت زیادہ ہو گی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی بخاری شریف کی ایک طویل حدیث اس طرح بھی ہے۔ جن میں دور دجال کے حالات اور اس کے طریق واردات کا ذکر ذرا تفصیل سے ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کر لیں۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی۔ (شاید جنگ عظیم اول اور دوم کا ذکر ہو جن میں پونے چھ کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے) حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا (یعنی دونوں کافر ہوں گی یا دونوں مادیت پرستی کے فلسفے پر لڑیں گی۔ مارکس ازم) اور یہاں تک کہ بہت سے جھوٹے دجال بھیجے جائیں گے۔ تقریباً تیس دجال۔ ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور پھر علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور زمانہ قریب (وقت تیز رفتار) ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہو جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا اور ہرج سے مراد (کثرت کے ساتھ) قتل وغارت ہے اور یہاں تک کہ تمہارے پاس مال کی کثرت ہو جائے گی بلکہ بہہ نکلے گا۔ (یعنی ضائع ہونے لگے گا) یہاں تک کہ صاحب مال کو اس کی فکر دامن گیر ہو گی کہ اس کا صدقہ قبول کون کرے اور یہاں تک کہ وہ پیش کرے گا لیکن جس کے سامنے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تک کہ لوگ بڑی بڑی عمارتوں پر آپس میں برتری کی بنیاد پر فخر کریں گے۔ ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر عمارات بنائیں گے اور یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں بھی اسی جگہ ہوتا (کہ دنیا میں نا انصافی، بے حیائی اور ظلم اس قدر بڑھ جائے گا) اور یہاں تک کہ پھر سورج مغرب سے نکلے گا۔ پس جب وہ اس طرح طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان کے ساتھ اچھے کام نہ کئے ہوں اور قیامت اچانک اس طرح قائم ہو جائے گی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا خرید و فروخت کیلئے پھیلا رکھا ہو گا اور وہ اسے ابھی بیچ نہ پائے ہوں گے نہ لپیٹ پائے ہوں گے اور قیامت یک دم اس طرح برپا ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر واپس ہوا ہو گا کہ اسے پی بھی نہ پایا ہو گا اور قیامت اس طرح اچانک آ قائم ہو گی کہ ایک شخص اپنے حوض کو درست کر رہا ہو گا اور اس نے اس میں سے پانی بھی نہ پیا ہو گا اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص نے اپنا لقمہ منہ کی طرف اٹھایا ہو گا اور ابھی اسے کھایا بھی نہ ہو گا۔(حدیث نمبر 7131 صحیح بخاری)
یہ حدیث مبارکہ، دجال کے فتنے کے باب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم ان شااللہ آئندہ چند سطور میں اس حدیث مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔
دجال کا عقیدہء رسالت پر حملہ اور دعوی نبوت
جیسا کہ میں پہلے ایک حدیث کا حوالہ دے چکا ہوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قیامت تب تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں نہ لڑ لیں اور دونوں میں بہت بڑی جنگ ہوگی۔ حالانکہ دونوں کا دعوی ایک ہی ہو گا۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریبا تیس جھوٹے دجال نہ پیداہو جائیں۔ جن میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے (یعنی دعوی نبوت کرے گا۔)
عقیدہ ختم نبوت
قرآن کی رو سے نبوت کا یہ دروازہ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر بندہو گیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں جبکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔(الاحزاب 40) متعدد صحیح احادیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان ہے ۔
حضرت ابواُمامہ الباہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: 4088 المستدرک للحاکم حدیث:8421)
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورۃ الاحزاب، حدیث: 3544
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہم (امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین لوگ ہیں جن کا ساری مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم)
حضرت ضحاک بن نوفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم)ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔(یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں)
جاری ہے
٭٭٭
ڈاکٹر عبدالروف

جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں