دجال کون؟

ڈاکٹر عبدالروف

دجال احادیث کی نظر میں
دجال: احادیث کی نظر میں۔۔۔۔۔۔۔”
الدجالون الکذابون”*

مسیلمہ کذاب:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مطہرہ میں جھوٹے مدعیان نبوت میں سب سے بڑا اور مشہور نام مسیلمہ بن حبیب کا ہے۔ یہ یمامہ کا رہنے والا تھا اسے مسیلمہ کذاب یا کذاب یمامہ کے مشہور نام سے بھی جانا جاتا ھے۔ اس شخص کی درست تاریخ پیدائش کا پتہ تو نہیں چل سکا البتہ 632 عیسوی میں جھنم واصل ہوا۔ بعض روایات کے مطابق 100 سال سے زائد عمر پائی۔ یہ بہت بڑا شعبدہ باز اور بہترین مقرر تھا۔ جو اس سے ملتا اس کے انداز گفتگو سے متاثر ھوتا۔
اس ملعون کی خبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی ھو چکی تھی۔ لیکن مدینہ کے آخری دور میں جنگوں کی بہتات، بڑی بڑی غیر مسلم طاقتوں کے ساتھ اسلامی لشکر کی جنگی مصروفیات،اور صحابہ کرام کی تربیتی مصروفیات کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ملعون کی طرف کوئی خاص توجہ نہ فرمائی۔ جس سے فایدہ اٹھا کر یہ دجال، اپنا دجل عام کرتا رہا اور لوگوں کو اپنے گرد جمع کرتا رہا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی ایک خط بھی لکھ بھیجا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ اس ملعون کو اپنی نبوت میں شریک کر لیں۔۔(نعوذ باللہ) اس نے خط میں لکھا
مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔۔۔ معلوم ہو کہ میں نبوت کے منصب میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین آدھی آپ کی ہے اور آدھی میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور ناانصافی کررہی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا رد کیا اور اسے کذاب کہا۔ اور اس کے قاصدوں سے کہا کہ اگر اسلام میں قاصدوں کا قتل جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ تمھیں قتل کر دیا جائے۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ مسیلمہ نے دربار نبویﷺ میں خود حاضر ہوکر بھی آپ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جانشین (خلیفہ) مقرر فرمائیں، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے کھجور کی ٹہنی پڑی تھی آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا! اے مسیلمہ اگر تم امرخلافت میں مجھ سے یہ خرما کی شاخ بھی مانگو تو میں دینے کو تیار نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ ملعون مایوس لوٹ گیا۔ مگر اس کے باوجود اس نے اہل یمامہ کو جھوٹی یقین دہانی کرائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے اور اپنی من گھڑت وحی اور الہام سنا سناکر کئی لوگوں کو معتقد بنالیا۔ جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے ہی قبیلے کے ایک شخص ’’نہار‘‘ کو یمامہ روانہ کیا تاکہ وہ مسیلمہ کو سمجھا بجھاکر راہ راست پر لے آئے مگر یہ شخص بھی یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب کا معتقد بن گیا اور لوگوں کے سامنے اس کے شریک نبوت ہونے کی جھوٹی تصدیق کرنے لگا۔اس طرح مسیلمہ کذاب کا حلقہ مزید بڑھنے لگا۔
مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک جھوٹی اور من گھڑت شریعت بھی بنا ڈالی۔ جس کے احکامات عقل اور شرف انسانی کے خلاف تھے جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھی اس نے شراب حلال کردی،زنا کو مباح کردیا، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنا حرام قرار دیا،ماہ رمضان کے روزے ختم کر دئے۔ فجر اور عشاء کی نماز معاف کردی، قبلہ کی طرف منہ کرنا غیر ضروری قرار دیا ،سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔چونکہ یہ سب خرافات انسانی نفس کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے اس ملعون نے اس جھوٹی شریعت کے بعد کچھ معجزات اور شعبدے بھی دکھانے کی کوشش کی۔ جو ہر دفعہ الٹ جاتے۔ لیکن اس کے معتقدین پھر بھی اس کا دامن نہ چھوڑتے۔
ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی ہریالی کی دعا کی تو سارا باغ ہی سوکھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل میں کنوؤں کا پانی بڑھانے کے لیے اپنا تھوک ڈالا تو اللہ نے کنواں ہی خشک کر دیا۔بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہوگئے۔آنکھوں کے ایک مریض پر اپنا تھوک لگایا تو وہ بالکل ہی اندھا ہوگیا۔بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہوگیا اور تھن سکڑ گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسیلمہ کی طرز پر بہت سارے لوگوں نے دعویٰ نبوت کر دیا۔ جن کا آگے ذکر آئے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کا بڑی قوت سے مقابلہ کیا۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیئے تھے، اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا اورہدایت کی کہ حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ بن حسنہ کی آمد سے پہلے حملہ نہ کرنا لیکن انہوں نے جوش جہاد میں حملہ کردیا اور شکست کھائی جب اس شکست کی خبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ملی تو حضرت خالد بن ولیدؓ کو جو کہ بنی طئے کی مہم سے فارغ ہوچکے تھے مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم دیا۔جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں ثابت بن قیس، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا مگر لشکر اسلام نے قلعے کا دروازہ توڑ کر حملہ کردیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گرکر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابیؓ کھڑے تھے، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا اور یوں دوسرا جھوٹا نبی بھی نشان عبرت بن گیا۔

ہم اب تک تاریخ کے دو بڑے جھوٹے دجالوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کرنے کی جسارت کر ڈالی۔ اور یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر نبوت میں حصہ بھی مانگ لیا۔ اپنے معتقدین میں خود اپنے دجل کو ہوا دی اور بڑے فتنوں کا باعث بنے۔ اپنی من گھڑت شریعتیں تک بنا ڈالیں۔ اور معجزات دکھانے کی جسارتیں بھی کیں۔ یہ دو جھوٹے دجال، کذاب یمامہ اور اسود عنسی تھے اور کذاب یمامہ مسیلمہ، جنگ یمامہ میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا اور دوسرا ذاتی قبیح حرکتوں کی وجہ سے قتل ہوا۔
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ انسان کی نفسیات، صلاحیتوں، اور کمزوریوں سے گہری دلچسپی اور آگاہی رکھتا ہے۔ اس کے پاس ہر شخص کو گمراہ کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ شیطان کسی کو نفس کی حوس، کسی کو علم، کسی کو دولت، کسی کو عہدے، کسی کو پارسائی، کسی کو چالاکی اور کسی کو سادگی کے اندر رہ کر گمراہ کرنے کے طریقے جانتا ہے۔ شیطان سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالی محفوظ و مامون رکھے۔ صرف انبیاء اللہ کی تائید اور حفاظت کی وجہ سے اس کے حملوں سے بچ سکتے ہیں۔ شیطان طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے زاہدوں، عالموں اور ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے اور انہیں طرح طرح کے داموں میں پھنسا کرگمراہ کرتا ہے۔ کسی کو تکبر و نخوت پر ڈال کر، کسی کو دولت کی حوس دے کر، تو کسی کو ریا کاری کے ذریعے حرام میں ڈال دیتا ہے۔ تصوف کے میدان والے وہ لوگ جو بے مہار ہوں وہ بھی جلد شیطان کا چارہ بنتے ہیں۔ شیطان ان میں سے کسی کو کہتا ہے تیرے معتقدین بہت زیادہ ہیں۔ تو اللہ کی طرف سے غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے اس لیے تو مہدی موعود ہے، کسی کے کان میں کہتا کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے، کسی کو حلال و حرام کی پابندیوں سے مستشنٰی قرار دیتا ہے، تو کسی کہ دل میں یہ القاء کرتا ہے کہ تو اللہ کا نبی ہے اور بدنصیب عابد اس پر یقین کر لیتا ہے۔ یہ شیطان کی نورانی شکل اور آواز کو سمجھتا ہے کہ یہ خود خداوند قدوس کا جمال اور کلام ہے جسے دیکھ اور سن رہا ہے۔ شیطان اسے سوتے میں خوب مزے دار اور خدائی کے خواب دکھاتا ہے۔
ان نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ بھی ایسی ہی واردات ہوئی۔ ان کے معتقدین بھی کمزور اعتقاد والے، شیطان کے چیلے اور حواریہ ہوتے ہیں۔ اب ہم کچھ مزید جھوٹے دجالوں کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں اور ان کے دجل کا طریق کار بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
حارث دمشقی:
کذاب حارث بن عبد الرحمن بن سعید۔۔۔ دمشقی۔۔۔ پہلے ایک شخص ابو جلاس عبدی قریشی کا غلام تھا۔ مالک کی وفات کے بعد آزاد ہوا تو یاد الہی میں تصوف کے راستے پر چلا۔یہ دن رات عبادت میں مصروف رہنے لگا۔ بہت کم غذا کھاتا۔ بہت نفس کا مجاہدہ کرتا۔ کم سوتا، کم بولتا اور صرف ستر ڈھانپنے کی حد تک پرانے پیوند لگے کپڑے کا استعمال کرتا۔ اس کے زمانے میں عبادت و ریاضت میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اگر یہ زہد و ریاضت اور مجاہدے شریعت محمدی کے دائرے میں ہوتے تو کمال ہوتا۔ لیکن شومئی قسمت، اس بے مہار زاہد کو معلوم نہ تھا کہ شیطان اس کا رہنما بن گیا ہے۔ اور وہ اس وقت تک کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ اسے ضلالت و ہلاکت ابدی کے تحت قہر مذلت تک نہ پہنچا دے۔یہ شخص کچھ کرامات بھی کرتا، جنہیں اس کے ماننے والے معجزات نبوت سے تعبیر کرتے۔
آج کے دور میں بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ کچھ لوگ آج بھی بعض خارق عادت چیزیں کر سکتے ہیں۔ جن کا صدور دوسرے عام لوگوں سے نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کام پر سو فیصد توجہ دینے والا شخص اور جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے۔ جن کے لیے اللہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ ان افعال کی مثالیں ہمیں ٹیلی پیتھی، یوگا کی مشقوں، علم نفسیات کی کچھ افعال اور ہپناٹزم میں بھی ملتی ہیں۔ ان خارق عادت کاموں کو انجام دینے والے اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ یا بدعتی لوگ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہا جاتا ہے۔ تعلق باللہ اور قرب الٰہی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں عام لوگ جانے یا انجانے میں گمراہی کے راستے اختیار کر لیتے ہیں۔

حارث دمشقی بھی اپنے مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسی خرافات کرتا تھا مثلا وہ لوگوں سے کہتا کہ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو آتے جاتے دکھا سکتا ہوں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ بہت حسین و جمیل خوبصورت انسان گھوڑوں پر سوار آسمان کی طرف جار رہے ہیں۔ یہ شخص موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے پھل لوگوں کو کھلاتا۔بہت لمبی لمبی عبادات کرتا جو دوسروں کے لیے ممکن نہ ہوتیں۔ جب حارث نے شہرت اختیار کر لی اور لوگ جوق در جوق گمراہ ہوئے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوط ایمان رکھنے والا دمشق ہی کا ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تم کس بات کے دعویدار ہو؟ حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے۔ حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔اس کے بعد اس شخص نے حارث کے دعویٰ نبوت اور دجل عظیم کی شکایت خلیفہء وقت عبدالملک بن مروان سے کی۔ عبدالمالک بن مروان نے حکم دیا کہ حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے لیکن گرفتاری سے پہلے ہی حارث بیت المقدس کی طرف فرار ہو گیا۔ اور اپنی نبوت کا پرچار کیا اور لوگوں کو خوب گمراہ کرنے لگا۔

بصرہ کے ایک سمجھدار شخص نے خلیفہ کے جاسوس کے طور پر حارث سے ملاقات کی۔ بعد ازاں خلیفہ نے چالیس جنگجو اس کے ساتھ بھیج دیے جو حارث کو قید کر کہ دمشق لے آئے۔ راستے میں دو مرتبہ حارث نے اپنا شعبدہ دکھایا اور زنجیر ہاتھ سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑی۔خلیفہ نے حارث سے پوچھا کیا واقعی تم نبی ہو؟ حارث بولا بے شک لیکن یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو میں کہتا ہوں وہ وحی الہی کے مطابق کہتا ہوں۔ خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو اشارہ کیا کہ اس کو نیزہ مار کے ہلاک کر دے۔ اس نے ایک نیزہ مارا لیکن حارث پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جارث کے مریدوں نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کے اجسام پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ عبدالمالک نے محافظ سے کہا شاید تونے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ نہیں مارا۔ محافظ نے بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ نیزہ مارا جو حارث کے جسم کے پار ہو گیا اور وہ بری طرح چیخ مار کر گرا اور گرتے ہی ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح خود ساختہ نبی اور اس کی نبوت انجام کو پہنچی۔
میں نے اس کے قصے کو ذرا تفصیل سے اس لیے بیان کیا کہ اس میں سبق ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی خود ساختہ نام نہاد ولی کی چند جھوٹی شعبدہ بازیوں کو دیکھ کر انہیں کرامات الاولیاء اور معجزات کے لفظوں سے تعبیر کردیتے ہیں۔ اور پھر ان کرامات سے متاثر ہو کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں پھر اندھی عقیدت کر کہ ایسے شیطانوں اور شیطان کے حواریوں کو زعم باطل میں مبتلاء کر دیتے ہیں۔ جس سے وہ ولی اللہ ہونے،مہدی ہونے اور حتی کہ نبی ہونے کا دعوی کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت بڑی بڑی شعبدہ بازیاں دکھاتے ہیں۔ لیکن ان کا موکل اور ان کا کارندہ شیطان یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو ان خرافات سے محفوظ و مامون رکھے۔
جاری ہے۔۔
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں
(بقیہ صفحہ :18شہید امتیاز عالم)
میں آخر پر آپ سبوں کو ’’شہادت‘‘ کا عظیم مرتبہ پانے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور پیچھے رہ جانے والوں تک اس پیغام کے پہنچنے کا خواہشمند ہوں کہ’’کاش آپ جان لیتے کہ مجھے میرے رب نے معاف کردیا ہے اور مجھے ’’المکرمین‘‘ میں شامل فرمایا ہے۔
’’بما غفر لی ربی و جعلنی من المکرمین‘‘۔
میرے سارے غم،ساری پریشانیاں،ساری حسرتیں،سارے تکلیف،ساری مشکلیں اور ساری صعوبتیں’’ابدی‘‘ راحت اور کامیابی میں تبدیل ہوچکی ہیں۔میں اپنی منزلِ مراد کو پاچکا ہوں۔میں مطمئن ہوں،اپنے رب کیطرف رجوع کرچکا ہوں اور رحمن و رحیم کے نیک بندوں میں شامل ہوکر اُسی ربِ کریم کی رحمتوں کے طفیل جنتوں کا مکین بھی ٹھہرا ہوں اور اپنے رب کی ان تمام نعمتوں،رحمتوں اور عطائوں کے ملنے پر بھی جو غم مجھے یہاں بھی لاحق ہے وہ یہ ہے کہ اس تحریک کے ساتھ ہر طرح کے حالات اور جبر کے باوجود بھی ’’وفا‘‘ کا رشتہ ہمیشہ استوار رکھنا،اطاعت کو اپنے اوپر لازم پکڑنا،نظم و ضبط پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دینا،بھیڑ کے بجائے ایک ’’تحریک‘‘ بن کر اُبھرنا اور اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لانے میں کبھی کسی لالچ اور خوف کو خاطر میں نہ لانا،ہوشیار رہنا اور یاد رکھنا کہ منافقوں کے سردار مدینے میں ہی سکونت پزیر رہا کرتے ہیں بلکہ وہ پیغمبری قربت کا لبادہ بھی اوڑھے رکھتے ہیں تاکہ مشکوک ہونے کے بجائے محفوظ اور موثر رہ سکیں،خوشی و غمی،عطا و منع اورقربت ودوری غرض ہر طرح کے حالات میں اپنے مقدس مقصدکی آبیاری کرتے رہنا،موٹر کاروں،بنگلوں،پلاٹوں،پلازوں،فارم ہاوسوں اور دیگر دنیوی ہیچ اور عارضی مفادات پر اس تحریک کو ہمیشہ مقدم رکھنا، مل کر رہنا اور عصبیت کے تمام بتوں لات و منات اور ہبل کو کبھی انجانے میں بھی ’’نمسکار‘‘ نہ کرنا،اچھا میری شہادت اور قتل کے حوالے سے اس کی اب کوئی شاید خاص اہمیت نہ ہو مگر آپ سبوں کی سلامتی اور تحفظ کے لئے میرے قاتلوں کی پہچان اور گرفتاری میں کوئی سستی یا کوتاہی نہ کرنا ورنہ یہ زہریلا اور پُراسرار سانپ باری باری آپ سبوں کو ڈس لے گا۔ شہدا ء کے خون کی امانت اور مائوں بہنوں کے عفت کی حفاظت اب آپ سب کے حوالے ’’والسلام علیکم من اتبع الھدی‘‘

ڈاکٹر عبدالروف