دجال کون ہے!!!

ڈاکٹر عبدالرؤف

دجال کے لفظ کا مادہ د،ج،ل (دجل)ہے لفظ دجال اس مادے سے دجل کا فاعل اور فعّال کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔دجل میں دو معنے پوری انتہا کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ 1. پہلا معنی جھوٹ، فریب، دھوکہ اور نظر بندی۔ 2 جبکہ دوسرا معنی ڈھانپا، چھپانا لپیٹنا اورملمع سازی کرنا کے ہیں۔ اس اعتبار سے دجل کا معنی ہوا جھوٹ، فریب اور دولت کے ساتھ حق کو باطل سے اس طرح چھپانا کہ دیکھنے والا جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق سمجھنے لگے۔ عقل پر ایسا پردہ ڈالنا کہ غلط بات صحیح اور صحیح بات غلط لگنے لگے۔ دجل کے معنے میں سحر اور خمر سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ عقل پر باطل کی ملمع کاری کا مفہوم موجود ہے۔عربی زبان میں دجال اس جوہری کو بھی کہا جاتا ہے جو جعل سازی کرے اور نقلی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اس طرح کر دے کہ لوگ دھوکہ کھا جائیں۔ دجال اس تلوار کو بھی کہا جاتا ہے جس پر زہر کا پانی چڑھایا گیا ہو۔

دجال کا ایک معنی میک اپ بھی ہے۔ انگلش میں میک اپ سے مراد دھوکہ اور چھپانا ہے چہرے کے عیب چھپانے کے لیے استعمال ہونے وہ کریم یا استر یا فاؤنڈیشن جو شکل کی ہیت کو بدل کر دکھائے اس کو بھی دجال کہا جاتا ہے۔ گویا لغوی تشریح سے پتا چلا کہ دجال پر دجل کی دو صفات بدرجہ اتم غالب ہیں۔ 1. جھوٹ اور 2. حق کی باطل کے ذریعے چھپانا۔

اصطلاحی معانی میں دجال ایک بڑے فتنے کا نام ہے۔ جو بدرجہ اتم،جھوٹ،باطل، فریب اور دھوکے کے ذریعے حق کو شکست دے گا۔ اور حق کو چھپائے گا، اپنی دجالی حقیقت کو چھپا کر لوگوں کا مسیحا بنے گا، لوگوں کو انسانیت پسندی، مالی مدد، ھمدردی،محبت،اور خود داری جیسے فریب دکھا کر ان کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔یہودیوں کے ہاں اس کا صفاتی نام ”یوبیل”, یا ”یوبل”یا ”ہبل” ہے جس کا معانی طاغوت،نجات دھندہ شیطان یا بت یا بڑے خدا کے ہیں۔ان کے ہاں صفاتی نام مسیاہ یا مسیحا ہے۔ یہود جس قدر اس فتنے سے مسلمانوں کو خوف زدہ دیکھتے ہیں اسی قدر یا اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ دجال کے منتظر ہیں اور کئی صدیوں سے مسلسل دجال کے لیے ساری دنیا میں راہ ہموار کر رہے ہیں۔

دجال کا اصل نام کا کسی کو علم نہیں۔ نہ اس کا نام کسی الہامی کتاب میں ہے نہ کسی مذھب میں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں اس کا نام لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ دجال ایک صفت ہے۔ دجال کا لغوی معنی ہے۔ بدرجہ اتم دجل کرنے والا۔ سب سے بڑا جھوٹا،فریبی اور دھوکے باز، سب سے بڑھ کر اپنے کفر کو چھپا کر بظاہر حق، حق الاپنے والا، حق کو باطل کے ذریعے چھپا دینے والا باطل کو اس دھوکے اور فریب کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے والا کہ لوگ اس کی زبان پر اس حد تک یقین کر لیں کہ حق کو باطل کہنے لگیں اور باطل کو حق کہنے لگیں۔ یہ شدت اور مہارت کے ساتھ جھوٹ بولنے والا اگر آگ کو پانی اور پانی کو آگ ثابت کرنا چاہے تو کر دے۔

تعجب ہے کہ ان احادیث صحیحہ کی پر زور اور خوفناک سراحت کے باوجود مسلمانوں کے ہاں فتنہ دجال کا خوف نہیں پایا جاتا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

1.مسلمان دجال کو محض ایک فرد سمجھتے ہیں۔ جو کسی کے گھر پیدا ہوگا، جوان ہو گا، اکیلا ہو گا لمبا تڑنگا جو گا، مافوق الفطرت طور پر تخلیق کیا جائے گا۔ ماتھے پر کافر لکھا ہو گا۔ اس لیے جب تک مسلمان کوئی ایسا فرد آنکھوں سے دیکھ نہ لیں، دجال کو ماننے والے نہیں۔

2.شاید مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ چونکہ ہر نبی نے دجال سے ڈرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈرایا لیکن تاحال دجال آیا نہیں اس لیے اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دجال کا ظہور ابھی دور ہے فتنہ دجال کی علامات کے متعلق اسلام، یہودیت، عیسائیت اور ہندوازم میں قریب قریب مشترک مواد ملتا ہے۔لیکن میرے خیال میں جس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ دجال کی حقیقت اور دجالیت کو یہودیوں نے سمجھا ہے کسی دوسرے مذہب نے نہیں سمجھا۔ اس بات کی وضاحت آگے چل کر از خود ہو جائے گی۔ہمارے ہاں کتب احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی صورت میں مسلمانوں کو فتنہء دجال سے متنبہ کیا گیا ہے۔ اورتمثیلی انداز میں (symbolically) بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ سمجھنے والا کسی شک و شبہ میں نہیں رہتا۔اور ان علامات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اس تمثیلی انداز (etiology) کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ھو اور فتنہ دجال کی تباہ کاریوں کا وہ خوف رکھتا ہوجو اسلام کا مقصود ہے۔دجال سے اس بے خوفی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید ہمارے آباؤ و اجداد اور علماء نے اس امت کو دجال کے متعلق آگاہی نہیں دی۔ہمارے گھروں میں دین کے متعلق گفتگو نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی بھی ہے تو صرف چند مسلکی رسومات تک۔ ہمارے جمعے کے خطبے اور دینی محافل اس کے تذکرے سے خالی رہیں۔ ہم اپنے اپنے مسالک اورفقہی اختلافات میں الجھے رہے اور دجال سے بے خبر ہو گئے۔ گویا ہمارا یہ بے خبر ہونا بھی دجال ہی کی چال تھی جس کا ہم نا دانستہ شکار ہوئے۔بہر حال وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہم مسلمان دجال اور اس کی حقیقت کو اتنا نہیں جانتے جتنا جاننا ضروری تھا۔اب وقت کا اشد تقاضہ ہے کہ ہم خود بھی اس فتنے سے کما حقہ آگاہ ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی باقاعدہ اس کی تعلیم دیں۔

دجال کو مسیح کیوں کہا جاتا ہے؟

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ یہودی دجال کو مسیح یا مسیحا یا مسیاہ بھی کہتے ہیں۔ جبکہ عیسائی اسے جہوٹا مسیح، یا مسیح الدجال بھی کہتے ہیں مسیح کا مادہ ”مَسَحَ” یا ”مَسْحْ” ہے

مسیح دراصل عبرانی میں ’ماشیح‘ یا ’مشیحا‘ تھا جس کے معنی مبارک کے ہیں۔مسح کا ایک معنی چھونا، مالنا یا مالش کرنا ہے اس مادہ سے مسیح کا مطلب ہوا۔تیل کی مالش کیا ہوا۔۔(بنی اسرائیل کے ہاں قدیم طریقہ یہ تھا کہ کسی چیز یا کسی شخص کو جب کسی مقدس مقصد کے لیے مختص یا تیار کیا جاتا تھا تو اس چیز یا اس شخص پر تیل مل کر اسے متبرک کردیا جاتا تھا۔شاید دجال کے متعلق احادیث کو ہم نے قرآن و سنت کے مزاج اور یہودی عادات اور تاریخی اقوام کے انداز فتن سے نہیں سمجھا۔ اس لیے حدیث کے مفاہیم کو غلط لے لیا۔ جس سے دجال کی اصل حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی اور نتیجتاََ دجال کا وہ خوف اور ڈر جاتا رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔

شاید ہم نے دجال کو ایک فتنے سے زیادہ محض ایک ایسا شخص سمجھ لیا ہے جس کا توڑ ہم نے نہیں کرنا بلکہ یہ کام حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ذمہ ہے۔ لہذا دجال جانے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جانیں، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس تعبیر کی غلطی نے ہمیں احادیث کے محض سطحی اور لغوی معانی تک محدود کر دیا۔اور دجالیت کا خوف دلوں سے جاتا رہاگویا لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسٰی (ع)اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور انکے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف ” مسیح” لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسی(ع)کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ ملا کر” مسیح دجال” لکھتے اور بولتے ہیں۔مسیح یا مسیحا کا ایک مجازاً معنیٰ، معشوق، محبوب اللہ کا پیارا، اور خلیل بھی ہے، جس کے پاس عاشق کے مرض کا علاج ہوتا ہے اور جو اس کو نئی جان عطا کر سکتا ہے۔ زندہ کرنے والا، بہت زیادہ سیر کیا ہوا۔ اسی معنٰے میں مسیح حضرت عیسیٰ (ع) کا لقب بھی ہے جو معجزے کے طور پر مردے کو زندہ اور اندہے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے۔ حضرت عیسی (ع) کو مسیح کہنے کی ایک وجہ علماء نے یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ پہلے زمین پر آئے، پھر آسمان پر زندہ اٹھائے گئے پھر آخری دور میں دوبارہ آسمان سے اتارے جائیں گے۔ اس طویل سیر و سیاحت کی وجہ سے بھی حضرت عیسی کو مسیح کہا جاتا ہے۔ اور یہودی دجال کو بھی مسیح اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ فتنہ بھی ساری روئے زمین کا احاطہ کریگا۔

دجال کا اصل ہدف۔۔۔۔ اسلام

فتنہ دجال کی اصل منزل ساری دنیا پر اپنے دجل کی بالا دستی ہے۔ جھوٹ اور دجل چونکہ الہامی ہدایت کے ساتھ ساتھ فطرت انسانی کے بھی خلاف ہے اس لیے ساری نوع انسانی پر اس کا فوری تسلط تو ممکن نہیں۔ اس لیے پہلے پوری رازداری کے ساتھ شیطان صفت انسانوں کی تلاش ضروری ہے پھر ان کو مادیت کی رعنائی اور پیسے کی چھن چھن کے ذریعے اس خفیہ گھناؤنے کام سے جوڑے رکھنا ہے، اور اپنی جمعیت میں مسلسل اضافہ کرنا ہے۔ فطری طور پرجھوٹ اور سچ کا ادغام ممکن نہیں اس لیے سچ کا استعمال بھی پوری چالاکی کے ساتھ جھوٹ ہی کی ترویج کے لیے کرنا بھی ضروری ہے۔ تاکہ لوگوں کو دجل کی شوگر کوٹٹڈ گولیاں دی جا سکیں۔ مذہب، دجل کے خلاف ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا سے مذہب کی بیخ کنی کی جائے۔ ان بڑیمقاصد کو حاصل کرنے کے لیے فتنہ دجال کے سہولت کار اور گماشتے یہودیوں نے عیسائیت کو اپنا چارہ بنایا کیونکہ ان کے ہاں مذہب کے ٹھیکیدار چرچ کے مجاور مذہب کو اپنے ہاتہوں ذبح کرنے پر آمادہ تہے۔ اور مسلسل یہود کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ لیکن یہودیت کے دجالی فتنے کا اصل ہدف تو اسلام تھا۔ عیسائیت تو محض سنگ میل تھا۔ اسلام کے آنے کے بعد عیسائیت تو اپنے خرافات اور تعصب کی بناء پر ویسے بھی رد ہو چا تھا۔ اب تو دجال کی اصل جنگ اسلام کے ساتھ تھی۔اسلام دین فطرت ہے۔ اور اسلام کو خود اللہ نے انسانوں کا دین بنایا ہے اس کی بنیادی توحید خالص، ختم نبوت، اور عقیدہ آخرت کی بنیاد پر بڑی گہری تعمیر کی گئی ہیں۔ یہود کے لیے قرآن مجید تعمیر کردہ امت محمدیہ کی بنیادیں ہلانا آسان نہیں تھا۔ ڈارون، لارڈ زہیر، شاخت اور منٹگمری واٹ، جیسے مستشرقین نے قرآن پر بار ہا حملے کیے اور اس کو مشکوک، بے ترتیب، جہوٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود ساختہ کتاب ثابت کرنے اور اس کے معانی میں تحریف کرنے کی کوشش کی مگر دو وجوہات کی بناء پر اس مذموم کامیاب نہ ہو سکے۔

اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا تھا۔2. حدیث مبارکہ کا ضخیم ذخیرہ قرآن مجید کا مضبوط حصار مہیا کرتا ہے اور اس کے درست معانی و مطالب اور تفسیرمتعین کرتا ہے۔ یہود نے عیسائیت کی طرح اسلام میں بھی پہلے توحید کی بنیادوں کو مسلمانوں شرک کے تصورات پھیلا کر کمزور کرنے کی کوشش کی۔اور دوسری طرف حدیث اور سنت کی حجیت پر سوالات اٹھانے اور ذخیرہ حدیث کو مکدر اور مشکوک کرنے پر صدیاں لگا دیں۔ یہود نے اسلام میں داخل ہو کر، باقاعدہ قرآن و احادیث کا فتنے کی غرض سے تنقیدی مطالعہ کرنے کے بعد فتنہ انکار حدیث اور من گھڑت و موضوع احادیث کی صنعت و ترویج کی صورت میں اسلام کی بنیادوں پر حملہ کیا۔ اور اس طرح ہے در پے ہر میدان میں اسلام کی راہوں میں کانٹے بچھانے کی کوششیں کیں۔ (جاری)

٭٭٭

ڈاکٹر عبد الرؤف محقق،دانشور اور معروف عالم دین ہیں ٹیکسلا شہر سے ان کا تعلق ہے۔ان کی تحریریں باقاعدگی کے ساتھ اب کشمیر الیوم میں شائع ہوتی رہینگی۔ان شا ء اللہ