قیصر یعقوب
24 نومبرکو اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان سے ایک عظیم انسان اور عظیم صحافی متین فکری کا جنازہ پڑھ کر واپس آرہا تھا ۔راستے میں دوست حضرات آپس میں ان کی صحافتی زندگی پر گفتگو کررہے تھے ،میں ان کی یادوں میں کہیں کھویا ہوا تھا،دیر تک ان کے جنازے کا منظر آنکھوں کے سامنے باربار آرہاتھا ،ان کا آخری دیدارآنکھوںسے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا،رات گئے تک نیند کے غلبہ کے باوجود نیند آنکھوں سے اڑ گئی تھی کہ ہر لمحہ ان کی جدائی ،دکھ اور غم میں گزررہی تھی۔اس دوران میرے دماغ پر ایک ہی چیز حاوی رہی اور وہ پہلی ملاقات کا منظریاد آرہا تھا جب2006 مجھے ماہنامہ کشمیر الیوم کے دفترمیںا ن سے ملنے کا اور کام کرنے کا موقعہ ملاتھا،مرحوم متین فکری اس وقت ’’ماہنامہ کشمیرالیوم ‘‘جو مظلوم کشمیری قوم کا ترجمان ہے کے مدیر اور محمد شہبازوانی اس ادارے کے منتظم اعلیٰ تھے۔مجھے پتہ تھا کہ میں ایسی شخصیت سے ملاقی ہورہا ہوں جس کا نام میںنے نوے کی دہائی کے آغاز میں ریڈیوپاکستان سے سنا تھا جب ان کے جاندار ،شاندار اور معیاری تبصرے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے ،یہ وہ دور تھا جب تحریک آزادی کشمیر زوروں پر تھی اور کشمیر میں مسلح جد و جہد کا آغاز ہوچکاتھا،ان دنوں بھارت کے پروپیگنڈوں کا منہ توڑجواب تبصروں کی صورت میں سننے کو ملتا تھا وہ متین فکری کے ہی لکھے ہوا کرتے تھے جنہیں مسلسل پیش کیا جاتا تھا۔یہ تبصرے کئی دہائیوں تک جاری رہے۔
ادارہ کشمیر الیوم کے دفتر میں متین فکری صاحب کے ڈیسک کے ساتھ وابستہ رہا ان کے ٹیبل کے بالکل سامنے بیٹھا کرتا تھا ،چونکہ میں صحافت کے ’’ابجد ‘‘سے بھی واقف نہیں تھا ،متین صاحب بزرگ ہونے کے ناطے اورہاتھ سے لکھنے میں انہیں تھوڑی سی دشواری پیش آتی تھی تو مجھے کہتے تھے’’ نوجوان‘‘ قلم اٹھا اور جو کچھ میں املا کرتاہوں اسے لکھتے جائو،یہ میرا پہلا مرحلہ تھا اور وہ ڈکٹیٹ کرتے رہتے اورمیں لکھتا جاتا،مجھے یاد ہے جب بھی کوئی لفظ ’’ح ‘‘اور’’ ہ ‘‘سے آتا تو وہ دہراتے کہ حلوے والی ’ح‘ اور ہاتھی والی’ ہ ‘تاکہ کوئی لفظ غلط نہ لکھ سکوںاور جملے کا معنی ہی نا بدل جائیں ،صبح آتے وہ مجھ سے کشمیر کے حوالے سے قومی اخبارات میںچھپے ہوئے،مضامین اور کشمیر سے متعلق خبروں کے تراشے مانگتے تھے جو میں نے پہلے ہی جمع کرکے ان کے ٹیبل رکھے ہوتے تھے۔ وہ ان پر ایک غائرانہ نظر ڈال کر انہیں سائیڈ پر رکھ دیتے تھے اور مجھے کہتے تھے چلو بسم اللہ کریں اور لکھنا شروع کریں ،وہ جو کہتے تھے اسے ردوبدل نہیںکرتا پڑتا بلکہ وہ ایک تحریر بن جاتی تھی ۔


وہ اچھرہ پارک لاہور میںمولانا مودودی ؒ کی محفلوں میںجوانی کے زمانے میں بطور ایک شاگردشرکت کرتے تھے،کبھی اس زمانے کے واقعات بھی سناتے تھے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ’’ سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی تقریر خودبخود ایک تحریر بن جاتی تھی جب اسے کوئی لکھنے بیٹھتا تو اسے نوک پلک سنوارنے کی ضرورت نہیںہوتی تھی ایسی میں ان کی تقریروںسے بے حد متاثر ہوا تھا۔‘‘اسی طرح متین صاحب بھی جو کچھ املاء کرتے تھے خاص کر جب کشمیرالیوم کے لئے اداریہ لکھواتے تھے اسے بھی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی نہ ہی اس میں کوئی غلطی کی گنجائش ہوتی ۔اتنا تجربہ اور اتنی مہارت ان کو فن صحافت میں حاصل تھی۔،وہ قومی اخبارات و جرائدمیں دہائیوں سے لکھتے تھے ان کی صحافت ساٹھ برس پر محیط ہے جن میں سے صرف جنگ اخبار میں اس ہستی نے تین دہائیوں تک بطور نیوز ایڈیٹر صحافت کے میدان میں اپنے جوہردکھائے۔ اور وہ آخری دم تک لکھتے رہے اس دوران انہوںنے اپنی بیماری کوبھی آڑے آنے نہیںدیا۔
صحافتی میدان میں ان کی مہارت اور تجربے کے مقابلے میںکم ہی کسی کو لایا جاسکتا ہے۔اصلوب صحافت اور زبان ادب پر اتنی دسترس تھی کہ جو کچھ لکھتے تھے ان کی تحریر وں میں اتنی چاشنی ہوا کرتی تھی کہ کوئی قاری ان کی تحریر پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔یعنی ان کی ہر تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ان کے ساتھ چاربرس کی رفاقت رہی اس دوران ان کا خاص موضوع کشمیر ہی ہوتا تھا،انہیں کشمیریوں کے ساتھ قلبی لگائو خاص کر جو اللہ کی راستے میں شہید ہوتے ،ان کی خبر جب ان تک پہنچتی تو وہ افسردہ رہتے اور دعا گو ہوتے تھے’’ یا اللہ کب یہ قوم پنجہ غلامی سے آزاد ہوجائے گی‘‘۔وہ تاریخ کشمیر کے ہر پہلو سے آگاہ تھے اس لئے کشمیر کے حوالے سے جتنی ان کی صحافتی خدامات ہیں وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔
ایک دن میں نے ایک شہید کے حوالے سے ایک تحریر لکھی اور ڈرتے ڈرتے متین صاحب کو دکھانے کی جسارت کی ،میں مضطرب رہا کہ متین صاحب ابھی اسے ردی میں رکھ دیں گے ،کیونکہ مجھے پتہ وہ تحریر کا صحیح پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ہی رسالے میں چھاپنے کے لئے دیتے تھے۔انہوں لفظ لفظ پڑھکر میری طرف دیکھا اور کہا تحریر اچھی ہے اور کہیں جگہوں پر اصلاح فرمائی ۔ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے بے حد متاثر کیا اور جتنا بھی وقت ہم نے اکٹھے گزار اس دوران میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا تھا اور متین صاحب کی نظر سے اسے گذار کر وہ اسے کشمیرالیوم کے رسالے کی زینت بناتے جب کہ اس وقت اس رسالے میں جگہ پانا مشکل تھا کیونکہ اس وقت اس رسالے میں حامدمیر،عرفان صدیقی ؒ،ہارون الرشید،عارف بہار،امیاز جتوئی ،ابو مسلم عبداللہ اور ابن مسعودجیسے معروف کالم نگارمظلوم کشمیریوں کی توانا آواز بن کر لکھا کرتے تھے اور ان میں سے میں نے ان میں سے آج بھی کچھ درد دل رکھنے والے اس قلمی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔صحافت میں بڑا نام ہونے کے باوجود میں نے کبھی بھی متین صاحب کے اندربڑے پن کی بو تک نہیں سونگھی،وہ ہمارے ساتھ کھلے دل سے بات کرتے تھے ۔
وہ انکسار کے پیکر تھے ،مرد درویش کو دیکھ کر اللہ ہاد آتا تھا ،وہ سخت گرمی ہویا سردی ہمیشہ نما ز دفتر سے دور مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور زبان ان کی ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہتی تھی۔ وہ صحافت کے استعارہ تھے،شریف الفنس اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق صحافی تھے پورے دن میں صرف بیس تیس منت کا نماز ظہر کے بعد قیلولہ کے لئے وقفہ لیتے تھے ۔اس کے بعد تازہ دم ہوکر پھر اپنے کام سے جڑجاتے تھے۔ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ان س کے آرایل ہسپتال ان کی عیادت کے لئے گئے ،وہ آئی سی یو میں ڈائیلاسز کے مرحلے سے گزر رہے تھے ۔منہ پہ ماسک چڑھا ہواتھاو رآکسیجن لگی ہوئی تھی ،اس حال میں بھی ہاتھ ملایا ،ان کی آنکھیں بھیگی بھیگی تھی جن سے یادوں کا تلاطم عیاں تھا۔ان کی یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی اس کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ ہمیں دارمفارقت دے گئے۔وہ صرف ابلاغی سہارے ہی نہیں بلکہ یادوں کے سہارے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ان کے جانے سے یقینا وسعت فکر و نظر کا ایک بہتا دریا سوکھ گیا،انسانیت و اخلاق کا نمونہ ہماری نظروں سے روپوش ہوگیا۔اللہ تعالیٰ اس درویشِ خدامست کی کامل مغفرت فرمائے۔
شمع روشن بجھ گئی
بزم سخن ماتم میں ہیں








