محمد احسان مہر
دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ممالک اور ان میں بسنے والی اقوام بالخصوص مسلمان جس نارمل طریقے سے معمولات زندگی بسر کررہے ہیں ،اور وز مرہ زندگی کی رنگینیوں میںمصروف ہیںایسے میں دوظالم و جابر اور دہشت گرد قوتیں دنیا کے امن و سلامتی کو عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔جنوبی ایشیا ء میں نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ملک بھارت 77سالوں سے ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہے ۔اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود انہیںاستصواب رائے کا حق دینے کے بجائے کشمیریوں کی نسل کشی کررہا ہے بھارت کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل کر کشمیریوں کی آواز کو عالمی برادری تک رسائی سے بھی روک رہاہے ۔ بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم اور اقلیتوں کو کچلنے میں مصروف ہے۔مشرق وسطیٰ میں ناجائز اسرائیلی ریاست عالمی استعماری طاقتوں کی مدد سے فلسطینی مسلمانوں کی زمین پر قابض ہے اور ان کی نسل کشی کررہا ہے اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ اردن،شام،لبنان کے علاقوں پر بھی قابض ہے اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع اس کا ایجنڈا ہے



مسئلہ کشمیر کی طرح تنازعہ فلسطین بھی 7دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے ان مسائل پر کئی اجلاس اور قرارداد یں پاس ہوئیں لیکن مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے جارہے ہیں ایسا بھی ہوا کہ ان مسائل کے بعد دنیا میں سامنے آنے والے تنازعات کو جس سرعت سے حل کیا گیا (انڈونیشیا میںمشرقی تیمور ،لیبیا،عراق اور افغانستان کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں)اس سے لگتا ہے کہ مغربی استعماری طاقتیں اپنے مفادات کی خا طر اقوام متحدہ کے کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں جس سے اقوام متحدہ جیسا ادارہ دنیا میں امن و سلامتی کے قیام ،اور متوازی نظام انصاف کی فراہمی میں ناکامی کے بعداپنی اہمیت کھو رہا ہے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کئی ایسے اقدامات ہیں جن سے مسلمان ممالک براہ راست متاثر ہوئے ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی امتیازی فیصلے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات کو نئی شکل دے کر نئے تنازعات کو جنم دیتے ہیں ۔ عالمی برادری کے مفادات بھی ان مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں یہی وجہ ہے کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ مقبوضہ علاقوں پر قبضہ مزید مستحکم کررہا ہے ان حالات میں اقوام متحدہ کا بھارت اور اسرائیل کو مزید ڈھیل دینا عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے عالمی برادری کو اقوام متحدہ کے کردار کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بناے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں امن قائم ہواور وسائل انسانیت کا قتل کرنے کےبجائے انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں۔مشرق وسطیٰ میں شام کے ناساز گار حالات پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا اسرائیلی افواج کے غیر قانونی اقدام پر فقط تشویش کا اظہار کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے کیا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک کھیل کارڈ ہے ۔۔؟کیا غزہ میں درندگی ،جنگی جرائم اور عالمی عدالت انصا ف کے فیصلے کے بعد بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کاروائی سے قاصر ہے ۔۔؟ اسرائیل 15ماہ سے غزہ میں جس درندگی کا مظاہر ہ کررہا ہے عربوں کی روایات بہادری ،غیرت اورحمیت کے سامنے 45ہزار فلسطینی شہید کردئیے گئے ۔غزہ اور اس سے ملحقہ علاقوںکو کھنڈرات بنانے کے بعد اسرائیل لبنان پر بھی چڑھ دوڑا ،اسرائیل کے گھنائونے اور مکروہ عزائم ساری دنیا کےسامنے ہیں شام کے اندرونی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی افواج نے شام کے اندر کئی مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا ،اسرائیلی حملوں سے شام کے ائیر پورٹ اور بندرگاہوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیلی افواج گولان کی پہاڑیوں سے آگے بفرزون کے علاقوں تک قابض ہوچکی ہے طویل عرصے تک اندرونی خلفشار کا شکار رہنے والاملک شام ایک بار پھر توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے دشمن کا سامناکررہا ہےمشرق وسطیٰ میں اسرائیل جب ایک نئے محاذ پر کھڑا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کا تمسخر اڑا رہا ہے ۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان نے کہا ہے کہ ہم غزہ میںجنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں جیک سیلوان نے امید ظاہر کی کہ جنگ بندی اسی ماہ ہوجائے گی۔۔ دوسری طرف شام میں قائم عبوری حکومت نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ اسرائیل کو شام میں دراندازی سے روکا جائے۔دہائیوں سے جاری مشرق وسطیٰ میں بحران اور سر اٹھاتے تنازعات عرب لیگ اور او آئی سیOIC جیسے اداروں کی کار کردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔۔۔