ذرا بھی کوتاہی خودکشی کے مترادف ہوگی!!!

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر اکتوبر1947سے بالعموم اور 5 اگست 2019 سے بالخصوص 9 لاکھ قابض فورسز کے نرغے میں ایک بڑے قید خانے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ صبح و شام گولیوں کی گن گرج، جلاو گھیراو،شہادتیں،گرفتاریاں اب عام معمول بن چکی ہیں۔ نوجوان نسل کو منصوبہ بند طریقے سے تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ قابض فورسز کے خلاف حریت پسند عوام کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال کیا جارہا ہے۔ خونین اور افسوسناک سرکاری دہشت گردی کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ ہزاروں حریت پسند اورپُرامن شہری جن میں بزرگ، جوان، خواتین اور بچے شامل ہیں، بھارتی زندانوں اور عقوبت خانوں میں شدید مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے انتہائی کربناک زندگی گزار رہے ہیں۔اپنے ناجائز قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص تبدیل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں شد و مد سے جاری ہیں۔ریاستی انتظامیہ اور ایڈمنسٹریٹو سروسز سے مسلمانوں کو بتدریج بے دخل کیا جارہا ہے۔ اسوقت ریاستی انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پر غیر ریاستی براجمان ہیں۔کشمیری ملازمین کو بغیر کسی وجہ اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا ہے۔ تحریک آزادی کے ساتھ وابستگی کے بہانے رہائشی مکانوں اور جائیدادوں سے بالجبر لوگوں کو بے دخل کرکے کھلے آسماں تلے بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جارہاہے۔ غیر ریاستی باشندوں کو بساکر ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس خوفناک صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے “ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل فکر مند شہریوں Concerned Citizens Groupنے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا کہ خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے کہ لوگ کانا پھوسی کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر اسوقت جارج آرویل کی ناول 1984اورآرتھر کوسٹلر کی ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میں اس گروپ کو بتایا کہ کشمیر کی نئی جنریشن کو بھارتی جمہوریت کے گن بتانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب سماج میں پھیلی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ “ایک اور کشمیری امور کے ماہر عارف بہارنے بھی قریب قریب ایسی ہی تصویر پیش کی ہے۔لکھتے ہیں کہ ” زمینوں کو ہتھیانے اور لاکھوں غیر کشمیری باشندوں کو کشمیر کی شہریت اور نوکریاں دینے کا ابتدائی ہدف بھی بھارت نے تیزی سے حاصل کیا ہے۔کشمیری بیوروکریسی کو دیوار سے لگا کر درآمد کردہ بیووکریسی کے ذریعے انتظامی معاملات پر گرفت بھی مضبوط کی جا چکی ہے۔حد بندیوں سے مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں کے درمیان قطع وبرید کرکے طاقت کا مصنوعی تواز ن بھی قائم کیا جا چکا ہے۔جس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ہندو وزیر اعلیٰ لانا اب چنداں مشکل نہیں رہا۔اس لئے اب اگر بھارتی حکومت پانچ اگست کے اقدامات کو تحفظ دے کر پانچ اگست سے پہلی کی پوزیشن بحال بھی کرے تو یہ ان کے گھاٹے کا سودا نہیں “

اس گھمبیر اور انسانیت سوز صورت حال پر عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانبدارانہ اور مجرمانہ خاموشی بہت ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس ہے۔ ملت مظلومہ کشمیر کی اس تباہ کن صورتحال میں یہ ارباب اقتدار پاکستان کی آ ئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتدار کی موجودہ رسہ کشی سے ذرا فراغت پاکر اس جنت ارضی کو آخری تباہی سے بچانے کی فکر کریں جس کو آج تک شہ رگ کہتے کہتے چلے آرہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی اور زمین و جائیداد سے جابرانہ بے دخلی روکنے کے لیے بھرپور سفارتی مہم جوئی کے ذریعے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے، اداروں کو متحرک اور قوانین کو بروئے کار لانے کی فوری ضرورت ہے۔ اس میں ذرا بھی کوتاہی خودکشی کے مترادف ہوگی۔

٭٭٭