وسیم حجازی
19 جون, 1996 صْبح 5AM:19 پر میرے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا جس نے لمحوں میں میری زندگی کو ایک نہ ختم ہونے والی تکلیف میں دھکیل دیا. اپنے وطن سے سینکڑوں میل دْور میں سرزمینِ پاک پر ڈھائی سال سے قیام پذیر تھا. میں لیڈرشپ کورس کیلئے پچھلے ایک مہینہ سے قیام پذیر تھا. شدید گرمیوں کا موسم تھا. اْس دن میں صبح چار بجے کے قریب اٹھا, نہایا, وضو کیا اور نماز فجر کیلئے مسجد کی جانب چل پڑا. امام مسجد حاضر نہیں تھے, اسلئے ساتھیوں نے مجھے امامت کیلئے آگے کیا. مجھے کیا خبر تھی کہ یہی وہ آخری نماز ہوگی جو اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر میں ادا کر رہا ہونگا. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اپنی اس آخری نماز میں مجھے امامت نصیب ہوئی. نماز پڑھ کے میں نے اپنے رب سے دْعائیں مانگی اور سرفروشوں کی پوری ایک جماعت میرے پیچھے آمین آمین کہہ رہی تھی.
مسجد سے نکل میں اپنی بارک میں گیا اور تلاوت کرکے ورزش کی تیاری شروع کی. اتنی دیر میں سورج کی سنہری کرنوں نے ہمارا استقبال گراؤنڈ میں کیا جہاں ہمیں ہر روز ایک تھکا دینے والی ورزش کا سامنا کرنا پڑتا تھا. نیلگوں آسمان بھی شاید ہم پر رشک کیا کرتا تھا کیونکہ اللہ کی راہ میں خود کو تھکا دینے والا عمل بھی اللہ کو بہت محبوب ہے. گراؤنڈ میں پتہ چلا کہ آج معمول کی ورزش کے برعکس Course Assault ہے. اب ہم دو میل تک دوڑ لگا رہے تھے. یہ میری زندگی کی آخری دوڑ تھی. میں آخری بار اللہ کی راہ میں اپنے پاؤں غبارآلود کررہا تھا. حدیث کے مطابق جو پاؤں اللہ کی راہ غبارآلود ہوئے ان پر نارِ جہنم حرام ہے. مجھے بھی اللہ کی رحمت سے یہی اْمید ہے کیونکہ نااْمیدی کفر ہے.
واپس گراؤنڈ میں پہنچے تو ہم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے. اب ہم نے مختلف رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا. ہر کوئی چاہتا تھا کہ وہ یہ کام جلدی سے نمٹا کر سستا لے. میں بھی جلدی کر رہا تھا لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں تقدیر مجھے لمبے آرام کیلئے بھیجنے والی ہے. ہر لمحے کے ساتھ میری رفتار تیزی ہوتی جارہی تھی اور میں تیزی سے ہر رکاوٹ کو قدموں تلے روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا.
دس فٹ کی دیوار کو پْھلانگتے ہوئے بالآخر میں اْس رسی پر چڑھ گیا جو مجھے گرانے کیلئے بڑی بیتاب تھی. تقریباً بازو جتنی موٹی دو رسیاں ایک دوسرے کے اوپر نیچے دو درختوں سے باندھی ہوئی تھیں. اوپر والی رسی کو میں نے ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور نیچے والی رسی پر میرے دونوں پاؤں تھے. اب میں آہستہ آہستہ اسکے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف جارہا تھا. میں ہوا میں تقریباً معلق تھا. یہ وہ آخری لمحات تھے جب میری ٹانگیں میرا ساتھ دے رہی تھیں۔میں رسی کے آخری سرے پر پہنچنے والا ہی تھا کہ پیچھے سے کئی ساتھی ایک ساتھ اس رسی پر چڑھ دوڑے. اوپر والی رسی اتنے وزن کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور بالآخر میری جانب سے اس جگہ سے کٹ گئی جہاں یہ درخت کے ساتھ بندھی ہوئی تھی. رسی نے مجھے نیچے پتھریلی زمین پر زور سے پٹخ دیا اور اگلے ہی لمحے میں نے خود کو زمین پر اس حال میں گرا ہوا پایا کہ میں ایک ناقابل برداشت درد کو اپنی پوری کمر میں محسوس کر رہا تھا. شدید درد سے میری چیخیں نکل رہی تھی. لیکن اس وقت مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری ریڈھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔
میرے ساتھی میرے ارد گرد جمع ہوگئے. کچھ ساتھیوں کی لاپرواہی کی سزا مجھے اکیلے بْھگتنا پڑ رہی تھی کیونکہ رسی پر ایک وقت میں صرف ایک شخص کو چڑھنے کی اجازت تھی. لیکن اس سے پہلے کہ میں رسی سے نیچے چھلانگ لگاتا, کچھ ساتھی ایک ساتھ رسی پر چڑھ دوڑے اور رسی نے سارا غصہ مجھ پر نکالا. خیر انسان تقدیر کے سامنے بے بس ہے. تھوڑی دیر کے بعد ایمبولنس آئی اور مجھے سٹریچر پر ڈال دیا گیا اور گاڑی نامعلوم رستوں پر سے گذرتی ہوئی تقریباً دو گھنٹے بعد ایک ہسپتال پہنچ گئی ۔کسی بھی ساتھی کو میرے ساتھ نہیں آنے دیا گیا کیونکہ معاملہ حساس نوعیت کا تھا. میرا سفر اب اکیلا ہی تھا۔
ہسپتال کے صحن میں چار آدمیوں نے جب مجھے ایمبولینس سے نیچے اتارنے کی کوشش کی تو اس وقت میری کمر کا درد اس انتہائی شدت کو پہنچ گیا کہ میری چیخوں کی وجہ سے ہسپتال میں بہت سارے لوگ میرے گرد جمع ہوگئے کیونکہ میری کمر کی ہڈی بیچ میں ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی جس نے میرے cord spinalکو بْری طرح مجروح کیا تھا. انجان لوگوں میں اکیلا میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخرکار میرے ساتھ ہوا کیا ہے ۔مجھے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا گیا اب میری زندگی کے مشکل ترین لمحات میرے منتظر تھے۔ ڈاکٹر نے میری ابتر حالت دیکھ کر سب سے پہلے میرے مثانے میں cathetor ڈال دیا اور پھر میری ناک کے ذریعے میرے معدے میں پائپ ڈال دی تاکہ معدے میں جو کچھ بھی غذا ہے وہ باہر آجائے. یہ پائپ کئی روز اسی طرح میرے ساتھ چمٹی رہی اور میری تکلیف میں اضافہ کرتی رہی. میں کچھ بھی کھانے پینے سے قاصر تھا. اس دوران گلوکوز چڑھا کر میرے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی. دوسری جانب انتہائی تیز بخار اور شدید کپکپاہٹ نے میرا جینا دوبھر کردیا اور میں بیڈ پر ایک زندہ لاش بن کر رہ گیا.
بالآخر نیلے فلک کا شاہین ہسپتال کی چار دیواری میں مقید ہو کر رہ گیا. صبح جو چیتے کی رفتار سے دوڑ رہا تھا, دوپہر کو بے حس و حرکت ہسپتال کے بیڈ پر بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ہسپتال میں ڈاکٹر عمر کا یہ جملہ میری ہمت بڑھا رہا تھا کہ اس وارڈ میں ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی کی موت ہوجاتی ہے. بالفرض تم اگر مر بھی جاتے ہو تو انشاء اللہ شہادت کی موت پاؤ گے. تم کسی صورت بھی ناکام نہیں ہو. لہٰذا حوصلہ رکھو. واقعی اگر ڈاکٹر حوصلہ دینے والا ہو تو مریض آخری دم تک زندگی کی جنگ لڑ سکتا ہے ۔جسکی نگاہیں آسمان کو تکتی رہتی تھیں, آج وہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا دن رات صرف ہسپتال کی چھت کو تکتا رہتا تھا صبح سے شام اور شام سے صبح تک میں ہسپتال کے اندھیروں میں ایک ایک لمحہ انتہائی دردوکرب میں گذار رہا تھا. درد تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. بخار تھا کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا. ایک تیماردار جو مجھے فراہم کیا گیا ایک سرکاری ملازم تھا۔ اسے پنجابی زبان کے علاوہ کوئی زبان سمجھ نہیں آتی تھی. میں اردو میں اسے کچھ کہنے کی کوشش کرتا تو اسے سمجھ ہی نہیں آتی اور وہ پنجابی میں کچھ بولتا تو مجھے کچھ سمجھ نہ آتی. اس صورتحال نے مجھے مزید پریشان کردیا۔سخت ترین آزمائشوں اور کڑے امتحانوں کے بادل میرے سر پر منڈلا رہے تھے. صرف بیس سال کی عمر میں اتنی بڑی آزمائش کا مقابلہ کرنے کی ہمت میں کہاں سے لاتا اگر اللہ کی نظرِ کرم مجھ پہ نہ ہوتی. مجھے صبر و ہمت کا کوہِ گراں بننا تھا. مجھے اپنے اندر ہمالیہ جتنا جگر پیدا کرنا تھا. میں خود کو زندگی سے زیادہ موت کے قریب محسوس کر رہا تھا. ہر گذرتا لمحہ مجھے جسمانی طور کمزور کر رہا تھا. اب مجھ میں بازو ہلانے کی بھی ہمت نہیں تھی. بس تھوڑا بہت اپنا سر ہلا پاتا. اس حال میں مجھے یہ پریشانی تھی کہ میں نماز کیسے پڑھوں۔
میں زندگی کی یہ جنگ تنہا لڑ رہا تھا. میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زندگی مجھ سے اتنا بڑا امتحان لے گی. نامعلوم ہسپتال اور انجان لوگوں کے درمیان میں پریشان حال تھا. مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ اْسوقت میں کس ہسپتال میں ایڈمٹ تھا. نرسیں ٹھنڈے پانی سے میرا بخار کم کرنے کی کوششیں کررہی تھی. مگر میری حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی. میرے آس پاس بھی کوئی اپنا نہ تھا. غم پہ غم مجھے کھائے جا رہا تھا. میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہا تھا
تین دن اسی حال میں گذر گئے کہ اچانک ایک دن شہید برہان صاحب اور شہید احمد حسن صاحب میرے پاس آئے. انہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی. لیکن انہوں نے جب میری ناگفتہ بہ حالت دیکھی تو انکے چہروں پر گہری اداسی چھا گئی. میں نے ان سے بس یہ کہا کہ مجھے بتائیے کہ میں نماز کیسے ادا کروں. انہوں نے کہا کہ آنکھوں کے اشاروں سے نماز ادا کرو. میری حالت ایسی نہیں تھی کہ میں زیادہ بات کر پاتا. بات کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی مجھ میںکچھ دیر بعد وہ چلے گئے. اب مجھے امید تھی کہ وہ مجھے جلد ہی علاج کیلئے کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں گے. اب میں اسی انتظار میں تھا۔ڈاکٹر نے جو بات نوٹ کی وہ یہ تھی کہ میرے سینے کی بائیں جانب کی Ribs دائیں جانب کی Ribs کے مقابلے میں کچھ اوپر تھی. ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ایسا پہلے سے ہی تھا. میں نے کہا نہیںاسکا مطلب یہ تھا کہ میں جب گرا تھا تو شدید چوٹ نے میری کمر کے بائیں طرف زیادہ دباؤ ڈالا تھا جسکی وجہ سے میرے سینے کا بایاں حصہ تقریباْ باہر آچکا تھا. اسی وجہ سے میرا معدہ متاثر ہوا تھا. ایک چوٹ کی وجہ سے میری زندگی کو مزید کتنی چوٹیں کھانی تھی, میں اس وقت اس بات سے بالکل بے خبر تھا. مزید مشکلات اور مصائب میرا انتظار بے چینی سے کر رہے تھے
میں گھر سے ایک لمبے سفر پر نکلا تھا لیکن بیچ رستے میں تقدیر نے مجھے روک دیا. ابھی منزل دور تھی اور میری رفتار کو قدرت نے روک دیا. میرے ذہن میں ہزاروں سوال اْٹھ رہے تھے. مجھے اس ناگہانی صورتحال نے ہزاروں الجھنوں میں ڈال دیا تھا. ایک ساتھ کئی تکالیف نے میرے جسم پر حملہ کیا تھا اور مجھے ہر تکلیف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا تھا. لیکن میرے جسم کی شدید کمزوری نے مجھے نڈھال کردیا تھا. میرا ذہن بری طرح متاثر ہو رہا تھا. قیامت خیز لمحے میرے وجود کو کاٹ رہے تھے۔چونکہ ابھی تک میرا xray یا MRI نہیں ہوا تھا اس لئے میں اپنی ریڈھ کی ہڈی کی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھا. میں بس اپنی کمر میں شدید درد محسوس کر رہا تھا. ایسا شدید درد جسے میں لفظوں میں بیان کرنے قاصر ہوں. میرا جسم اگر ذرہ بھر بھی ہل جاتا تو یہ درد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا. اصل میں ریڈھ کی ہڈی T8 لیول پر dislocate ہونے کی وجہ سے اس جگہ اپنی اصل پوزیشن پر نہیں تھی جیسا کہ اسے میرے رب نے رکھا تھا. اسلئے اس جگہ جیسے آتش فشاں پھٹ چکا تھا اور درد کا لاوا نکل نکل کر میرے پورے وجود کو تہہ و بالا کر رہا تھا.
مسئلہ صرف ریڈھ کی ہڈی کا نہیں تھا. اصل مسئلہ cord spinalکا تھا جو damage ہو چکا تھا جسکی وجہ سے میرے آدھے جسم کا breakdown communicationہو چکا تھا. میرے آدھے جسم کا رابطہ اپنے headquarter یعنی دماغ سے منقطع ہوچکا تھا. میرا آدھا جسم اب مفلوج ہوچکا تھا. چونکہ cord spinalکا علاج ممکن نہیں تھا. اسکا مطلب تھا عمر بھر کی معذوری. wheelchair. پرمجھے آپنے آپ کو اس بھیانک صورتحال کیلئے تیار کرنا تھا. مجھ خود کو سمجھانا تھا کہ اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں.
ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کء دن اسی حال میں گذر گئے. میں مسلسل کمر کے بل لیٹا ہوا تھا. میں نے ان دنوں میں ایک بار بھی کروٹ نہیں بدلی تھی کیونکہ ذرا سا بھی ہلنے سے شدید درد مجھے چیخنے پر مجبور کردیتا تھا.۔مسلسل تیز بخار اور کپکپاہٹ نے تو میرے ہوش اْڑا دئے. میرے جسم کو مسلسل گلکوز سپلائی ہو رہی تھی. معدے میں پائپ کی وجہ سے میں کچھ بھی کھانے سے قاصر تھا. میری کلائی میں جو گھڑی تھی میرا تیماردار میری کلائی کو اٹھا کر میری آنکھوں کے سامنے کر دیتا. اسطرح میں اپنی گھڑی سے ٹائم دیکھ پاتا. شام کب ڈھلی, صبح کب ہوئی, دن ہے یا رات. مجھے پتہ ہی نہیں چلتا تھا. میں بس ہسپتال کی چھت کو تکتا رہتا تھا.کبھی ہلکی سی نیند آتی تو درد پھر سے جگا دیتا.
میری حالت شیر خوار بچے سے ابتر اور عمر رسیدہ بوڑھے سے کہیں بدتر تھی. وہ تو پھر بھی کچھ نہ کچھ حرکت کرسکتے ہیں مگر میں بے حس و حرکت ایک زندہ لاش کی مانند ہسپتال کے بستر پر پڑا تھا. میرے جسم پر اگر مکھی بھی بیٹھ جاتی تو مجھ میں اْس کو بھی اْڑانے کی طاقت نہ تھی. میرے لئے وقت جیسے تھم چکا تھا. سورج کی روشنی میرے لئے بے معنی ہوچکی تھی. چاند کی چاندنی اور تاروں کی جھلملاہٹ میرے لئے بے مقصد تھی میری زندگی مکمل اندھیروں میں ڈوب چکی تھی. آنے والے وقت کی بھیانک تصویر میری آنکھوں کے سامنے بار بار آتی اور میرے حوصلوں کو توڑنے کی کوشش کرتی مگر اللہ نے میرے حوصلوں کو ٹوٹنے نہ دیا. میں نے اس حال میں بھی اپنے دل کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی اور مشکل وقت گذرنے کا انتظار کرتا رہا۔
زندگی بھر میرا ساتھ نبھانے والی میری ٹانگوں نے اب ہمیشہ کیلئے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔جن ٹانگوں نے کبھی مجھے فلک بوس برفلیے کوہساروں سے گذار کر اپنے وطن سے اس نئی سرزمین تک پہنچایا تھا, وہی ٹانگیں اب بے حس و حرکت جامد و ساکن تھیں. میرے وہ پاؤں جو ہر روز صبح صبح پوری رفتار سے دوڑتے ہوئے زمین سے گردوغبار اْڑایا کرتے تھے, مجھ سے جیسے پوچھ رہے تھے کہ اگر رْکنا ہی تھا تو ہمیں دوڑانے کی عادت کیوں ڈالی تھی؟ میرے جسم کا آدھا حصہ میرے ساتھ جْڑا ہوا تو تھا مگر حقیقتاً مجھ سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ چْکا تھا. اور اس بچھڑنے نے میرے وجود پر بیانتہا اضافی بوجھ ڈال دیا۔میں اْس رہگذر کا راہی تھا جہاں قدم قدم پہ موت بانہیں پھیلائے کھڑی تھی. میں نے یہ پْرخطر راستہ خود اپنی مرضی سے چْنا تھا. مجھے معلوم تھا کہ میری راہ میں ہزاروں مشکلات و مصائب آئیں گے. میں جانتا تھا کہ ہزاروں امتحان اور آزمائشیں میری منتظر ہیںمگر اسطرح کی انوکھی آزمائش سے میرے ہزاروں ساتھیوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی گذرا تھا. میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسطرح کی خوفناک صورتحال سے مجھے واسطہ پڑے گا جو انسان کو نہ تو جینے دے اور نہ ہی مرنے دے. اس عجیب و غریب مصیبت کیلئے میں نے خود کو کبھی بھی تیار نہیں کیا تھا کیونکہ ایسا خیال بھی دل و دماغ سے نہیں گذرا تھا. اس نئی مصیبت سے نمٹنے کا کوئی تجربہ میرے پاس نہیں تھا.
ہسپتال میں اسی حال میں کئی دن گذارنے کے بعد اب مجھے آپریشن کیلئے لاہور لے جانے کا وقت آگیا تھا. مجھے چھ آدمیوں نے بیڈ شیٹ سمیت بیڈ سے اتار کر سٹریچر پر ڈال دیا. شفٹ کے وقت اس دفعہ پھر خوفناک درد سے میری چیخیوں نے سارے ہسپتال کو ہلا کر رکھ دیا. مجھے جب ہسپتال سے باہر نکالا گیا تو میں نے اتنے دنوں بعد دن کی روشنی کا نظارہ کیا. ایمبولنس اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئی. اسلام آباد کے ہسپتال میں مجھے ایک رات کیلئے ایڈمٹ کیا گیا کیونکہ اگلے دن لاہور کیلئے مجھے ہوائی جہاز کے ذرئیعے جانا تھا. پمز میں میڈکل شعبہ سے جڑا ہمارا ایک ساتھی شاہد بھائی میری تیمارداری کیلئے پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ میری گھمبیرحالت نے اسے کافی افسردہ کردیا. اتنے دنوں بعد اپنے کسی کشمیری ساتھی سے ملاقات ہوئی تو بہت خوشی ہوئی ہسپتالوں میں جو بھی لمحے گذرتے رہے وہ تو جیسے ایک ایک سال کے برابر تھے. ہسپتال ایک مریض کیلئے ایک جیسی جگہ ہے جسکے ساتھ اسکی خوشگوار یادیں کم اور ناگوار یادیں زیادہ وابسطہ ہوتی ہیںکوئی بھی مریض ہسپتال میں زیادہ دیر نہیں رہنا چاہتامگر مجھے پورا ایک سال ہسپتالوں میں رہنا پڑا ایک سال تک میں مختلف قسم کی تکلیفوں سے گذرتا رہا. ہسپتال میرے لئے ایک ڈراؤنہ خواب بنا رہا. تقدیر مجھے ایک جگہ سیدوسری جگہ گمھا پھراتی رہی اور میں تکلیفوں پہ تکلیفیں سہہ سہہ کر تقدیر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا رہا۔
ہسپتال میں شاہد بھائی نے رات بھر میرا خیال رکھا. اللہ انہیں جزائے خیر دے. اب میں دوسروں کا کس قدر محتاج تھا اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب شاہد بھائی میرے کپڑے تبدیل کر رہا تھا. اپنی اتنی بے بسی دیکھ کر مجھ پر کیا گذری, یہ میں ہی جانتا ہوں. زندگی نے مجھے کس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا. میری زندگی لارچارگی, بیچارگی, بے بسی اور بے کسی کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی. میں سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کس کس کام کیلئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑے گا اور کب تک؟ یہ براہِ راست میری خودداری کو چلینج تھا۔ (جاری ہے)
انتقال پرملال ماہ فروری 2023
-1نثار بھائی پٹن کی ( والدہ محترمہ ) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا گئی،-2عمر بھائی بڈگام کی( والدہ محترمہ ) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا گئی ،-3عرفان بھائی کولگام کے (والد محترم ) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا گئے ،-4انس جواد بھائی ادھم پور کے ( بھائی ) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں دوران حراست شہید ہوئے،-5عامر غازی بھائی کولگام کی ( والدہ محترمہ ) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا گئی،-6سہیل بھائی شوپیان کی ( والدہ محترمہ ) مقبوضہ کشمیر میں وفات پا گئی،-7امتیاز عالم صاحب کپواڑہ اسلام آباد پاکستان میں نا معلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ مرحومین کو اپنے دعائوں میں یاد رکھیں ۔