راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

منصورہ ہسپتال کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں مجھے شفٹ کیا گیا جہاں میں نے پورا ایک سال انتہائی تکلیف دہ حالت میںگذارا۔ sore Pressure کی وجہ سے میرے جسم کی تکلیف میں تو اضافہ ہوا ہی تھا کہ ایک اور تکلیف نے سر اٹھایا۔ یہ تھا Infection UrinaryTract (UTI) مسلسل تقریباً چھ ماہ اس مرض نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ مسلسل شدید بخار،کپکپاہٹ، vomiting نے میرے جسم کو عذاب میں ڈال دیا۔ حال یہ ہوا کہ میرے جسم میں صرف 5 پوائنٹ خون رہ گیا۔ میرا خون o نگیٹیو ہے۔ میرے جسم کو جب خون کی ضرورت پڑی تو اس گروپ کا خون ملنا انتہائی مشکل ہوگیا۔ بیس کیمپ میں بہت سارے ساتھیوں کے خون کا ٹیسٹ کیا گیا جن میں سے صرف پانچ ساتھیوں کا خون میرے بلڈ گروپ کے ساتھ میچ ہوگیا۔ وہ ساتھی مجھے اپنا خون دینے لاہور پہنچ گئے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین

ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود بھی UTI کنٹرول نہیں ہورہا تھا۔ antibiotics low dose سے لے کر antibiotics dose high بھی ناکام رہے۔ مہنگے ترین انجکشن میرے جسم کی رگوں میں دوڑنے لگے۔ حال یہاں تک پہنچا کہ انجیکشن کرنے والے کو میرے بازؤں میں رگیں بھی نہیں مل رہی تھی. پھر پاؤں کی رگوں میں انجیکشن کئے گئے۔ میرے پاؤں میں جب بھی سیرینج کی سوئی چْبھنے لگتی تو وہ خود سے زور زور سے درد کی وجہ سے حرکت کرنے لگتا۔ لہٰذا دو دو آدمی میرے ٹانگوں کو زور سے پکڑتے یہاں تک کہ انجیکشن کا عمل مکمل ہوجاتا۔ میرا مجبور جسم تکلیف پہ تکلیف سہتا ہوا بسترِ علالت پہ نڈھال پڑا ہوا تھا۔ لیکن میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ میں صبر سے سب کچھ سہتا رہا، سہتا رہا، سہتا رہا۔ صبر، بے انتہا صبر، نہ ختم ہونے والا صبر ۔

شدید بخار کی وجہ سے میرا معدہ کھانا بھی ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ میں جو کچھ بھی کھانے کی کوشش کرتا مجھے vomiting ہو جاتی۔ شدید بخار نے میرے جسم سے خون بھی نچوڑ لیا۔ غذائی قلت اور شدید کمزوری کی وجہ سے میرے جسم کا Immune System بہت کمزور ہوگیا۔ antibiotics کی وجہ سے میرے سر کے بالوں کا رنگ بھی تبدیل ہوا۔ میرا چہرہ متورم ہوگیا۔ ڈاکٹر حضرات بھی علاج کر کر کے تھک گئے۔ کبھی ڈاکٹر سمجھتے کہ شاید sore pressure کی وجہ سے انفیکشن ہوا ہے، کبھی کہتے کہ شاید کمر میں لگے plate اور screws کی وجہ سے ہے۔ کبھی کہتے کہ UTI ہے۔ خیر میرا تو حال برا کردیا تھا اس انفیکشن نے اور وہ بھی مسلسل کئی ماہ تک میں بستر پر پڑا اپنی انگنت تکالیف سے بڑی بے جگری سے لڑ رہا تھا۔

ایک اور بات جو مجھے پریشان کر رہی تھی کہ میں نہانا چاہتا تھا لیکن میرے ساتھی مشکل سے میرے ہاتھ منہ دھو پاتے تھے۔ نہانے کا حل یہ نکالا گیا کہ میرے جسم کو روئی سے سپرٹ واش کیا جاتا۔ چونکہ سر کے بالوں کو دھونا بھی مشکل تھا اس لئے میرے بالوں کو زیرو ٹرم کیا گیا۔ ایک دن میرے مرشد و بزرگ میرے پاس تشریف لائے تو بہت ساری باتوں کے علاوہ حکیم لقمان کی یہ بات بھی بتائی کہ مجھے دو چیزوں پہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک، جب مردہ آدمی کو نیم گرم پانی سے غسل دیا جاتا ہے تو وہ زندہ کیوں نہیں ہوتا اور جب انسان دہی کھاتا ہے تو وہ مر کیوں نہیں جاتا؟ تب سے میں نے یہ بات اپنے پلے باندھی کہ جب بھی مجھے نہانا ہو تو نیم گرم پانی سے نہانا ہے۔ انکی تاکید پر تین مہینے کے بعد ساتھیوں نے پہلی بار نیم گرم پانی سے میرا سر دھویا۔

اْردو میں ایک محاورہ ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ یعنی ایک شخص جب ڈوب رہا ہو تو اگر وہ تنکا بھی دیکھے تو اسے بھی پکڑنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید یہ تنکا ہی اسے کنارے تک لے جائے۔ایک دن مقبول پنڈت صاحب میری خیریت پوچھنے راولپنڈی سے منصورہ ہسپتال آئے. چونکہ انہیں میری تکلیف کے حوالے سے کافی پریشانی تھی اسلئے ایک دن انہوں نے کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور میری Spinal Injury کے بارے میں انہیں بتایا. ڈاکٹر انہیں ہومیوپیتھک علاج کے حوالے سے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا اسلئے انہوں نے دوائیوں کی کچھ چھوٹی سی بوتلیں دی۔ چونکہ دعاء کے ساتھ ساتھ مرض کیلئے دوا بھی ضروری ہے ،یہ سمجھ کر میں صبح شام اس دوائی میں سے چند قطرے پی لیتا اور یہ امید رکھتا کہ شاید یہ دوائی اپنا کچھ اثر دکھائے۔ مہینہ گذر گیا لیکن دوائی سے کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اب اْمید کے اس تنکے کو پھینکنے کے سوا میرے پاس کوئی اور چارہ بھی نہ تھا. یوں یہ آس بھی ٹوٹ گئی۔

میرے حادثے کے بارے میں میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تھا۔ ایک دن منصورہ ہسپتال کے لینڈ لائن نمبر پر گھر سے میرے نام فون آیا۔ چونکہ لینڈ لائن کا ہینڈ سیٹ منصورہ ہسپتال کی نچلی والی منزل میں Reception پر تھا اسلئے ساتھیوں نے مجھے سٹریچر پر نیچے اتارا۔ فون پر والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے میری بات ہوئی۔ یہ لمحات بھی رْلا دینے والے تھے ۔والد صاحب تو سردیوں میں دہلی آکر اکثر فون کرتے تھے لیکن اس بار میں اپنی والدہ صاحبہ سے پہلی بار فون پہ بات کر رہا تھا۔ میری نازک صورتحال کا شاید انہیں اندازہ نہ تھا لیکن انکی پریشانی کا اظہار انکی باتوں سے عیاں تھی۔ میرا دل جسطرح پارہ پارہ ہو رہا تھا اسی طرح انکا کلیجہ بھی کٹ رہا تھا۔

بات ختم ہوتے ہی میں ماضی کے دریچوں سے جھانکنے لگا جہاں سے میں بچپن اور لڑکپن کے قوسِ قزح پر بکھرتے رنگ دیکھ رہا تھا جسے تشکیل دینے میں والدین کا مرکزی کردار رہا تھا۔ میں تصور کی آنکھ سے اس چار دیواری کو دیکھ رہا تھا جہاں میں پل بڑھ کر جوانی کی دہلیز پر پہنچے میں کامیاب ہوا تھا. پھر تقدیر نے مجھے برفیلے کوہساروں سے گذار کر وہاں پہنچایا تھا جہاں زندگی کا دوسرا نام موت تھا۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے میں ہسپتال کی چار دیواری میں جب قید ہوا تو یہاں بچپن اور لڑکپن کی یادیں مجھے لمحہ لمحہ بیچین و بیقرار کردیتی۔ اپنوں کی جدائی کا غم تو انسان کو ویسے ہی نڈھال کردیتا ہے لیکن اس شدید تکلیف کے وقت یہ غم مجھے اور بھی غمگین کر دیتا تھا۔ جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی تکلیف قیامت ڈھا دیتی۔

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ یہ غالباً ستمبر یا اکتوبر کا مہینہ تھا۔ ماہِ رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ میرے ساتھیوں نے سحری کھائی اور روزہ رکھا۔ میں بہت اْداس ہوگیا کیونکہ بلوغت کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہو رہا تھا کہ میرا کوئی روزہ چھوٹ رہا تھا۔ دن بھر میں انتہائی اْداس رہا۔ جب افطاری کا وقت آیا اور ساتھیوں نے روزہ کھولا تو بے اختیار میرے ضبط کے سارے بندھن اس شام ٹوٹ گئے۔ آنسؤ میری آنکھوں سے بے اختیار چھلکنے لگے۔ میں زور زور سے رونے لگا اور میری ہچکیاں ۔۔۔۔۔ ساتھی میرے اردگرد جمع ہوگئے اور مجھے دلاسہ دینے لگا۔ اس ایک چوٹ کی وجہ میں دین کے فرائض کا اہتمام بھی کرنے سے قاصر تھا۔ نہ تو نماز ہی صحیح طرح سے پڑھ پاتا تھا اور نہ اب روزہ رکھ پایا۔ کتنی نعمتوں سے میں محروم ہورہا تھا۔

منصورہ ہسپتال میں پاکستان کے کچھ نیک فطرت انسانوں نے میری مدد، میری دلجوئی اور میری حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان میں سے ایک تھے مبشر نعیم چودھری صاحب جو کہ منصورہ میں ہی رہتے تھے خود بھی رْکن جماعت تھے اور انکے والد صفدر صاحب بھی رکن جماعت تھے اور جماعت کی طرف سے 1971 سے پہلے بنگلہ دیش میں اہم ذمہ داریاں نبھا چکے تھے۔ مبشر صاحب کا ایک بھائی مظفر نعیم 1993 میں کپواڑہ میں ایک معرکے کے دوران جامِ شہادت نوش کر چکا تھا۔ مبشر بھائی کا پورا خاندان میری اس مشکل گھڑی میں میری دلجوئی کیلئے میرے ساتھ ساتھ کھڑا تھاوہ سب میرے پاس اکثر آتے رہتے تھے۔ ایک دن اپنے گھر کا بہت بڑا TV میرے کمرے میں لائے اور گھر والوں سے کہا کہ تم گذارہ کرلو تاکہ وسیم ہسپتال میں بور نہ ہو۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔آمین

مجھے اس بات کو قبول کرنے میں کئی ماہ لگ گئے کہ مجھے اپنی بقیہ زندگی وہیل چئیر پر گذارنی ہے۔ میرے دل میں ابھی بھی ہلکی سی امید باقی تھی کہ شاید میں دوبارہ چل پھر سکوں۔ میری زندگی نے یک لخت ایک نیا موڑ لیا تھا اور میں اس نئے موڑ پر ششدر، حیران و پریشان تھا۔ ابھی ابھی تو میں Teenage سے باہر نکلا تھا اورجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ جوانی تو اپنے ساتھ نیا جوش اور نیا جذبہ لاتی ہے۔ جوانی تو نام ہی ہے دوڑنے پھرنے کا, تیز رفتاری کا۔ ایک جوان آرام سے کب بیٹھتا ہے. وہیل چئیر پر بیٹھنے کا مطلب تھا ایک شیر کو پنجرے میں قید کرنا،ایک شاہین کو گھونسلے میں بند رکھنا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے جوانی میں ہی بڑھاپا دیکھنا پڑے گا؟ مجھے تو برفیلے کوہساروں کو روند کر میدانِ کارزار میں واپس جانا تھا۔

پچھلے اڑھائی سالوں سے میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک دن میں وطن واپس جاؤں گا اور اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا۔ میں کب یہاں رکنے آیا تھا۔ میں تو میدانِ کارزار میں واپس جانے کیلئے ہر لمحہ بیتاب رہتا تھا۔ میرے سامنے ایک واضع نصب العین تھا، ایک واضع منزل تھی ۔میری نگاہیں اس منزل کو ہر وقت تکتی رہتی تھی۔ اسی لئے اس منزل کو پانے کیلئے خونی لکیر عبور کی تھی۔لیکن زندگی مجھے کس موڑ پر لے کر آئی کہ میرے سارے ارمان میرے سینے میں ہی دفن ہو کر رہ گئے، میرے سارے خواب آناً فاناً چکنا چور ہو گئے۔ ایکدم سے سب کچھ بدل گیا۔ میرے جسم کے ساتھ ساتھ میرے دل پر بھی گہری چوٹ لگی اور میرا ذہن بھی بْری طرح مجروح ہوا۔میں shock میں تھا، میرا دماغ اس نئی صورتحال سے پریشان تھا۔

اب چونکہ وہیل چئیر میری زندگی کا ناگزیر حصہ بننے والی تھی, اسلئے وہیل چئیر منگوانے کا فیصلہ ہوا.تنظیم کے مشورے اور ہدایت پر مبشر بھائی نے سنگاپور سے وہیل چئیر منگوانے کا فیصلہ کیا. یہ وہیل چئیر Breeze Quickee نام سے USA in Made تھی۔قریباً پچاس ہزار اسکی قیمت تھی.Order کروانے کے تقریباً دو مہینے بعد یہ لاہور پہنچی۔اسکے ساتھ ایک cushion بھی تھا pressure sore سے بچنے کیلئے جسکی قیمت تقریباً دس ہزار تھی یوں میری زندگی کا نیا سفر شروع ہوا۔ life bound to a Wheelchaireایک ایسا کھٹن سفر جس کے لئے ہمالیہ جتنا حوصلہ درکار تھا۔ اک ایسا ناگوار سفر جس میں صرف مشکلات ہی مشکلات کا سامنا تھا، بے بسی اور محتاجی کا سفر، ایک ایسا سفر جو نڈھال جسم کے ساتھ مجھے صرف بیٹھ کر ہی طے کرنا تھا، صرف بیٹھ کر ہی مجھے آگے بڑھنا تھا.

کئی مہینے بیڈ پر لیٹنے کے بعد اب وہیل چئیر پر بیٹھنے کا یہ نیا تجربہ تھا۔ فضاء سے زمین پر، زمین سے بیڈ پر اور اب بیڈ سے وہیل چئیر پر ۔ ایک انتہائی تکلیف دہ سفر، رونگٹھے کھڑے کر دینے والا سفر تھا۔ ان مہینوں میں مجھ پر ہزاروں قیامتیں گذر چکی تھی اور اب نہ جانے کتنی اور قیامتیں گذرنی تھیں. اب میری زندگی آسان نہ تھی. اپنی مجھے اپنی بقیہ زندگی میں دو فٹ چوڑی وہیل چئیر پر ، اپنا سارا دن گذارنا تھا. اپنے سارے کام اسی حال میں نمٹانے تھے. اب مجھے سب کام نئے سرے سے اور نئے طریقے سے سیکھنے تھے. سب کچھ بدل چکا تھا اور اب مجھے بھی بدلنا تھا۔ جس طرح ایک شیرخوار بچہ آہستہ آہستہ سب کام سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

چھوٹے چھوٹے کام کرنا بھی اب میرے لئے ناممکن تھا. میں خود کپڑے نہیں پہن سکتا تھا، میں خود رات کو کروٹ نہیں لے سکتا تھا، میں خود بیڈ پر نہ چڑھ سکتا تھا نہ اتر سکتا تھا۔ میں خود نہا نہیں سکتا تھا۔ میں خود نہ کھا سکتا تھا نہ پانی پی سکتا تھا۔ غرض ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے میں دوسروں کا محتاج تھا۔ کئی مہینے تک ایسے ہی چلتا رہا تھا۔ جسمانی تکالیف میرے جسم تک محدود تھی لیکن یہ دوسروں کی محتاجی میرے قلب و ذہن کو بہت زیادہ تکلیف دے رہی تھی۔ میں بیک وقت ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گذر رہا تھا۔ میری جنگ دو محاذوں پر بٹ چکی تھی اور ہر محاذ میری ہمت اور حوصلے کا امتحان لے رہا تھا۔ میری متحرک زندگی جامد و ساکن ہو چکی تھی اور اس جامد و ساکن زندگی کو مجھے پھر سے متحرک کرنا تھا۔ جسطرح ایک چلتی گاڑی میں اچانک کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے اور اسکے ڈرائیور کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ رْکی ہوئی گاڑی پھر سے چل پڑے۔ لاکھ چاہنے کے باوجود میرا جسم میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا کیونکہ جسم دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ جسم کا آدھا حصہ میرے اختیار میں تھا اور آدھا حصہ میرے اختیار سے باہر تھا۔میری ریڈھ کی ہڈی، جس نے دونوں حصوں کو جوڑا ہوا تھا، بیچ میں ٹوٹ چکی تھی اور ابھی جڑنے کے مراحل سے گذر رہی تھی۔ اس کے جْڑنے میں چھ مہینے لگ گئے ۔تب تک اس میں لوہے کی پلیٹیں اور لوہے کے چھ screw بدستور لگے ہوئے تھے جو میری کمر کو جْھکنے بھی نہیں دیتے تھے اور مجھے مہینوں تک ایک موٹی بیلٹ کمر پہ باندھنی پڑی۔

مجھے اپنے ذہن کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھنا تھا تاکہ میری توجہ میری جسمانی تکالیف سے وقتی طور ہٹ سکے۔ مصروفیت انسان کو ذہنی انتشار سے دور رکھتی ہے۔ لیکن میری جسمانی حالت اتنی ناگفتہ بہ تھی کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ذہن کو کیسے مصروف رکھوں۔ پہلے کچھ مہینے تو بیڈ پر ہی لیٹے لیٹے گذر گئے اور وہ بھی درد اور بخار کی حالت میں۔ آہستہ آہستہ میں نے کوشش کی کہ لیٹے لیٹے ہی مطالعہ کروں کیونکہ اسلامی کتب کا مطالعہ بچپن سے ہی میرا محبوب مشغلہ رہ چکا ہے۔ لیٹے لیٹے مطالعہ کرنے سے دقت ہوتی تھی اور بعد اذاں میری آنکھوں کی بینائی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کچھ مہینے جب گذر گئے اور وہیل چئیر کا بھی جب بندوست ہوا تو ساتھی مجھے منصورہ کی لائبریری میں لے کر جاتے۔ یہ لائبریری ہسپتال کے متصل ہی تھی۔

پہلے دن جب میں لائبریری گیا تو میری نظر سید مودودی ؒکی کتاب تفہیمات” پر پڑی. یہ کتاب بیس کیمپ میں میرے زیرِ مطالعہ تھی کہ اسی دوران میرے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا۔ میں نے اب اسی کتاب کو پڑھنے کا ارادہ کیا تاکہ اسکا مطالعہ مکمل کر سکوں۔ میں ہر روز تقریباً دو گھنٹے اس لائبریری میں گذارتا۔ اسطرح میں تھوڑا سا مصروف بھی رہتا اور میرے علم کی پیاس بھی بْجھتی رہتی ۔کچھ وقت میں منصورہ کی ایک چھوٹی سی پارک میں گذارتا۔ اس پارک میں بیٹھے بیٹھے میں روز منصورہ کی گلیوں سے جماعت اسلامی کی عظیم ہستیوں کو گذرتے دیکھتا خاصکر مرحوم قاضی حسین احمدؒ، مرحوم منور حسنؒ، مرحوم عبدالغفار عزیزؒ، شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک، لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس وغیرہ۔ کبھی کبھار ان سے ہلکی پھلی بات چیت بھی ہوجاتی۔

٭٭٭