راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی

وسیم حجازی

(گذشتہ سے پیوستہ)

منصورہ ہسپتال میں پہلے چھ مہینے میرے لئے قیامت خیز تھے۔ میرا جسم اس شدید چوٹ کے بدلے میں مجھ سے بدلہ لے رہا تھا۔ اس شدید چوٹ نے نہ صرف میرے جسم کو متاثر کیا تھا بلکہ اس نے میری رواں دواں زندگی کو یکلخت روک دیا تھا، میرے چہرے کی مسکراہٹ کو مجھ سے چھین لیا تھا، میرے ارمانوں کے میناروں کو زمین بوس کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرا جسم مجھ سے بغاوت کر رہا ہو کیونکہ میرا جسم میرے کنٹرول میں نہ رہا تھا۔ جسم کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ یہ چھ مہینے اسی بغاوت کو دیکھنے میں گذر گئے۔ اس دوران میرے جسم کا انگ انگ تکلیف سے گذر رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے رات دن میرے جسم پر کوئی کوڑے برسا رہا ہو۔ نہ دن کو سکون تھا، نہ رات کو آرام۔ میری نگاہیں اللہ کے رحم و کرم کو تک رہی تھیں۔

ایک دن کمرے کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ ساتھیوں نے دروازہ کھولا تو ایک باپردہ خاتون ایک ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی ۔میں پہلے کچھ بھی نہ سمجھ پایا کہ آخر اس دیار غیر میں یہ کونسی خاتون ہیں جو میری بیمار پْرسی کیلئے تشریف لائی ہیں۔ مختصراً انہوں نے جب اپنا تعارف کروایا تو میرے ذہن میں دفعتاً میرے جگری دوست شہید عمر علی کا خیال آیا۔ عمر علی ابھی کچھ مہینے پہلے ہی ترہگام کپواڑہ میں شہید ہوگیا تھا۔ مجھے پچھلے سال ہی عمر علی نے اس نیک سیرت خاتون کے بارے میں بتایا تھا ۔ عمر علی ان دنوں اسلام آباد دفتر میں ہی تنظیمی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔

رفیق، شفیق اور دردِ دل رکھنے والی یہ نیک سیرت پڑھی لکھی خاتون راہِ حق کے مسافروں کی مدد کیلئے خود کو وقف کر چکی تھی۔ خاصکر صحابیات کے نقشِ قدم پر چل کر زخمی غازیوں کی مدد کرنا اْنکی اولین ترجیح تھی۔ ہم انہیں فاطمہ باجی کے نام سے پْکارنے لگے۔ میری حالت دیکھ کر باجی نے نہ صرف مجھے حوصلہ دیا اور میری ہمت بڑھائی بلکہ میری عملی طور پر مدد کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے میری مدد کی ۔ایک ماہ نہیں دو ماہ نہیں، ایک سال نہیں دو سال نہیں بلکہ پورے گیارہ سال تک جب تک نہ میں وطن واپس لوٹ گیا۔ وہ سرگودھا کی رہنے والی تھی لیکن اب انہوں نے لاہور میں اپنی بہن کے ہاں قیام کیا تاکہ وہ روزانہ میرے پاس ہسپتال آسکے اور میرے معاملات کو سنبھال سکے۔

پاکستان کے انصار کس طرح مہاجرین کشمیر کی مدد و اعانت کرتے تھے اسکا مشاہدہ میں نے پاکستان میں اپنے چودہ سالہ قیام کے دوران کئی بار کیا۔ اپنے ان انصار و مددگار کو دیکھ کر انصارِ مدینہ کی یادیں تازہ ہو جاتی تھی جنہوں نے مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کی ہر طرح سے مدد کی تھی ۔فرزندانِ پاکستان نے کشمیر سے ہجرت کرنے والے غازیوں کے رستوں پر اپنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ۔انہوں نے ہمیں کبھی بھی اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ خاصکر تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد تو “من تو شْدم، تو من شْدی” کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئے۔ اقبال کے شہر، لاہور، میں اپنے قیام کے دوران میں نے اپنے پاکستانی محسنوں کو توقع سے بڑھ کر ہمدرد، خیرخواہ اور اپنا مددگار پایا۔ جن کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں بلکہ محض ایک دینی رشتہ تھا۔

شدید گرمیوں میں ایک دن ایک بوڑھی اماں 8 گھنٹے کی طویل مْسافت طے کر کے میری عیادت کو آئی۔ اس بوڑھی اماں نے جب میرے بارے میں سْنا تو ان سے رہا نہ گیا اور گرمی اور طویل مسافت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف مجھے حوصلہ دینے کیلئے میرے پاس آئی۔ پچھلے سال ہی شاکر صاحب اور میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک تقریری دورے کے دوران ان کے ہاں ٹھہرے تھے۔ یہ لوگ فتح پور ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے۔ یہ ایک دیندار تحریک پسند گھرانہ تھا۔ انکا ایک بیٹا مرزا غلام قادر رْکن جماعت تھا۔ دو سال بعد مرزا غلام قادر نے اپنے 15 سالہ بیٹے احمد فاروق کو کشمیر روانہ کیا جہاں وہ کچھ ہی عرصے بعد ایک معرکے میں شہید ہوگئے۔ پھر دوسرے بیٹے کو بھی روانگی کیلئے تیار کیا کہ اسی دوران اس بیٹے کا بھی انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین

ایک دن یہ دلگْْداز خبر سننے کو ملی کہ ہمارے ایک ساتھی وسیم تْرابی صاحب اس دارالفناء سے دارلبقاء کی طرف رحلت کرکے حیاتِ جاودانی پا گئے ہیں۔ سننے میں آیا کہ اچانک انکو Hemorrhage Brainہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ وسیم ترابی صاحب ہمارے ہی علاقے کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے ۔وہ ایک دیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے جنکا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ انکے ایک چچا غلام محمد یتو صاحب 1994 میں عیدالاضحٰی کے دن جامِ شہادت نوش کر گئے اور دوسرے چچا شہید غلام احمد یتو صاحب اگست 1995 میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائض ہوئے۔ شہید غلام احمد یتو صاحب میٹرک میں میرے ریاضی کے استاد رہ چکے تھے۔ وہ انتہائی قابل اور محنتی اْستاد تھے۔ چونکہ وہ جماعت اسلامی کے ایک سرگرم کارکن تھے اسی لئے انہیں اس “جْرم” کی پاداش میں ابدی نیند سْلا دیا گیا۔ اسطرح اس خاندان پر تین سالوں میں پیدرپے تین قیامتیں گذر گئیں۔ ایک ہی گھر کے تین جوانوں کی رحلت نے اس گھر کے افراد پر کیا قیامتیں ڈھائی ہونگی یہ بس وہی سمجھ سکتے ہیں۔

وسیم ترابی صاحب اکثر معدے کی تکلیف میں مبتلا رہتے تھے ۔انکا ایک گردہ بھی خراب ہوا تھا جسے بعد میں نکالا گیا۔وہ شہادت کی تمنا لے کر گھر سے نکلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انکی یہ آرزو اپنے وطن سے دور ہی پوری کی۔اپنے دونوں شہید چچاؤں کے برعکس انکی قسمت میں مظفرآباد کی مٹی میں دفن ہونا لکھا تھا جہاں وہ شاید آج بھی منتظر ہوں کہ کاش کوئی انکے گھر سے ایک بار تو آئے اور ایک دفعہ فاتحہ پڑھ کر چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور انکے دونوں چاچا جانوںکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور انکے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے ۔آمین

مسلسل ساتھی میری عیادت کو آ رہے تھے۔ ساتھ ہی میری تیمارداری کیلئے بھی ساتھی بدلتے رہتے تھے ۔جنہوں نے میرا حد سے زیادہ خیال رکھا۔ شاکر صاحب نے اس سارے معاملے کو سنبھالا۔ چونکہ ان دنوں کوئی ٹیلیفون کا رابطہ نہ تھا اس لئے شاکرصاحب کے خطوط مسلسل مجھ تک پہنچ رہے تھے جن سے مجھے کافی حوصلہ ملتا تھا۔ شاکر صاحب خود بھی کئی دفعہ منصورہ ہسپتال تشریف لائے۔ اس کیلئے علاوہ تنظیم کے اعلی ذمہ داران بھی وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہتے تھے جن میں شہید برہان الدین صاحب اور مقبول صاحب سرفہرست ہیں۔ سب لوگوں نے مجھے دلاسہ اور حوصلہ دینے میں کو کسر نہ چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ایسے لوگوں کے دلوں میں بے انتہا محبت ڈال دی جنکے ساتھ میرا کوئی خونی رشتہ نہ تھا بلکہ محض دینی رشتہ تھا۔

اْس سال بھی جب روزے اختتام پذیر ہوئے اور روئیت ہلال کمیٹی نے ماہ شوال کا ہلال نظر آنے کا اعلان کیا تو دوسروں کے برعکس میرے چہرے پر اْداسی تھی۔ یہ کیسا ماہِ رمضان آیا تھا میری زندگی میں جس میں نہ میں روزہ رکھ سکا، نہ تراویح پڑھ سکا، نہ کوئی شب بیداری کر سکا۔ یہ میری زندگی کی پانچویں عید تھی جو میں اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور ، اپنوں سے دور منا رہا تھا۔ مگر اب کی بار یہ عید میں ایک ہسپتال کے کمرے کی چار دیواری کے اندر بیڈ پر لیٹے لیٹے منا رہا تھا۔ میں نہا بھی نہیں سکا، میرے جسم پر کوئی نئے کپڑے بھی نہ تھے ۔عید نماز پڑھنے سے بھی محروم تھا۔ نئے پکوان بھی میرے نصیب میں نہ تھے۔ یہ میری اس نئے طرزِ زندگی کی پہلی عید تھی جب تقدیر نے مجھے “عمر بھر کی معذوری” کا تمغہ پہنایا تھا۔ یہ عید تو میری زندگی کی ایک بھیانک عید تھی۔

میرے کمزور جسم پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ جتنی بڑی آزمائش ڈالی تھی۔ ایسے میں میرے حوصلوں کو اگر کسی بات نے چٹان کی طرح مضبوط رکھا تو وہ یہ تھی کہ یہ آزمائش اللہ کی راہ میں تھی۔ یہ گہری چوٹ میں نے اللہ کے رستے میں کھائی تھی ۔میں نے اپنا گھر چھوڑا تھا، اپنی تعلیم اور اپنا کیرئر چھوڑا تھا، اپنا وطن چھوڑا تھا، بڑی تکلیفیں اْٹھا کر، موت سے آنکھیں لڑا کر وطن سے ہجرت کی تھی، سخت ترین مراحل سے گذر کر عسکری تربیت حاصل کی تھی۔ یہ سب کچھ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کیلئے تھا۔ اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے تھا۔ جس طرح اللہ کی راہ میں موت کی قدروقیمت ہی الگ ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں کھائی گئی چوٹ کی قدروقیمت ہی الگ ہے۔ اسی بات نے مجھے بیحد حوصلہ دیا۔

کیمپ میں میرا بیگ رہ گیا تھا جس میں میرے کپڑے اور دوسری کچھ ضرورت کی چیزوں کے علاوہ میرا ایک ہزار روپے بھی تھا ۔اس دیارِ غیر میں یہی میری پونجی تھی، یہی میری پراپرٹی تھی۔ جب بھی مجھے کہیں جانا ہوتا تو بس یہی ایک بیگ میرے ساتھ ہوتا تھا۔ ہمارے ہر ساتھی کے پاس بس کپڑوں کا ایک بیگ اور پہننے کیلئے ایک جوڑا جوتا ہوتا اور اپنے خرچے کیلئے چند پیسے ہوتے۔ یہ ایک بیگ کندھوں پر لئے ہم نہ جانے کہاں کہاں راہِ حق کی خاک چھانتے پھرتے کی۔ ہماری زندگی بھی کتنی سیدھی سادھی تھی۔ ہم جو اپنے رب سے اپنی جانوں کا سودا کر چکے تھے اسلئے دنیا کی تمنا ہمارے دلوں سے نکل چکی تھی۔ شہادت کی آرزو نے ہمیں دنیا کی لذتوں سے بیگانہ کر دیا تھا۔منصورہ ہسپتال میں ایک تجربہ کار، فرض شناس اور خوش اخلاق خاتون نرس تھی جسکی عمر قریباً پچاس سال کے قریب تھی، یہ اس ہسپتال میں واحد خاتون نرس تھی۔ جب سے میں اس ہسپتال میں ایڈمٹ ہوا تھا، اس نرس نے میری دیکھ بال اور حوصلہ افزائی کے علاوہ اس مشکل صورتحال میں میری بھرپور راہنمائی کی۔ مجھے کب کیا کھانا ہے، کتنا کھانا ہے، چاہے وہ غذا ہو یا دوائی، اسی نرس نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ اس نے ہمیشہ مجھے اپنی نگرانی میں رکھا تاکہ میرے ساتھ کوئی پیچیدہ صورتحال پیش نہ آئے۔ روزانہ میرا بخار، نبض اور میرا بلڈ پریشر چیک کروانا اسی کی ذمہ داری تھا۔ میں اسکی گوناگوں صفات کی وجہ سے اس سے حد درجہ متاثر تھا۔ اسکے اندر انسانیت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا، اسکی شفقت کو میں کبھی بھی بْھلا نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ آمین

چونکہ میں اکثر و بیشتر بیڈ پر ہی لیٹا رہتا تھا اسلئے ڈاکٹروں کی ہدایت پر میرے ساتھی میری ٹانگوں اور میرے بازوؤں کی ورزش کرنے لگے تاکہ میری ٹانگوں اور بازؤں کے جوڑ Lock نہ ہونے پائیں اور میرے جسم میں کچھ طاقت آ جائے ۔چونکہ ہاتھوں کی انگلیاں بھی بہت کمزور ہوچکی تھیں اسلئے hand gripper منگوائے گئے جنکو میں کئی بار ہاتھوں سے دباتا رہتا۔ اس کے علاوہd chest expan بھی منگوایا گیا جسکو میں دونوں بازؤں سے دن میں کئی بار کھینچتا رہتا۔تربیت گاہ کی سخت جان ورزش سے لیکر اس نرم و گداز ورزش تک کا سفر قیامت خیز مرحلوں سے گذر چکا تھا۔ صرف ایک حادثے نے میرے لوہے جیسے بدن کو لمحوں میں آبگینہ بنا دیا تھا۔ وہ جو ہر روز صبح سویرے سخت ورزش کرنے کا عادی تھا، اب ذرا سی ورزش کیلئے بھی دوسروں کا محتاج بن چکا تھا۔

اْن دنوں منصورہ ہسپتال میں کئی افغانی زیرِ علاج تھے جن میں کچھ آٹھ دس سال کے بچے بھی تھے۔ ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی۔ جماعتِ اسلامی پاکستان نے منصورہ ہسپتال کو 1982 میں اسی لئے قائم کیا تھا تاکہ یہاں افغان جنگ کے دوران ہونے والے زخمیوں کا مفت علاج کیا جا سکے۔ اس ہسپتال میں ہزاروں زخمی افغانیوں کا علاج کیا گیا ۔آپریشن کے چھ ماہ بعد اب وقت آچکا تھا کہ میری ریڈھ کی ہڈی میں جو plates اور screws لگائے گئے تھے انہیں نکالا جائے. مجھے ڈاکٹر عامر عزیز کے پاس اتفاق ہسپتال لے جایا گیا۔اس بار مجھے اس عظیم ڈاکٹر کو دیکھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقعہ بھی ملا۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا. مقررہ تاریخ پر مجھے اتفاق ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں Anaesthesia دیا گیا اور میں لمحوں میں بیہوش ہوگیا۔ ڈاکٹر عامر عزیز پھر سے میری کمر کی جلد پر نشتر چلا رہا تھا۔ میری کمر سے وہ بوجھ اتار رہا تھا جسے میں چھ مہینوں سے بڑی مشکل سے برداشت کر رہا تھا۔ میری اس ریڈھ کی ہڈی نے ٹوٹنے کے بعد جْڑنے میں چھ ماہ لگائے مگر افسوس اسکے بیچوں بیچ گذرنے والے spinal کارڑکو جوڑنے کا علم دنیا کے کسی ڈاکٹر کے پاس نہ تھا۔

میری آنکھ جب کْھلی تو میں نے اپنے ارد گرد اپنے تیماردار ساتھیوں اور فاطمہ باجی کو پایا۔ پوری طرح ہوش میں آنے میں مجھے مزید کچھ وقت لگا۔ ساتھیوں کے مطابق اس نیم بیہوشی کے دوران میں “شہادت” سے متعلق کچھ الفاظ بڑبڑا رہا تھا۔پوری طرح جب ہوش آیا تو میں نے اپنی کمر میں کچھ راحت سی محسوس کی ساتھیوں نے جب وہ سب چیزیں دکھائی جو پچھلے چھ مہینوں سے میری ریڈھ کی ہڈی کے ساتھ چپکی ہوئی تھیں تو میرے ہوش اْڑ گئے ۔تقریبا چار انچ کے چھ بولٹ چھ نٹ بولٹ چھ انچ کی دو ironراڑ میری ریڈھ کی ہڈی میں پیوست تھے۔ ان سب کا وزن تقریباً ایک پاؤ کے قریب تھا۔ میرے جسم کا خون ان پر ابھی بھی لگا ہوا تھا۔ میں نے ساتھیوں کو کہا کہ انکو خون سمیت سنبھال کر رکھیں۔ میں نے انکو وطن واپسی تک اپنے پاس سنبھال کر رکھا۔

میری کمر پر دو زخم لگ گئے اور زخموں کے دو نشان رہ گئے۔ ایک آنکھوں کو نظر آنے والا زخم کا وہ نشان، جو ڈاکٹر کے نشتر کے نتیجے میں وجود میں آیا جو کہ اب بھی میر کمر کی جِلد پر صاف نظر آتا ہے۔ دوسرا، زخم کا وہ نشان جو اللہ کے سوا کسی کو نظر نہیں آتا۔ وہ نشان میرے spinalکارڑ پر لگا نشان ہے۔ یہ وہ گہرا زخم ہے جو دنیا کی نگاہوں سے چْھپا ہوا ہے۔ یہ وہ بے رحم زخم ہے جس نے مجھ سے نہ صرف میرا آدھا جسم چھین لیا بلکہ میری زندگی کا ہر خواب، ہر ارمان مجھ سے چھین لیا۔ اس پوشیدہ زخم نے مجھے دوبارہ نہ اْٹھنے دیا، نہ چلنے دیا، نہ دوڑنے دیا۔ اس زخم نے مجھے اگر جینے بھی دیا تو وہ بھی ستا ستا کر، تڑپا تڑپا کر۔ یہ وہ انوکھا زخم ہے جو ایک بار اگر لگ جائے تو پھر کبھی بھرتا نہیں۔ اس زخم کو برداشت کرنے کیلئے بہت بڑا جگرا چاہئے۔

آپریشن سے پہلے ایک نامعلوم شخص ہسپتال میں ہمیں ملا جو TV پر اعلان سن کر کسی کیلئے O-نیگیٹو خون دینے آیا تھا۔وہ مریض تو انہیں نہ ملا لہٰذاانہوں نے میری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اپنا خون دینے کا فیصلہ کیا۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین آپریشن کے بعد میں اتفاق ہسپتال میں کئی دن ایڈمٹ رہا۔ اس دوران میرے کمر کے زخم کی مرہم پٹی ہوتی رہی جس میں اب دوبارہ سے بہت سارے ٹانکے لگے تھے۔ ساتھ ہی Antibiotics بھی مجھے کھانی پڑتی. مجھے نہیں معلوم کہ میری کمر میں اس جگہ آپریشن کے دوران کتنا خون ضائع ہوا تھا۔ میرے بدن میں ویسے بھی خون بہت کم رہ گیا تھا۔ بس میں نقاہت محسوس کر رہا تھا۔اس دوران فاطمہ باجی روز میرے لئے بازار سے chicken سوپ لایا کرتی اور مجھے اپنے ہاتھوں سے پلایا کرتی۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین خیر یہ مشکل مرحلہ بھی گذر گیا۔

انگریزی میں ایک محاورہ ہے Man Proposes God Disposesکبھی کبھار انسان زندگی میں اپنے لئے کوئی منصوبہ بنا رہا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے کوئی اور منصوبہ بنا رہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار انسان اپنی متعین منزل سے صرف دو گام دور ہوتا ہے اور تقدیر آناً فاناً اسے اس منزل سے کوسوں دْور لے جا کر اسکا رْخ کسی دوسری منزل کی طرف پھیر دیتی ہے۔ میرے ساتھ بھی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں جب گھر میں پڑھائی کے دوران ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اور جب اس خواب کے پورا ہونے کا وقت تقریباً نزدیک تھا تو اللہ تعالیٰ نے میرا رخ میدانِ جہاد کی طرف پھیر دیا۔ جب میں شہادت کا تاج اپنے سر پہ سجا کر اللہ کی راہ میں شہید ہونا چاہتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے بدن پر گہرے زخم کا تمغہ پہنا کر مجھے غازی بنادیا۔

میری زندگی میں تین Turning پوائنٹس آگئے. پہلا، جب میں نے وطن سے ہجرت کی۔ دوسرا، جب میرے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ تیسرا، جب میں وطن واپس لوٹ آیا۔ تینوں دفعہ میری زندگی میں یکلخت سب کچھ بدل گیا۔

جاری ہے

٭٭٭